معراج وانی
کشمیری کہاوت ہے،’’کَسب چھ حبیبُ اللہ‘‘ یعنی اپنے ہاتھوں کی حلال کمائی اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اس ایک جملے میں زندگی کی پوری حکمت، سادگی اور کامیابی سمٹی ہوئی ہے۔ انسان جب اپنے ہاتھوں کی کمائی کھاتا ہے، اپنی محنت سے روزی کماتا ہے، تو اس میں نہ صرف برکت ہوتی ہے بلکہ سکون، عزت اور اطمینان بھی اس کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔اسلام نے ہمیشہ محنت، ہنر اور رزقِ حلال کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ نبی پاکؐ نے فرمایا کہ’’کسی نے اس سے بہتر کھانا نہیں کھایا جو اس نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھایا ہو۔‘‘انبیاء کرام علیہم السلام بھی اپنے اپنے پیشوں سے وابستہ رہے۔حضرت آدمؑ کھیتی باڑی کرتے تھے، حضرت نوحؑ بڑھئی تھے، حضرت موسیٰؑ چرواہے رہے اور خود رسولِ اکرمؐ نے تجارت کے ذریعے رزق حاصل کیا۔ یہ تمام مثالیں ہمیں بتاتی ہیں کہ محنت اور ہنر نہ صرف عبادت کے درجہ میں ہیں بلکہ اللہ کی پسندیدہ سنت بھی ہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے باشندوں کی سب سے اہم خوبی اور خصوصیت یہی ہے کہ وہ سب کمانے اور اپنے ملک کو آگے بڑھانے کی کوشش میں مصروف ہوتے ہیں۔
ساداتِ کرام کا کشمیر میں آنا اور ہنر کا فروغ :
جب سید سادات اور اولیائے کرام کشمیر تشریف لائے تو انہوں نے دین کے ساتھ ساتھ اپنے ہنر، بصیرت اور کاریگری بھی یہاں کے لوگوں تک منتقل کی۔ ان بزرگوں نے نہ صرف روحانی روشنی پھیلائی بلکہ مقامی آبادی کو محنت، دستکاری اور کسبِ معاش کے طریقے سکھائے۔کشمیری قالین بانی، نقش و نگاری، تانبہ گری، پیپر ماشی، لکڑی پر نقاشی اور دیگر دستکاریاں صدیوں سے اسی فیضِ باطنی کا نتیجہ ہیں۔ یہ ہنر سات سو سال سے زیادہ عرصے سے کشمیری شناخت کا حصہ ہیں اور ہزاروں خاندانوں کا ذریعہ معاش رہے ہیں۔
ہنر مندی کی اہمیت اور افادیت :
(۱) بے روزگاری پر لگام :ہنر کسی بھی نوجوان کے لیے روزگار کے دروازے کھول دیتا ہے۔ آج کے دور میں صرف ڈگریاں کافی نہیں، عملی ہنر اور مہارت ہی بے روزگاری سے نجات دلاتی ہے۔
(۲) خود مختاری اور خود کفالت :ہنر مند شخص کسی کا محتاج نہیں رہتا۔ وہ اپنے فن کے بل پر اپنا روزگار خود پیدا کرتا ہے۔ یہ خود مختاری عزتِ نفس کو بڑھاتی ہے اور انسان کو باوقار بناتی ہے۔
(۳) حلال اور پسندیدہ روزی کا ذریعہ :اپني محنت سے کمایا ہوا رزق برکت والا ہوتا ہے۔ اس میں سکونِ قلب بھی ہوتا ہے اور اللہ کی رضا بھی۔
(۴) سماجی تعاون کا ذریعہ :ہنر مند افراد اپنے آس پاس کے لوگوں کو روزگار فراہم کر کے معاشرے کو مضبوط بناتے ہیں۔ یوں محلے، بستی اور سماج میں معاشی گردش پیدا ہوتی ہے۔
(۵) بھائی چارے اور میل جول کا ذریعہ :کشمیری دستکاری ہو یا کوئی اور ہنر—لوگ مل جل کر کام کرتے ہیں، تعلقات بنتے ہیں، اور آپس میں تعاون بڑھتا ہے۔ یوں معاشرتی ہم آہنگی قائم ہوتی ہے۔
(۶) خوشحال اور صحت مند معاشرہ :جس سماج میں لوگ محنتی، باہنر اور باعزم ہوں، وہاں غربت کم ہوتی ہے، خوشحالی بڑھتی ہے، اور معاشرہ صحت مند اور مضبوط بنتا ہے۔
(۷) ذہنی سکون اور ڈپریشن کا علاج :ہنر انسان کو مصروف رکھتا ہے، اس کی سوچ کو مثبت بناتا ہے۔ محنت کرنے والا فرد کبھی مایوسی اور ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتا، کیونکہ اسے اپنی کارکردگی میں تسلی ملتی ہے۔
NEP اور نئی نسل کو ہنر مند بنانے کی ضرورت :
نئی قومی تعلیمی پالیسی (NEP) نے خاص طور پر اس بات پر زور دیا ہے کہ نئی نسل کو عملی ہنر سیکھائے جائیں۔ اسکولی سطح پر اسکل بیسڈ ایجوکیشن، ووکیشنل کورسز، ہنرمندی کی تربیت، سکل ڈیولپمنٹ سینٹرز جیسے اقدامات نئے دور کی ضرورت ہیں۔اس پالیسی کا مقصد یہ ہے کہ نوجوان صرف کتابی علم کے حامل نہ رہیں بلکہ اپنے ہاتھوں میں وہ صلاحیتیں بھی رکھیں جو انہیں معاشی طور پر مضبوط، خود مختار اور کامیاب بنائیں۔
نتیجہ:ہنرمندی انسان کو عزت، رزقِ حلال، خوشحالی اور ذہنی سکون عطا کرتی ہے۔ کشمیری کہاوت ’’کسب چھ حبیب اللہ‘‘ نہ صرف ثقافتی حکمت ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کی عملی تعبیر بھی ہے۔ اگر ہم اپنی نسلوں کو ہنر سے آراستہ کریں تو نہ صرف بے روزگاری کم ہو گی بلکہ ایک خود کفیل، مضبوط اور خوشحال معاشرہ تشکیل پائے گا۔
[email protected]