اس سال اگست میں کشمیر کی مزاحمتی تحریک کا جدید مرحلہ تیس سال مکمل کرے گا۔کم و بیش ایک لاکھ کشمیریوں کی جانیں گئیں، ہزاروں کے زخم ابھی بھی مندمل نہیں ہوئے، بے شمار گھر اُجڑ گئے اور یتمیوں اور بیواؤں کی بڑی تعداد اُس تاریخی تنازعہ کے متاثرین میں شامل ہوگئی جو طریقہ کار اور بیانیوں کی مسابقتی دوڑ میں اس قدر پیچیدہ ہوگیا ہے کہ نئی نسل آمادہ بہ مرگ ہوگئی۔تیس سال بہت بڑی مدت ہوتی ہے۔ اسی عرصے کے دوران نسبتاً کم جانی نقصان کے عوض افغانیوں نے دو سپرپاورز کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا، اور اس میں پاکستان کے عسکری، سفارتی اور تذویراتی کردار کو صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن اس عرصہ کے دوران ہمارے یہاںکیا ہوا؟ عسکری اور تذویراتی اعتبار سے یہاں کی مسلح مزاحمت کوئی بڑی زمینی تبدیلی لانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی ہے، سیاسی سطح پر مزاحمتی قیادت کا لہجہ اور سرگرمیاں ہلاکتوں کی تعداد اور مظالم کی شدت پر منحصر ہے، اور اجتماعی سطح پر قوم کا مزاج قاعدۂ ضرورت پر منتج ہوا ہے، یعنی جذبات اور عقیدہ یہ کہ رائے شماری ضروری ہے، لیکن اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل اُسی سسٹم کے ساتھ وابستہ کرنے میں دن رات تگ و دو! اگر ان تین دہائیوں کی جدوجہد اور قربانیوں کا کچھ ماحصل ہے تو فقط یہ کہ اقتدار نواز سیاسی ٹولے کا لہجہ معذرت خواہانہ ہوگیا۔
پاکستان میں کوئی بھی حکومت ہو، کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی مدد کی قسمیں کھاتی ہے۔ آج تک سیاسی اخلاقی اور سفارتی مدد کی اس تثلیث کی تشریح نہیں ہوپائی ۔سیاسی مدد سے کیا مراد ہے؟ اگر یہ مراد ہے کہ پاکستان یہاں کی سیاست کو تحفظ دینے میں کشمیریوں کی مدد کرے گا، تو انتظامی اور اقتداری سیاست سے بیزاری کیوں؟ اگر اخلاقی مدد کا مطلب یہ ہے کہ کشمیریوں کی جائز سیاسی خواہشات کو اپنی خارجہ پالیسی میں شامل کرنا ہے تو یہ بلاناغہ ہوتا آیا ہے۔ جہاں تک سفارتی مدد کا تعلق ہے تو اس میں پاکستان کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔
لیکن جس نپے تلے انداز سے عمران خان کی نئی حکومت بھارت کو انگیج کرنے اور کشمیر کو عالمی فورموں میں ہائی لائٹ کرنے کی متوازی کوششیں کررہی ہے، بادی النظر میں لگتا ہے کہ اصولوں پر سمجھوتہ کئے بغیر کوئی بڑا پالیسی شفٹ ہے ، جسکے ذریعہ کشمیریوں کے درد کو کم کرنے کی کاوش ہوگی۔ پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا میرواعظ عمر فاروق کو فون کرنا اور اس پر دلی کا تلملا اُٹھنا اسی پس منظر میں دیکھنا پڑے گا۔
ظاہر ہے 5فروری کو پاکستان سرکاری سطح پر ’’یوم کشمیر‘‘ مناتا ہے، اور اس دن کی مناسبت سے قریشی نے میرواعظ کو یقین دلایا ہے کہ دیگر پروگراموں کے علاوہ وہ بذات خود پاکستان کی سبھی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کا ایک وفد لے کر برطانیہ کی پارلیمنٹ میں یہاں کی صورتحال کو اُجاگر کریں گے۔میرواعظ نے خود اس فون کال کی تفصیلات شئیر کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان اب بھی بھارت کے ساتھ سبھی معاملات پر مربوط مذاکرات کا خواہاں ہے ،تاہم بھارت کے قومی انتخابات کے بعدہی اس سمت میں سرگرمی کے ساتھ کوششیں شروع کی جائیں گی۔
