ابھی مودی مہاراج کے منہ سے یہ لعل و گوہر گرا ہی تھا کہ مسلٔہ کشمیر گولی اور گالی سے حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے منا بھائی ایم بی بی ایس کے مطابق جادو کی جپی کی ضرورت ہے کہ اپنے ملک کشمیر کے سیاسی رند اس میخانے سے جام پر جام انڈیلنے لگے۔ بانوئے کشمیر نے فوراً فتویٰ جاری کردیا کہ مودی مہاراج نے قلم سنبھالا اور دوات سے روشنائی نکال کر جس حکم حاکم پر مہر ثبت کردی وہ اصل میں ہمارے مرد مومن کا خواب ہے ۔ہمارا خواب گولی سے نہیں بولی سے تھا جس کی تعبیر پیلٹ بنی۔ بنڈ پوری پیر صاحب جادو کی جپی کی کامیابی کے لئے تعویذ لکھنے لگے کہ کہیں یہ جادو کی جپی اس قدر زوردار نہ ہو کہ جو جکڑا وہ پکڑا ۔ ملک کشمیر میں’’ لولہ روژھ نالہ موت‘‘ (محبت کے بغیر گلے لگانا) بڑا بدنام ہے اور یہاں تو منی بدنام ہوئی پھر گلے لگانے والی بات کیا مضائقہ۔ اور ایک وہ ہیں جو ۲۰۱۴ء سے مسلسل مودی گیان میں مصروف ہیں تاکہ قلم دوات والی مرکزی کابینہ سیٹ کی کنجی ان کے ہاتھ تھما دیں لیکن ابھی تک مودی مہاراج کو شیشے میں نہ اُتار پائے بلکہ ابھی تک ان کا ہینڈ بیگ بننے کی کوشش میں ہیں کہ بھکت جن سے زیادہ مودی قصیدے پڑتے ہیں۔ڈر ہے کہیں ہل والوں کے بب کلمہ کی طرح مودی کلمہ اختیار نہ کریں۔ خود ینگ مولوی عمر صاحب مار بھی میدان عمل میں کود پڑے کہ کہیں ہمارا بیان این آئی تلاشی مہم کی اوٹ میں چھپ نہ جائے اس لئے تائید کر ڈالی کہ ہم بھی کھڑے ہیں تیری راہوں میں۔ ہل والے ٹویٹ پپو کہنی اور کرنی میں فرق تلاشنے لگے ۔وہ بھی کیا کریں کہ اہل کشمیر پچھلے سالہا سال سے ہل والوں سے کتھنی اور کرنی کا فرق طلب کر رہے ہیں کہ ہم نے تو خون دے کرہل والا جھنڈا اونچا رکھا تاکہ یہ ملک ہمارا ہے اس کا فیصل ہم کریں گا کا نعرہ مستانہ رنگ لائے لیکن رنگ میں جو بھنگ ڈالا گیا اس کا جواب دو ساتھ میں خون کا بھی حساب دو۔ یہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہل والے قائد ثانی اور قلم دوات برداربانوئے کشمیر کو مملکت خداداد سے دوستی کی تمنا ہے یا انہوں نے یہ نیا نعرہ ایجاد کیا ہے۔ ایک مملکت خداداد سے دوستی کے بارے میں قسم کھاتا ہے تو دوسرا ان سے دوستی برقرار رکھنے بلکہ مضبوط کرنے کی دہائی دیتا ہے۔قائد ثانی ہل والے جھنڈے پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے کہ جو کچھ کہوں گا سچ سچ کہوں گا۔اگر کوئی ہمیں چھوٹا ہوا اقتدار واپس دلا سکتا ہے تو وہ یہی نعرہ ہے کہ 35A کو ہاتھ مت لگائو، ۳۵۔ اے اور ۳۷۰ ہماری کرسی کی ٹانگیں سالہاسال سے مضبوط کرتے آئے ہیں ۔اندرا عبداللہ ایکارڈ کے وقت بھی جب ہل والے لیڈروں سے کوئی جواب نہ بن پایا تب بھی مسمی ۳۷۰ ہمارے سامنے سینہ سپر ہو کر کھڑا ہو گیا اور ہماری جان بخشوا دی کہ ہم سب کچھ بیچ کر آئے تھے پر ۳۷۰ ؍نے بیچ بچائو کر ہماری لاج رکھ دی۔یاد رہے اس کے اندر سے تینتیس ہزار کا کرنٹ دوڑتا ہے جو اسے ہاتھ لگائے گا وہ بھسم ہوگا ۔وہ جلے گا تو ہم دور سے تماشا دیکھیں گے اور پھر خود بخود کرسی وہاں سے نکل کر ہماری طرف دوڑے گی اور کرسی ملی پھر ۳۵۔اے کیا؟ ۳۷۰ کیا ؟
مودی مہاراج نے تو آتے ہی نعرہ لگایا تھا کہ بیٹی بچائو ، بیٹی پڑھائو پھر بیٹیوں کی کیا درگت بنی وہ کوئی اخلاق کی بیٹی سے پوچھے، ٹرین میں دوران سفر میرٹھ کی فیملی سے پوچھے لیکن اب کی بار مودی مہاراج نے لال قلعے سے بھی بیٹیوں کا نام لے کر آستھا ، شانتی، ایکتا اور سدبھائونا کو یاد کیا ۔آستھا (عقیدت) کے نام پر تشدد مت کرو لیکن وہ بھولے کہ مہاراشٹر ہائی کورٹ نے محسن شیخ کے مبینہ قاتل کو یہ کہہ کر ضمانت پر رہا کیا کہ یہ قتل عقیدت کے نام پر ہوا ہے۔وہ بولے بھارت شانتی(امن) کے لئے بنا ہے۔کسے نہیں معلوم کہ جنید خان، پہلو خان، اخلاق کا قتل بالکل امن کے ماحول میں کیا گیا،اور یہ کہ یہ قتل کرتے ہوئے بھکت جنوں نے گائے کا نام لے کر ایکتا کا مظاہرہ کیا۔سدبھاؤنا تو کشمیر والوں کے مقابلے کون جانتا ہے۔یہاں سدبھاؤنا کے نام پر سکولوں کو کمپیوٹر دئے گئے اور اسی کے نام پر پیلٹ مار کر انہی بچوں کو اندھا کیا گیا تاکہ وہ یہ سدبھاؤنا والے کمپیوٹر استعمال نہ کر سکیں۔سدبھائونا کی آڑ میں وہیل چیر ان لوگوں کو دے گئے جن کی ہڈی پسلی توڑ کر انہیں لولا لنگڑا بنا دیا گیااور سدبھائونا کی قسمیں کھاتے ہوئے پتھر کے بدلے سیدھے ماتھے پر گولی ماری گئی۔پھر ہم ابھی این آئی اے کے کشمیر منسلک چھاپے ہی سن رہے تھے کہ کیر لہ ر ومانی قصہ کا کیس بھی انہیں سونپا گیایعنی کسی ہندو لڑکی نے جو مسلم لڑکے سے کیرل میں شادی کر دی، شک ہے کہیں اس کی تاریں عسکری لشکروں سے نہ ملی ہوں۔کہیں ان کے زیور میں بم بارود تو نہیں اور ان کے ہونے والے بچے اپنے جسموں پر بارود بھرے جیکٹ جکڑے پہنے پیدا نہ ہوں۔کون جانے نکاح نامے پر نئے حملے کی تصاویر چھپی ہوں۔
