پچھلے تین ہفتوںسے اپنے مطالبات کے حق میں کام چھوڑ ہڑتال کئے ہوئے نیشنل ہیلتھ مشن ملازمین پر پولیس کا لاٹھی چارج کسی اعتبار سے کوئی قانونی کاروائی قرار نہیں دی جاسکتی بلکہ احتجاجی ملازمین کو خاموش کرنے کا ایک مذموم طریقہ ہی ٹھہر سکتا ہے۔گزشتہ روز وزیر برائے صحت و طبی تعلیم بالی بھگت کی طرف سے قانون ساز کونسل میں نیشنل ہیلتھ مشن ملازمین کی ملازمتوںکو باقاعدہ بنائے جانے کے مطالبہ پر منفی جواب آنے کے بعد ان ہڑتالی ملازمین نے سیکریٹریٹ چلو ریلی نکالی جس کو ناکام بنانے کے لئے ان ملازمین پہ تحاشہ لاٹھیاں برسائی گئیں اور آنسو گیس کے سمیتدیگر تمام طرح کے حربوں کو استعمال بھی کیاگیا ۔حیرت کا مقام یہ ہے کہ اس کاروائی کے دوران خواتین ملازمین کوبھی نشانہ بنانے سےاحتراز نہیں کیا گیا اورپولیس اہلکاروں کے ہاتھوں انہیں بھی لاٹھیاں کھاناپڑیں جس کے نتیجہ میں متعدد ملازمین زخمی ہوئے جن میں ایک بڑی تعداد خواتین کی بھی ہے ۔مطالبات تسلیم کرنا یا نہ کرنا ایک الگ سوال ہے لیکن جس طرح سے خواتین سمیت ملازمین پر طاقت کا استعمال کیاگیا وہ کسی اعتبار سے کوئی جمہوری عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔یہ امر حیران کن ہے کہ ایک طرف وزیر صحت یہ کہتے ہیں کہ این ایچ ایم ملازمین کو انسانی بنیادوں پر مستقل ملازمت کے دائرے میں لانے کے اقدامات کئے جائیںگے اور دوسری طرف وہ ان کے اس مطالبے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں مستقل نہیں کیاجاسکتا اور نہ ہی وہ کوئی تحریری یقین دہانی دے سکتے ہیں کیونکہ یہ ملازمین مرکزی معاونت والی سکیم کے تحت تعینات ہوئے ہیں ۔بے شک این ایچ ایم ملازمین کی تعیناتی مرکزی معاونت کی سکیم کے تحت ہوئی ہیں لیکن وہ پچھلے کئی برسوںسے ریاست کے دور دراز علاقوں میں طبی خدمات انجام دے رہے ہیں اور انہی کی وجہ سے دیہی طبی نظام میں کچھ حد تک سدھار بھی آیاہے لہٰذا ان کے ساتھ انسانی بنیادوں پر ہمدردی سے پیش آناچاہئے اور مرحلہ وار طریقہ سے ان کی ملازمت کو باقاعدہ بنانے کیلئے کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کیاجاناچاہئے کیونکہ اب یہ ملازمین نہ کوئی دوسرا کام کرنے کے لائق رہ گئے ہیں اور نہ ہی وہ عمر کی حد پار کرنے کی وجہ سے سرکاری نوکریوں کےلئے درخواستیں دینے کے قابل ہیں۔انہوںنے اپنی جوانی اسی محکمہ کو دے دی اور اب ان کے ساتھ اسی طرح سے انصاف کیاجاناچاہئے جس طرح سے ساٹھ ہزار ڈیلی ویجرملازمین کی ملازمت کو مستقلی کے دائرے میں لانے کا اعلان کیاگیاہے ۔این ایچ ایم ملازمین کی کام چھوڑ ہڑتال سے فی الوقت طبی نظام کا کیا حشر ہو کررہ گیاہے، اس پر صفحوں کے صفحے سیاہ ہوسکتے ہیں۔لیکن بطور حوالہ یہ بیان کیاجاسکتاہے کہ بیشتر طبی ادارے مقفل ہوجانے کے بعد محکمہ کو متعدد طبی مراکز میںدرجہ چہارم کے ملازمین کو تعینات کرناپڑاہے اور اب کئی دیہی علاقوں کا طبی نظام انہی نا تجربہ کار وںکے رحم و کرم پر ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرے اور کوئی لائحہ عمل مرتب کرکے ان ملازمین کا ہی نہیں بلکہ دیگر عارضی ملازمین کا مستقبل بھی تباہ ہونے سے بچائے ۔ بھلے ہی اس کیلئے مرکز سے بھی بات کیوں نہ کرناپڑے ۔ ملازمین کے مطالبات پر کان نہ دھرنے اور ان پر لاٹھیاں برسانے کے رویہ کو ترک کردیاجاناچاہئے اور ان کے ساتھ وہ سلوک کیاجائے جس کے وہ حقدار ہیں ۔