14؍ فروری کولیتہ پورہ میں خو د کش حملے کے بعد ہند پاک کشیدگی میں متواتر پُر خطر اضافہ ہو تارہاہے اور نوبت یہ پہنچی کہ بھارتی جنگی طیاروں نے اس واقعہ کے بارہ دن بعد26؍ فروری کو رات تین بجے حدمتارکہ کو پار کر کے خیبر پختوں خواہ کے علاقہ بالاکوٹ میں کئی منٹ طویل فضائی بمباری کی۔اس سے کشیدگی میں دوچند اضافہ ہو ااور وثوق سے بتا یا نہیں جاسکتا کہ تناؤ اور کشیدگی کی آگ اور کیا کیا بھسم کر کے دم لے گی ۔ مبصرین یہ رائے زنی کر تے ہیں کہ دھماکہ خیز صورت حال کسی بھی حد تک جانے کاخدشہ بڑھ رہا ہے۔ اس بارے میں ابھی کوئی حتمی بات نہیں کہی کہ اگلے لمحے کیا ہوگا ۔ اس وقت جہاں دوطرفہ تنا تنی کو کم کر نے کے لئے ایک سنجیدہ فکر وعمل کی ا َشد ضرورت ہے، وہاں ایک انتہائی جذباتی اُبال نے صورت حال کو مخدوش بنا کر رکھا ہوا ہے۔بھارت نے لیتہ پورہ پلوامہ واقعہ کے لئے مبینہ طور پاکستان نشین جیش محمد پر یہ الزام پہلے دن سے لگایا کہ اس ہلاکت خیز خود کش حملے میں اُسی کا ہاتھ ہے۔ چونکہ اسی جنگجو تنظیم نے لیتہ پورہ حملے کے کچھ ہی دیر بعد اس کی ذمہ واری ایک ویڈیو ٹیپ میں قبول کی،اس لئے نئی دلی کا جیش پرالزام جھٹلایا نہیں جاسکتا۔جیش کی کمان پاکستان کے شہری مولانا مسعود اظہر کے ہاتھ میں ہے اور اس زیر زمین تنظیم کے جنگجو وادی ٔ کشمیر میں جنگجویانہ سرگرمیوں میں شریک بتائے جاتے ہیں۔ بھارت کی کئی سال سے یہ مسلسل کوشش رہی ہے کہ مولانا مسعود اظہر کو عالمی ادارہ دہشت گرد تسلیم کر ے لیکن چین ان کوششوں میں نئی دلی کے آڑے آ رہا ہے۔اقوام متحدہ کی قرارداد1267کے مطابق کسی بھی تنظیم یا کسی بھی فرد کو ’’دہشت گرد ی‘‘ کی فہرست میں لانے کے بعد اُس پرعالمی سطح پر پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں ۔ ظاہر ہے جس ملک میں ایسی مخصوص عسکری تنظیم کا محل وقوع ہو یامبینہ دہشت گرد کا مکان یا دیگر املاک ہوں، وہ ملک بھی پابندیوں کی زد میں آ سکتا ہے بشرطیکہ وہ ملک مذکورہ دہشت گرد کے خلاف کوئی انضباطی کارروائی نہ کرے۔چین نےمولانا مسعود اظہر کو سلامتی کونسل میں قرارداد زیر نمبر1267کی رُوسے’’ دہشت گرد ‘‘گرداننے کے ضمن میں تکنیکی گرفت (technical hold)عائد کر رکھی ہے جس کی بنا پر بھارت میں چینی موقف کی شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
چین اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں دوسرے مستقل ممبروں کے برعکس پاکستان کی حمایت میں کیونکر کسی بھی حد جانے کے لئے تیار ہے ،ا س با رے میں عام ز بان میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس اقدام سے وہ خطے محض اپنے مفادات کی رکھوالی کر رہا ہے۔اقوام متحدہ کے دوسرے مستقل ممبران میں امریکہ،برطانیہ، فرانس اور روس شامل ہیں لیکن اُن کی متفقہ رائے کے توڑ میںچین پاکستانی مفادات کے دفاع میں ویٹو تک استعمال میں لانے کے لئے تیار بہ تیارہے۔ چین کے اقدام سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سیاست و سفارت میں ملکوںاور قوموں کے مابین دوستی یا دشمنی مستقل نہیں ہوتی بلکہ اُن کے اپنے مفادات کو دوام حاصل ہوتا ہے اور یہ مفادات وقت کا پہیہ گھومتے رہنے سے ادلتے بدلتے ہیں۔ہرملک اپنا مفادات عزیزرکھتا ہے اور انہی مفادات کے دائرے میں رہ کر ہی فیصلہ لیتا ہے کہ دوست کسے مانا جائے اور دشمن کسے گردانا جائے ