ہندوستان اور پاکستان پر جب بھی کبھی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بیرونی دنیا دباؤ بڑھنے لگتا ہے تو اندرونِ خانہ جان بوجھ کر ایسے کڑوے حالات دفعتاً پیدا کیے جاتے ہیں کہ اصل مسئلے سے توجہ ہٹ جاتی ہے ، رائے عامہ بٹ جاتی ہے اور کوئی دوسرا ہی مناقشہ اژدھا کی طرح پھن پھیلائے برصغیر کے امن کو ڈسنے لگتا ہے کہ اسی بیچ دلی سرکار اپنی تیوریاں تیکھی کر کے کشمیر پر مذاکراتی عمل سے فرار اختیار کرنے کا موقع بآسانی نکال لیتی ہے ۔کشمیری قوم کی بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں دنیا کی نظریں لازمی طور پر اس خطہ کی جانب مبذول ہوجاتی ہیں اور خطہ میں بڑھتے تناؤ کے پیش نظر دنیا کا فکر مند ہونا لازمی بات ہے کیونکہ دو جوہری طاقتوں کی تلخیاں کسی بھی وقت ایسا بھیانک رُخ اختیار کرسکتی ہیں جس سے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑنے کا قوی احتمال ہے۔حالیہ دنوں ایک مرتبہ پھر سرحدوں پر دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے آگئی ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔بھارتی فوج نے پاکستانی فوج کے خصوصی دستے BAT پر الزام عائد کیا کہ اُس نے پونچھ سیکٹر میں کنٹرول لائن کے اس جانب آکر بھارتی فوج کی گشتی پارٹی پر حملہ کرکے مبینہ طور پر دو فوجیوں کے سرکاٹ دئے ہیں اور لاشوں کو مسخ کیا۔ پاکستانی فوج کے ساتھ ساتھ وہاں کی حکومت نے بھی بآواز بلند بھارت کے اس الزام کی سختی کے ساتھ تردید کی۔ البتہ بھارتی میڈیا مسلسل اس مسئلہ کو لے کر دوطرفہ پیچیدہ ماحول میں آگ لگانے کے لیے سنسنی خیز رپورٹیں پیش کرتے ہوئے پہلے سے پاکستان مخالف بھارتی رائے عامہ کو مزید آگ بگولہ کرتا جارہاہے۔ بھارتی فوج کے سربراہ بپن روات نے ہنگامی طورپر ریاست کا دورہ کرکے زمینی حالات کا جائزہ لیا اور اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے اشارہ دیا کہ اُن کی فوج بھی بدلے کی کارروائی کرے گی، البتہ اُنہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ کارروائی کب او رکہاں ہوگی۔ حد تو یہ ہے کہ بھارتی میڈیا چینلوں نے اپنی فوج کی بہادری کے قصے بیان کرتے ہوئے پرائم ٹائم میں اپنی رپوٹوں دعویٰ کیا کہ بھارتی فوج نے پاکستانی چوکیوں پر حملہ کرکے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے بھی لیا۔ ان رپوٹوں میں پاکستانی فوج کو بھاری جانی نقصان پہنچانے کا دعویٰ بھی کیا گیاہے۔ انٹرنیشنل میڈیا میں اس بے سروپا دعوے پر کرکری ہوتے دیکھ کر بھارتی فوج کے ترجمان نے ایسے کسی بھی قسم کے حملے کی تردید کردی۔ دو فوجی جوانوں کی ہلاکت پر دلی نے اپنی ناراضگی جتانے کے لئے پاکستانی سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے اپنا احتجاج درج کرلیا اور پاکستان سے بھارت تعلیمی دورے پرآئے طلبہ کی ایک ٹیم کو واپس بھجوا دیا۔ بدلے میں پاکستان نے بھی کراچی سے ممبئی آنے والی تمام پروازوں کو منسوخ کردیا، اگرچہ پی آئی اے نے اس اقدام کی کوئی اور ہی تشریح کی۔اس طرح دونوں ممالک کے درمیان روایتی نوک جونک مزید تلخیوں اور کدورتوں میں بدل گئی ہے۔ حالانکہ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ دونوں ممالک کے برسر اقتدار ٹولے کے آپس میں خفیہ تعلقات اور رابطے موجود ہیں، جس کی مثال حال ہی میں بھارت کے نامور بزنس مین سجن جندل کا دورہ ٔپاکستان اور وہاں اُن کا سرکاری مہمان کی حیثیت رہنا ہے۔