مانا کہ بات پرانی ہے لیکن اولڈ از گولڈ کس نے نہ سنا ہوگا مگر جب مودی مہاراج طاق نسیاں پر جمانے کے لئے اولڈ گارڈ کو مارگ درشن منڈل کے لبادے میں لپیٹ لیں پھر اولڈ گولڈ نہیں رہتا بلکہ کولڈ(ٹھنڈا) یا سوئلڈ(آلودہ) بن جاتا ہے۔ وہ جو کہتے ہیں بے کار مباش کچھ کیا کر ۔کچھ نہیں تو دوسرے بے کاروں سے ہی ملا کر۔کچھ یہی حال بھارت ورش کے سابق وزیر یشونت سنہا کا ہے ۔سنہا جی ملک کشمیر کا قضیہ زمین بر سر زمین حل کرنے نکلے ہیں۔اس لئے ملک کشمیر وارد ہوتے رہتے ہیں لیکن ہم تو مہمان نواز ہیں ہر بار ان کا سواگت کرتے ہیں۔چائے پانی پوچھتے ہیں ، خیریت دریافت کرتے ہیں، کچھ ان کی سنتے ہیں کچھ اپنی بتاتے ہیں۔اسی بہانے سرینگر پہنچ کر ہل والے لیڈروں سے ملے کہ وہ بھی آج کل بے روزگار ہیں ۔مانا کہ کبھی کبھار بیرو ہ کے نام سے ان کا نام جڑ جاتا ہے لیکن زیادہ وقت ٹویٹر کی چڑیا کو دانے کھلانے میں صرف ہوتا ہے ۔ایسے میں خوب گزرے کی جو مل بیٹھے دیوانے دو ۔ مانا کہ مودی مہاراج سنہا سے ملنے کے لئے وقت نہیں دیتے ،ہل والوں کی باتیں ایک کان سے سن دوسرے سے چھوڑ دیتے ہیں۔البتہ عمرکا سنہا کے لئے وقت گزاری کا سامان نکل آیا ۔مسلٔہ کشمیر کو چائے کی پیالی پر حل کیا۔قوم کے غم میں ڈنر کھانے کا بھی کبھی نہ کبھی سمے آئے گا تب ہل والے پھر سے اونچا رہے گا ہل والا جھنڈا کا نعرہ لگا کر گپکار پر یلغار کریں گے۔ مسلٔہ کشمیر ہے ہی ایسا کہ زعفرانی دوشیزہ بھی ترنگا لے کر گھنٹہ گھر جانے کی تماشہ کوشش میں ٹی وی چینلوں کی زینت بنتی ہے ،ایک اور خاتون کرفیو کے دوران گھنٹہ گھر کے قریب چار نعرے لگاکر فیس بک کی مدد سے نعرہ باز ہنگامہ کر کے ویر چکر کی دعویدار بن سکتی ہے۔
یہ یوم آزادی بھی کیا چیز ہے کہ جھنڈوں اور ڈنڈوں کی دوڑ ہے۔موہن بھاگوت کو کیرل میں جھنڈا لہرانے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔تریپورہ کے ایماندار وزیر اعلیٰ جن کے اکانوٹ میں فقط دس ہزار روپے ہیں ریڈیو ٹی وی سے خطاب کرنے سے روکا گیا کہ یا تو بھاشن کا بھگوا کرن کرو یا اپنی راہ لو ۔ ہم ایمانداری کو بس پرچار کے لئے استعمال کرتے ہیں ،یقین نہ آئے مودی کے دوست کا کارنامہ سنو۔دروغ بر گردن راوی جس نے یہ اطلاع دی کہ انڈین کسٹم کی پوشیدہ فائلوں کے مطابق اڈانی گروپ نے ۱۵ ؍بلین روپے بلیک پیسہ باہر بھیج دیا۔خیر بات یوم آزادی کے جھنڈوں اور ڈنڈوں کی چل رہی تھی۔ اہل کشمیر کو باہر نکلنے سے روکنے کے لئے ڈنڈے بردار خاکی پوش سڑک سڑک گھومے ، گلی کوچے پھرے ،وزرا ء اور امراء ادھر ادھر بھاگتے رہے کہ جلدی جلدی جھنڈا لہرائو کہیں کچھ اُڑتا ہوا نہ آجائے۔
