14؍فروری سے 14؍ مارچ تک برصغیر ہند وپاک کی تاریخ نے یکے بعد دیگرے بہت سارے موڑ دیکھے، کبھی خطرات کے بادل گھنے ہوئے اور کبھی تحمل اور بربادباری نے اپنا کمال دکھایا ۔ چلتے چلتے ہند پاک تنا تنی کی برف اس حد تک پگھل گئی کہ کرتار پور سے گورداس پور تک جو راہداری نومبر سے تاحال شدومد سے زیر تعمیر ہے ، اُس پر بھارت اور پاکستان نے تکنیکی امور طے کر نے کئے لئے عہدیداروں کی میٹنگ منعقد کرائی ۔ یہ میٹنگ پہلے سے طے شیڈول پروگرام کے مطابق اٹاری امر تسر میں کئی گھنٹے چلی۔ طرفین کی ملاقات میں کر تار پور راہداری کے حوالے سے سفری تفصیلات ولوازمات حتمی طورطے کر نے پر سوچ بچار کیا گیا۔ یہ خود میں ایک بڑی خوش خبری ہے جس کی کھلے دل سے آؤ بھگت کی جانی چاہیے ۔ دوطرفہ کشیدگی اور تناؤ کی فضا میں ابتداء ًیہ خدشہ ظاہر کیا جا رہاتھا کہ کرتار پور راہداری پر طے شدہ ملاقات شاید اب منسوخ ہوگی لیکن دونوں حکومتوں نے کرتارپور میں واقع مقدس گردوراے تک سکھوں کو رسائی دینے کے عقیدتی نزاکتوں کا فہم و ادراک کر کے اس ملاقات کے لئے بلا چوں وچراہاں کردی۔ سکھ دھرم میں کرتار پور گوردوارے کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ کہا جاتاہے کہ سکھ مت کے بانی بابا گرونانک 1522ء کو یہاں تشریف لائے اور اٹھارہ سال یہیںپر ریاضت اورپوجا میں گزار تے ہوئے آخری سانسیں لیں ۔ ان حوالوں سے بلاشبہ سکھوں کے لئے یہ ایک پوتر دھارمک سنستھا ہے۔ تقسیم کے زمانے سے ہی سکھ مت ماننے والے بہ دل و جان چاہتے تھے کہ انہیں کرتار پور کے معبد تک ہمہ وقت راہداری فراہم کی جائے مگر ہندپاک کدورتوں اور منافرتوں کے بیچ یہ مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سات دہائیوں سے معرض ِ التواء میں رہا ۔ غور طلب ہے کہ بھارت کی سرحد سے پوتر گوردوارے تک کی مسافت صرف تین چار کلو میٹر ہے لیکن بھارت کے سکھ زائرین کو راہداری دینے کا خواب اکتہرسال تک شرمندہ ٔ تعبیر نہ ہوا۔ سکھ مت کے پیروکاروں کو کرتارپور کے گوردوارے سے کس قدر عقیدت ہے، ا س کا برملااظہارچند ماہ قبل ہواجب پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اس راہداری کی نیو رکھی تو بھارت کی سکھ اقلیت سمیت دنیا بھر میں رہ رہے سکھوں نے اس کا والہانہ خیرمقدم کیا بلکہ وہ مسرت سے جھوم اُٹھے۔ ا س موقع پرپنجاب کی ریاستی اسمبلی نے ایک قرار داد بھی منظور کی جس میں تجویز پیش کی گئی کہ کرتارپور کوانڈیا کی حدود میں شامل کیا جائے اوراس کے بدلے میں پاکستان کومتبادل زمین دی جائے ۔ یہ تجویز مرکزی حکومت کو ارسال کی گئی ہے ، اس کا آگے کیا بنے گا اس پر کچھ کہنا قبل ا ز وقت ہوگا۔ 1969ء میں بھی آر پار کی حکومتی حلقوں میں یہی تجویز زیر غور رہی تھی مگر71ء کی جنگ نے اس کو پس منظر میں گم کر کے رکھ دیا ۔ بہر حال آج کی تاریخ میں ہند پاک کشیدگی او رتناؤ کے بیچ سکھ برادری کو جان سے عزیز کرتار پور کاریڈور کو نظرانداز کر نا دونوں ملکوں کے لئے قرین انصاف تھا نہ تقاضائے عقل ۔ لہٰذاآر پار کی گرماگرمی کے باوجود دونوں حکومتوں نے اس معاملے پر اٹاری میں گفت وشنید کر کے گویا بحالی ٔاعتماد کا ایک تازہ دم اقدام کیا ۔اٹاری ا مرتسر میں ہوئی ملاقات میںبھارتی وفد کی نمائندگی وزارتِ خارجہ کے جوائنٹ سیکر ٹری سی ایل داس نے کی اور پاکستانی وفد کی سربراہی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کر رہے تھے ۔ ملاقات انتہائی خوش گوار ماحول میں ہوئی۔ اگرچہ بعض امور میں طرفین کا اختلاف ِرائے بدستور قائم رہا، تاہم فیصلہ یہ ہوا کہ اگلے ماہ کی2 ؍ تاریخ کو طرفین اس بابت دوبارہ ملاقات کریں گے ۔ اُمید کی جا نی چاہیے کہ اس میٹنگ میں بقیہ اختلافات کا بطر یق اَحسن نپٹارا ہوگا ۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ ملاقات کے بعد گزشتہ تین سال میں پہلی بار ایک اعلامیہ جاری ہونا شگون ہی قرار پا سکتا ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ پاکستانی وفد کے سربراہ نے میڈیا سے یہ کہا کہ ہماری ملاقات کر تار پور سرحد کھولنے کے لئے ہے اور ہماری سوچ ہے کہ ایک ایسا شجر لگایا جائے کہ ہمسائے کے گھر پر بھی سایہ جائے۔ یہ سارا منظرنامہ اس امر بات پر دلالت کر تا ہے کہ اگر دل میں عزم اور ذہن میں چاہ ہو تو دونوںملک نا چاقیوں کے باوجود امن اور بھائی چارے کی منزل پانے کے لئے یکجا ہوکر ایک نتیجہ خیزسفر شروع کر سکتے ہیں۔ ا ب کی بار یہ سفر بھارتی فضائیہ کے گرفتار شدہ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی دو دن حراست کے بعد رہائی سے شروع ہوا ۔ اسی اچھے اقدام کا یہ اثر ہے کہ بھارت اور پاکستا ن کے مابین جنگی حدت آہستہ آہستہ ٹھنڈی پڑرہی ہے،اگرچہ وقفہ وقفہ سے حدمتارکہ پر دوطرفہ گولہ باری اور ماراماری کی غم انگیزخبریںا بھی گشت کررہی ہیں ، پھر بھی عام تاثر یہی ہے کہ برصغیر میں جنگ ٹل گئی ۔ بایں ہمہ کرتارپور کے حوالے سے ایک قابل تعریف پیش قدمی کے باوجود یہ تیکھے سوالات اپنی جگہ قائم ہیں کہ کرہ ٔ ارض کا یہ کم نصیب حصہ کب امن وآشتی کا دائمی گہوارہ بنا رہے گا؟ کیا برصغیر کے اُفق سے جنگ وجدل کے بادل ہمیشہ کے لئے چھٹ جائیں گے ؟ کیا دو جوہری ملک انسانیت کے وسیع تر مفاد میں ماضی کی ساری تلخیاں بھلا کر منصفانہ کشمیر حل کی حامی بھرلیں گے ؟ شاید ان سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں، نہ سیاست دانوں ، نہ حکمرانوں ، نہ اہل ِدانش وبینش کے پاس۔ وجہ ظاہر ہے کہ برصغیر کی تاریخ تضادات سے بھری پڑی ہے،یہاں ایک جانب واجپائی کا بس میں سفر لاہور ہے اور دوسری جانب کر گل کی یلغار ہے، ایک جانب وزیراعظم مودی کا اچانک راولپنڈی جاکر وقت کے اپنے ہم منصب نوازشریف کے یہاںان کی نجی تقریب میں گرم جوشانہ شرکت ہے دوسری جانب سرجیکل اسٹرائیکیں ہیں ۔ تضادات اورغیر یقینیت کے بھنور میں ہچکولے کھاتی دلی اور اسلام آباد کی کشتی کاجب ایک متعین رُخ ہی نہ ہو توہم کف ِ افسوس مَلے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اتنے نزدیک ہوکر بھی یہ ہمسایہ ملک ایک دوسرے سے اتنے دور ہیں ۔ ان کی تاریخ، ثقافت ، زبان ، مسائل، محرومیاں اور خواب ایک جیسے ہیں، مگر پھر بھی آنکھ بند کئے یہ ایک دوسرے کے درپئے آزار ہیں ۔ ہند و پاک کے کم وبیش تمام حکمرانوں کے با رے میں یہ با ت بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں میں انہوں نے دوستی اور مفاہمت کو پروان چڑھانے میں کوئی کلیدی ادا نہ کیا ، یہ اچھی ہمسائیگی کے طور طریقے اپنانے سے بھی گریزاں رہے ،ا نہیں بقائے باہم کا آفاقی اصول بھی اپنی جانب کھینچ ہی نہ سکا، اپنے اپنے لوگوں کی ناداری، بھکمری اور ناخواندگی و بیماری کی اذیتیں بھی ان کا دل پسیج نہ سکیں ، امن و امان اور دوستی ومفاہمت کی مفید و مثبت راہ پکڑکر قوم کی ساری پونجی ہتھیاروں پر اندھا دھند قربان کر نے سے بھی یہ بازنہ رہے ۔ انہوں نے جنگیں کیں ، معاہدے کئے ، سمجھوتے لکھے ، اعلامیے جاری کئے، بس سروسیں شروع کیں ، کرکٹ میچ کھیلے ، ثقافتی وفود کے تبادلے کئے، فلموں کی نمائشیں کیں ، سفارتی محاذ پر کدو کاوشیں کیں، ٹریک ٹو کے تجربے بھی کئے مگر یہ سب کچھ ماضی کی تلخیوں اورووٹ بنک سیاست کے گورکھ دھندوں میں اکارت گیا۔بے شک اس ساری مصیبت کی اصل جڑ مسئلہ کشمیر رہا جس نے ان دوملکوں کو رقابتوںاور دشمنیوں کے اندھے کنوئیں سے کبھی باہر ہی نہ آنے دیا لیکن اب وقت آیا ہے کہ دونوں حکومتیں اسی غیر متزل عزم وارادے سے اس باب میں بھی اپنے اختلافات مختصر کر کے کشمیر حل پر متفق ہوجائیں اورجیسے کر تاپور کی راہداری پر دونوں ملک ایک مثبت اور مفید سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ہمت کر چکے ہیں ، اسی طرح تنازعۂ کشمیر کو بھی ٹھنڈے دل و دماغ سے ایڈرس کریں ۔