بھارتی حکومت خصوصاً بی جے پی کے دور اقتدار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات ظاہر و باہر ہوجاتی ہے کہ مودی سرکار جان بوجھ کر اسلام آباد کے تئیں جارحانہ ومتشددانہ رویہ اختیار کرکے مخصوص مائنڈ سیٹ کے مالک ہندوستانی عوام کو’’دیش بھگتی‘‘ کے نام پر اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے پاکستانی کارڈ کا استعمال کر رہی ہے۔اس حکومت نے پاکستان او رمسلم دشمنی کے عوض بھاری اکثریت سے اپنااقتدار حاصل کرلیا ہے اور اسی کے طفیل یوپی کے مسند اقتدار پر بھاجپا دہائیوں بعد قابض ہونے میں کامیاب ہوئی ہے۔ پاکستان دشمنی میں گزشتہ سال سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ بھی بھارتی فوج اور حکومت نے کیا تھا لیکن حالات اور آثار وقرائن کو دیکھتے ہوئے عالمی سطح کے دفاعی امور کے ماہرین نے اُن سرجیکل اسٹرائیک کے حقیقت پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا تھا۔ بھارت کے اندر بھی کئی سیاسی جماعتوں اور لیڈروں نے اپنی حکومت سے اس کے ثبوت مانگے تھے جو اُس وقت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔اب اس بار پھر بھارتی حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ پاکستانی فوج کا خصوصی دستہ کنٹرول لائن عبور کرکے یہاں اُن کی فوج پر حملہ آور ہوا ہے، وہ نہ صرف تین فوجیوں کے ہلاک کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں بلکہ دو فوجیوں کی لاشوں کو مبینہ طور مسخ بھی کیاگیا اور پھر صحیح سلامت بھی واپس بھی چلے گئے۔پاکستان نے بڑے ہی ٹھنڈے اور مدبرانہ انداز میں اس مرتبہ بھی بھارت کے روایتی الزامات کو مسترد کردیا ہے ۔ دیکھنے میں آرہا ہے کہ بھارتی سیاست دان بالخصوص بی جے پی سرکار کا جارحانہ رویہ بھارتی فوج کو مشکل میں ڈال رہا ہے۔بغیر کسی گراؤنڈ ورک کے سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کرنے کے بعد حکمران جماعت کے نیتاؤں کی پوزیشن اس قدر پتلی بنی رہی کہ عام لوگوں تک نے بھی اُن کے دعوے کا مذاق اُڑایا ہے کیونکہ پاکستان کی جانب زمینی سطح پر ایسے کوئی معمولی آثار بھی موجود نہ تھے جن سے معلوم پڑ جاتا کہ بھارتی فوج نے کوئی ’’خطرناک حملہ‘‘ کیا تھا۔اس مرتبہ پھر اپنے فوجیوں کی لاشوں کو مسخ کرنے کا پاکستان پر الزام ان کے لیے گلی کی ہڈی بنتا جارہا ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ دلی کی سیاسی قیادت نے اس واقعہ کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے بھاگ جانے کا سنہری موقع خیال کرکے واویلا کرنا شروع کردیا ، سیاسی لیڈروں کے تند و تیز بیانات نے بھی عوامی سطح پر نفرت کو ہوا دی ہوئی ہے اور بھارتی فوج پر دباؤ آن پڑا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف بدلے کی کارروائی کرکے حساب پوارکر لے۔اپوزیشن کانگریس کے کپل سبل بھی مودی سرکار سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ وہ ایک کے بدلے دس کے سر بھارتی عوام کے سامنے لاکر پیش کرے۔