ریاست میں حکمران اتحاد کی شریک بی جے پی کی نظریاتی سرپرست جماعت آر ایس ایس کی اعلیٰ مجلس اکھل بھارتیہ پر تندھی سبھا کا سہ روزہ اجلاس سرمائی راجدھانی جموں میں شروع ہوا ہے۔ اپنی 92 سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب آر ایس ایس نے ریاست کے اندر اس پیمانے کی سرگرمی کا اہتمام کیا ہو، جس میں تنظیم کے اہداف کے تعین اوران کے حصول کےلئے ٹھوس پالیسیوں کی ترتیب پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ جموںوکشمیر کے حوالے سےتنظیم کی پالیسی اسکے ابتدائے آفرینش سے ہی واضح رہی اور وہ وفاق ہند میں ریاست کا مکمل ادغام ہے۔ آئین ہند کی دفعہ370کے تحت جموںوکشمیر کو حاصل خصوصی پوزیشن ، جو گزشتہ 70برسوں کےدوران مختلف سرکاروں کی مہربانی کے طفیل اب براے نام رہ گئی ہے، تواتر کے ساتھ اسکے نشانے پر رہی ہے اور کئی صورتوں میں وہ اسی خصوصی پوزیشن کو مسئلہ کشمیر کی بنیادی وجہ مانتی اور گردانتی رہی ہے، لہٰذا اس کے خاتمے کو ہی مسئلے کا حل قرار دیتی ہے۔ ماضی میں متعدد مرتبہ کھلے عام اسکا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ آر ایس ایس نے سال2002میں ہریانہ کے شہر کو کورکھشتر میں اپنے ایگزیکٹیو اجلاس میں ایک قرار داد کے ذریعہ ریاست جموںوکشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرکے جموں کو علاحدہ ریاست جبکہ لداخ کو وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ریاست کے اندر چل ر ہے دگر گوں حالات کے بیچ اس اجلاس میں کیا کچھ زیر بحث آئیگا، اس پر تبصرہ کرنا ابھی قبل ا ز وقت ہوگا، لیکن ریاست میں پی ڈی پی ، بی جے پی سرکار کے برسراقتدار آنے کے بعد ، جہاں جموںوکشمیر کے حوالے سے اس جماعت کے بیانات میں کسی حد تک حزم و احتیاط کا عنصر دکھائی دیا ہے، وہیں جموں خطہ میں ایسی گرمیوں ، جنہیں اگر اشتعال انگیز کہا جاے تو شاید غلط نہ ہوگا، میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ جبھی تاریخ میں پہلی بار جموں، خطہ چناب اور پیر پنچال علاقہ میں اس جماعت سے وابستہ زیلی جماعتوں نے متعدد مرتبہ کھلے عام ہتھیاروں کی نمائش کرکے ایک ایسے ماحول کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے، جو اشتعال اور انگیخت کے ایک نئے مظہر کے فروغ کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسے حالات میں اگر پر تندھی سبھا اجلاس میں متنازعہ معاملات کو اُبھار کر مخلوط سرکار پر ٹھونسنے کی کوشش کی جائے تو یقینی طور پر اسکے اچھے نتائج سامنے نہیں آسکتے ۔ خاص کر ایسے حالات میں جب جی ایس ٹی کے اطلاق کے عمل میں ریاستی آئین کی د فعہ35-A،جس کی رو سے ریاست کو مالی خودمختاری حاصل ہے، کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا معاملہ اس وقت موضوع بحث بنا ہواہے اور اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ساتھ تاجربرداری اور سیول سوسائٹی بھی حکومت پر یہ الزام عائید کررہی ہے کہ اس نئے قانون کے نفاز کے لئے مذکورہ آئینی دفعہ کو گزند پہنچائی گئی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آر ایس ایس کے ریاستی لیڈروں نے بھی اس دفعہ کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ متذکرہ اجلاس کے چلتے کئی چھوٹے موٹے گروپوں نے دفعہ370کے تحت ریاست کو حاصل اختیارات کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان میں مغربی پاکستان کے مہاجرین اور مہاجر کشمیری پنڈتوں کے کچھ گروپ بھی شامل ہیں، جو بٹوارے کے نتیجہ میں ریاست کے اندر مقیم ہوئی آبادی کے لئے ریاستی کے پشتینی باشندوں کے برابر حقو ق اور کشمیر کے اندر پنڈت مہاجرین کے لئے علاحدہ ہوم لینڈ کے قیام جیسے مطالبات دہرا رہے ہیں۔ ایسےماحول کے چلتے مذکورہ اجلاس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ باالخصوص برسراقتدار پی ڈی پی کےلئے یہ ایک امتحان سے کم نہ ہوگا کہ وہ آر ایس ایس پرتندھی سبھا میں زیر بحث لاے جانے والے معاملات اور انکے نتائج کے تئیں کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔ خاص کر کشمیر کی موجودہ صورتحال اور اسکے تاریخی پس منظر کو نظر میں رکھتے ہوئے ۔ یہ یقیناً پی ڈی پی قیادت کےلئے ایک امتحان سے کم نہ ہوگا۔