چند روز قبل 22مارچ2022 کو جموں وکشمیر کے کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیر کے صفحہ اول پر ایک ایسی مفصل رپورٹ شائع ہوئی جس میں کشمیر میں منشیات کے استعمال کے حوالہ سے انتہائی چونکا دینے والے انکشافات کئے گئے تھے ۔مذکورہ رپورٹ میں کشمیر میں ہیروئن کے استعمال کی جو منظر کشی کی گئی ہے ،وہ یقینی طور پر اس سماج کی نیندیں اچٹ دینے کیلئے کافی ہے ۔ سرینگر کے صدر ہسپتال میں قائم انسداد نشہ مرکز کے ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ 2019سے2021کے آخر تک انجکشن کے ذریعے ہیروئن کا استعمال کرنے والے مریضوںکے اندراج میں340فیصد اضافہ درج کیاگیا ہے ۔مذکورہ مرکز کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ 2019 میں انجکشن کے ذریعے ہیروئن کے استعمال کے 3852 کیس ریکارڈ کئے گئے تھے جبکہ 2021 میں یہ تعداد بڑھ کر 13200 ہو گئی تھی جو کہ 340 فیصد اضافہ ہے۔ صرف فروری کے مہینے میں 1400 سے زائد مریضوں نے انجکشن کے ذریعے ہیروئن کی لت سے نجات پانے کیلئے اندراج کیا۔کشمیر میں قائم ڈرگ ڈی ایڈکشن سینٹروں میں سے محض ایک ایسے سینٹر کے یہ اعداد و شمار کشمیر میں انجکشن کے ذریعے ہیروئن کے استعمال کے خطرناک رجحان کو ظاہر کرتے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ اب صرف انجکشن کے ذریعے ہی نہیںبلکہ دوسرے طریقے سے بھی یہ نشہ کیاجارہا ہے جس میں سونگھنا اور دھواں لینا بھی شامل ہے۔گوکہ 2019میں حکومت کی ڈرگ ڈی ایڈکشن پالیسی بنائی اور منشیات کی لت پر قابو پانے کیلئے مختلف محکموں کو کام پر لگانے کے علاوہ انسداد نشہ مراکز کی تعداد میں اضافہ کیاگیا اور مزید ایسے مراکز قائم کئے جارہے ہیں تاہم دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ نشہ کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ہر دن پولیس کی جانب سے منشیات سمگلروں کو پکڑے جانے کی خبریں موصول ہورہی ہیں اور المیہ تو یہ ہے کہ کشمیر سے کٹھوعہ تک پورا جموںوکشمیر اس وباء کی لپیٹ میں آچکاہے ۔گو پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ منشیات مخالف مہم میں سرگرم ہے تاہم زمینی صورتحال یہ ہے کہ جموںوکشمیر منشیات کے خریدو فروخت اور استعمال کی پسندیدہ جگہ بن چکا ہے۔ جہاں تک ہماری وادی کشمیر کا تعلق ہے تو یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ کشمیری سماج اس خجالت سے مکمل طور ناآشنا تھا بلکہ یہاں تمباکو کو چھوڑ کر دیگر انواع کے نشوں کے بارے میں سوچنا اور بات کرنا بھی گناہ عظیم تصور کیاجاتا تھا تاہم اب وہ صورتحال نہیں رہی ہے۔چینیوں کو تودہائیوں قبل اس لت سے نجات مل گئی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر اس دلدل میں پھنستے ہی جارہا ہے اور یہاں ہرگزرنے والے سال کے ساتھ ساتھ نہ صرف منشیات کا کاروبار فروغ پاجارہا ہے بلکہ منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔ ماہرین نفسیات کے مطابق 16 سے 30 برس کے درمیانی عمروں کے لوگ اس خباثت کی طرف زیادہ آسانی سے راغب ہوتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیرمیں تقریباً 3.8 فیصد آبادی افیم اور افیم سے وابستہ نشے کی عادی ہے، جو انتہائی بڑی تعداد ہے۔ اس معاملے میں کشمیر نے ایران کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، جہاں کل آبادی کے 2.6 فیصد لوگ افیم اور اس سے وابستہ نشہ آور چیزیں استعمال کرتے ہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سب کچھ سرکاری حکام کی ناک کے نیچے کیسے ہوتا ہے؟ بھنگ، پاپی اور ایسی دوسری نشہ آور فصلیں این ڈی پی ایس ایکٹ، 1985 کی دفعہ 18 کے تحت ایک قابل سزا جرم ہے اور اس کیلئے مجرم کو 10 سال قید با مشقت اور ایک لاکھ روپے تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔ایسی منشیات کو خریدنا اور فروخت کرنا بھی اس قانون کی دفعہ 15 کے تحت جرم ہے۔ مرکزی حکومت کے ذریعے پاس کئے گئے اس قانون کو ریاستی حکومتیں اپنی زمینی حقائق کی بنیاد پر نافذ کرتی ہیں۔ اگرچہ اس قانو ن کی دفعہ 10 یوٹی حکومت کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ افیم، پاپی کے پودوں اور دوائوں میں استعمال ہونے والی افیم اور بھنگ کی کھیتی کی بین الریاستی حرکت پر روک لگا سکتے اور اسے ضبط کر سکتے ہیں تاہم عملی طور ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے بلکہ اگر حق گوئی سے کام لیاجائے تو حکومتی سطح پر صرف کاغذے گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں جبکہ عملی سطح پر کچھ کام نہیں ہورہا ہے جس کے نتیجہ میں ہماری نوجوان نسل اس دلدل میں پھنستی ہی چلی جارہی ہے اور اگر یہی رجحان جاری رہا تو کشمیری سماج کے مستقبل کے بارے میں کچھ وثوق کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا ہے ۔اگر افیم زدہ چینی قوم اس خجالت سے نجات پاسکتی ہے توماضی قریب تک اس لعنت سے نامانوس کشمیری قوم کیوں نشے کے سمندر میں غرق ہوتی جارہی ہے ۔یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا ارباب حل و عقد اور اہل دانش کو دینا پڑے گاوگرنہ یہی کہاجائے گا کہ ارباب اختیار کشمیریوں کی بربادی کا تماشا دیکھنے پر تلے ہوئے ہیں جو کسی صدمہ عظیم سے کم نہ ہوگا۔