اگر چہ بھارتی فوجی سربراہ نے اشاروں کنایوں میں کہا ہے کہ وہ بدلے کی کارروائی کریں گے لیکن حقیقت یہ ہے پاکستان کے اندر جاکر اُن کی چوکیوں پر حملہ آور ہونا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ یہ بھارتی فوج اور اُن کی خفیہ ایجنسیاں بخوبی جانتی ہیں اور اُنہیں ایسی کسی بھی کارروائی کے نتائج کا بخوبی اندازہ بھی ہوگا۔اب یہ سارا معاملہ فوجی حکام کے لیے درد سر والا بن چکاہے کہ کس طرح وہ بھارتی سیاست دانوںاور عوام کے ’’اجتماعی ضمیر‘‘ کا بھرم رکھ پائیں گے۔ میڈیا نفرتوں کا میدان سنبھالے ہے ،سیاست دان ماحول کو گرمار ہے ہیں اور ہندوستانی فوج پر نفسیاتی دباؤ بڑھتا جارہا ہے ۔اس لئے عجب نہیں کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے اندر خدانخواستہ بم دھماکے ہوجائیں یا پھر کوئی بڑی دہشت گردانہ کارروائی وقوع پذیرہو، کیونکہ Doval Doctrine کا یہی وہ طریقہ کار ہے جس کا بھارتی ایجنسیاں استعمال کرسکتی ہیں۔ براہ راست کوئی فوجی کارروائی کرنا غالباًبھارتی فوج کے لیے ممکن نہیں ہے۔ جمعہ کوطور خم بارڈر پر پاکستانی چوکی پر افغان فوجیوں کی جانب سے فائرنگ اور اس کے نتیجے میں جانی زیاں بھی اس سلسلے کی کڑی ہوسکتی ہے۔افغان حکومت اور ایجنسیوں میں اس وقت بھارت کا کافی اثر و رسوخ پایاجاتاہے، اس لیے تجزیہ کاروں کے مطابق اُس جانب سے ہورہی عسکری کارروائیوں میں بھارتی ایجنسیوں کا کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
سرحدی تناؤ کے پس منظر میں ہندوستانی سیاست دانوں اور ملٹری ایجنسیوں کے اعصاب پر اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سوارہے کہ کس طرح عوامی توجہ اب کسی دوسرے ایشو کی جانب مبذول کرایا جائے۔اس کے لیے بہترین اور موزوں ترین جگہ کشمیر ہے، یہاں کے عوام پر قہر ڈھاکر یا یہاں کوئی ایسی کارروائی کرکے ہی ’’ دیش بھگتوں‘‘ کی توجہ کنٹرول لائن کے واقعے سے ہٹائی جاسکتی ہے۔اس منصوبہ پر کام کا آغاز ہوچکا ہے۔۴؍مئی کو بھارتی فوج کے قریباً ۳۰؍ہزار اہلکاروںنے شوپیان کے ایک درجن سے زائد دیہات کا محاصرہ کرکے جنگجوؤں کے خلاف بڑے آوپریشن کا اعلان کردیا۔ ۲۰؍برسوں کے بعد اپنی نوعیت کا یہ پہلا کریک ڈاون ہے، جس میں حرب و ضرب سے لیس فوج، پولیس اور سی آرپی ایف استعمال ہوئی ہے۔ اس آوپریشن میں ڈرون اور فوجی ہیلی کاپٹر بھی استعمال کئے گئے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا نے آوپریشن کے دن صبح سے ہی اس فوجی کارروائی کے حوالے رپورٹیں نشر کرنا شروع کردیں، اور آوپریشن کو اس سنسنی خیز انداز میں پیش کیا گیا جیسے بھارتی فوج اپنے ہلاک شدہ فوجیوں کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان کے خلاف میدان جنگ سجا چکی تھی۔شام ہوتے ہوتے آ وپریشن کے اختتام تک کھودا پہاڑ نکلا چوہا والا معاملہ ہوگیا۔درجن بھر ان دیہات کی جو کہانیاں میڈیا اور لوگوں کے ذریعے سے سامنے آگئی ہیں ، وہ دل دہلانے والی ہیں۔ فورسز اہلکاروں نے مکانات، فرنیچر اور درجنوں گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کرکے کروڑوں روپے مالیت کا نقصان کرنے کے علاوہ نہتے اور عام شہریوں کی شدید مارپیٹ کی۔ اس ظلم و جبر کے خلاف جب عوام نے احتجاج کرنا چاہا تو اُن پر پیلٹ گن کے چھرے اور ٹیرگیس کے گولے داغے گئے۔ گویا یہ سارا آوپریشن بھارتی عوام کی’’ ا جتماعی ضمیر کی تشفی‘‘ کے لیے کیا گیا ۔دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ پاکستان کا غصہ کشمیریوں پر نکالا جاتا ہے، پاکستان کچھ کرے تو کشمیرمیں سول آبادی کے خلاف اعلان جنگ کیا جاتا ہے۔آج جس ’’شدت پسندی‘‘ کا رونا رویا جارہا ہے، اُس کی وجوہات اور محرکات پر غور کیوں نہیں کیا جاتا ہے؟ جب عوام کے خلاف ظلم وجبر کو بطور ہتھیار کے استعمال کیا جائے، جب لوگوں کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے تک نہ دیا جائے، جب عام اور نہتے لوگوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا جائے، جب سنگ بازوں کے خلاف آرمی کو لایا جائے تو عوام کی طرف سے ردعمل ہونا بھی لازمی امر ہے۔
یہ بھی ایک غور طلب معاملہ ہے کہ دو فوجیوں کی ہلاکت پر پورا بھارت پاکستان کے خلاف جنگ پر آمادہ ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے اس کی فوج، حزب اقتداراوحزب اختلاف سے وابستہ سیاست دان اور کٹر پنتھی عوام ایک ہی صفحے پر نظر آرہے ہیں۔ اسی تناظر میں جنرل بپن روات نے سرحدی علاقوں کا دورہ تک کیا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کشمیری مارے جاتے ہیں تو کوئی واویلا کیوں نہیں ہوتا؟ جولائی ۲۰۱۶ء سے آج تک ایک سو پچیس تک کشمیری ابدی نیند سلا دئے گئے ہیں ، اُن کے جان لینے پر بھارت کے کسی لیڈر کا دل نہیں دُکھا ہے،کشمیری عسکریت پسندوں کی جان چلی جائے یا نہتے عام نوجوانوں کی، اُن کے لیے بھارت میںکوئی جنگ پر آمادہ نہیں ہوجاتا ہے۔ بھارت کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کسی کی نیند حرام نہیں ہوجاتی ہے۔ حتیٰ کہ پانچ کشمیری پولیس والوں اور دو بنک ملازمین کی افسوس ناک موت پر بھی دلی میں کسی نے آہ وفغان نہیں کی، کیونکہ اُن کی نظر میں ہم سب کشمیری ہیں اور کشمیری ہونے کی حیثیت سے ہم دوسرے درجے کے شہری ہیں جن میں سے کوئی بھی مرے تو دلی کی بلا سے۔عسکریت پسند کی جان چلی جائے یا پولیس والے کی یا پھر کسی عام کشمیری کی، فائدہ دلی کا ہوتا ہے کیونکہ اُن کے نزدیک ہر کشمیری اُن کا دشمن ہے اور خس کم جہاں پاک کے مصداق کشمیریوں کے قتل وخون پر ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔ یہاں پہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے گریباں میں جھانک لینا چاہیے، کیوں ہم اُن کا بنیں جو ہمیں اپنا سمجھتے ہی نہیں؟ کیوں ہم اغیار کی خوشنودی کے لئے اپنے لوگوں کے درپئے آزارہو جائیں اور اپنوں کا دشمن بن جائیں ؟ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ظلم و جبر کی اس سیاہ و تاریک رات سے نکلنے کے لیے ایک دوسرے کا سہارا بن جائیں،غیروں کی سازشوں کا شکار ہونے کے بجائے اپنوں کا دُکھ درد بانٹیں۔ تحریک حق خود ارادیت کے لیے کام کرنے والے ہر فرد کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ اُن کے ذریعے سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہوجائے جس کی وجہ سے سماج تقسیم ہوجائے اور اغیار کے وارے نیارے ہوجائیں۔
رابطہ:9797761908