مودی مہاراج کا ایک بھکت جن بڑے پردیش میں وزیر اعلیٰ ہے ۔گئو ماتا کی خدمت کرتے اور مسلم ماتا کے نام دشنام طرازی کرتے سیاست کی گلیاں پار کر گیا۔ وہ مدفون مہیلاؤں کی عصمت دری کی تلقین کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر پہنچا۔مسلم اقلیت کے خلاف اناپ شناپ بکنے میں اس نے کمال حاصل کیا ۔ باقی کام تو پہلے ہی نپٹا لئے ہیںا،سی لئے یوم آزادی کے موقعے پر مسلم مدرسوں میں تقریبات کی ویڈیو ریکارڈنگ کا حکم صادر کیا ۔وقت جو اس میں صرف ہوا تو اپنے آبائی علاقے گورکھپور میں بڑے اہسپتال میں بچوں کے لئے آکسیجن کب ختم ہوا اس کی اطلاع نہ ملی تو سو سے زیادہ بچے لقمہ اجل بنے۔خیر بچوں کی کسے فکر ، جنم اشٹمی کی تقریبات شایان شان طریقے پر منانے کا آرڈر دیا۔گویا معصوم بچوں کی موت کا شادیانہ ہو۔بچے تو خیر جنتے مرتے رہیں گے لیکن جشن کی تقریبات ہونی چاہیں کہ ان سے ووٹ ملتے ہیں،اس پر ہم کو ایک پرانے فلمی گیت کے بول یاد آئے۔
آو بچو تمہیں دکھائیں جھانکی ہندوستان کی
ایک ہفتے میں سو مرے یہ اُپلبدا یوگستان کی
ادھر چھوٹی چھوٹی آنکھوں والے چینی برابر ڈٹے ہیں بلکہ ڈوکلام میں ڈٹے اور لداخ میں بھی گھسے۔ہو نہ ہو ہندی چینی بھائی بھائی نعرہ کو پس پشت چھوڑ کر ملک کشمیر کے چن کرال محلہ کا خواب دیکھا ،اسی لئے یہاں سے نئی ٹریننگ لی۔ہتھیاروں کے بدلے سنگبازی کا سہارا لیا۔ملک کشمیر کے سنگبازوں نے شاید گوریلا جنگ کے نت نئے طریقے سکھائے ۔کیا پتہ ہند چین مخاصمت نہ ٹلی تو اپنے سنگباز چینی فوج کے صلاح کار بنیں ،سنگ بازی کا پندرہ روزہ مختصر کورس کرائیں۔ پھر سرجیکل اسٹرائک کیا، میزائل کیا ، صحافت کا مچھلی بازار کیا سب کچھ دھرا کا دھرا رہ جائے۔ایسا ہوا تو چین قضیہ کشمیر کا نیا فریق بن جائے گا اور پھر وہ چن کرال محلہ تک ہی نہیں چیشول سے سرسیار تک اپنا حق جتائے گا کہ دفاع پر پیسہ خرچ کئے بنا ہی جنگ جیتنے کا ہنر جو ہمیں آتا ہے۔ ویسے چینی کہانی بھی دلچسپ ہے ۔انہیں صحافت کا مچھلی بازار دھمکی نہیں دیتا۔پڑوسی بدلنے کا طعنہ نہیں دیتا بلکہ خود مودی سرکار پیٹرو چینا کو امریکہ سے بھارت براستہ سمندرتیل لانے کا ٹھیکہ دیتا ہے ۔مانا کہ تم لوگ بھگوان میں یقین نہیں رکھتے لیکن ہم پرارتھنا کریںگے کہ وہی بھگوان تمہیں خوش رکھے ۔ناراض ہو کر سرحد پر کوئی اور فرنٹ نہ کھول دینا ۔ ابھی ہم دوسری سرحد کی سرجیکل اسٹرائک کے کانٹے نہیں نکال پا رہے۔
رابط[email protected]/9419009169