پاکستان کے اس نئے رویہ کا ایک داخلی اور ایک خارجی پس منظر ہے۔داخلی سطح پر جماعت اسلامی کے رہنما مولانا سراج الحق نے ایک بیان میں کہا تھا کہ کشمیری شدید مظالم سہہ رہے ہیں اور عمران خان کی حکومت زبانی جمع خرچ سے کام چلا رہی ہے۔ جماعت کے ساتھ ساتھ دیگر اپوزیشن گروپوں نے بھی اس معاملہ میں لب کشائی کی ہے۔ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے بھی دبے الفاظ میں پاکستان پر زور دیا کہ وہ کشمیریوں کی تحریک کو غیرمبہم اور مکمل حمایت دیں۔ یہ ناراضگیاں ابھی تک کاناپھوسی تک محدود تھیں، اور امکان تھا کہ پانچ فروری کو یہ سرگوشیاں بڑے نعرے کا روپ دھار لیتیں۔ ہوسکتا ہے کہ فون کال کرنا اور برطانیہ جانا ان ہی ناراضگیوں کو ایڈریس کرنے کے لئے ہو۔
جہاں تک خارجی پہلو کا تعلق ہے، تو پاکستان افغانستان سے کم و بیش فارغ ہونے جارہا ہے۔ تو کشمیریوں کے ساتھ براہ راست رابطہ بناکر ہوسکتا ہے کہ یہ عندیہ دیا گیا ہو کہ اب پاکستان کا بنیادی فوکس کشمیر ہوگا۔ لیکن اس فوکس کی نوعیت کیا ہوگی؟ کیا پاکستان عسکری تحریک کی کھلے عام حمایت کامتحمل ہوسکے گا؟ کیا بھارت کے خلاف ہارڈ پوسچرنگ کی جائے گی؟ اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ معنی خیز ہے کہ جس شخص نے کشمیریوں کے ساتھ رابطہ بنانے کی یہ پہل کی ہے، وہ مشرف کی کابینہ میں کشمیر کے حوالے سے بہت سرگرم تھے اور مشرف کے ساتھ ان کے اختلاف کا محرک بھی کشمیر ہی بنا تھا کہ وہ نئی دلی کو یک طرفہ رعایت دینے پر آمادہ نہیں تھے۔ چونکہ بھارت فی الوقت انتخابی بخار میں ہے، لہذا پاکستان اپنے پتے نہیں کھول رہا ہے، تاہم کشمیر میں یہ تاثر تقویت پارہا ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر کشمیر کو کتنابھی اُجاگر کرے بھارت کو فی الوقت عالمی سطح پر کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا اور یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں طاقت کا بے تحاشا استعمال ہورہا ہے، قوانین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرکے کشمیریوں کو سیاسی محتاج بنایا جارہا ہے، قیدیوں کو رہا نہیں کیا جارہا اور مزاحمتی قیادت کا سیاسی قافیہ تنگ کیا جارہا ہے۔
اسلام آباد سے سرینگر تک سب کی نظریں لوک سبھاانتخابات پر ہیں اور سب کو لگتا ہے کہ کانگریس کو اقتدار ملا تو فضا بدل جائے گی۔ لیکن بڑا مسلہ یہ ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں امریکہ کو راحت دینے کے عوض کیا رعایت لے لی ہے۔ اگر بارگین کشمیر پر ہوا ہے اور واشنگٹن نے بھارت پر دباؤ ڈالنے کا وعدہ کیا ہے، تو دلی میں مودی دوبارہ وزیراعظم بنیں یا راہل گاندھی تخت نشین ہوں،تو فضا بدلنے کی توقعات درست بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔ لیکن اگر افغان بارگین میں کشمیر شامل نہیں تھا، تو بیان بازیاں ہوتی رہیں،کشمیر میں جوں کی توں صورتحال رہے گی۔
بشکریہ: ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر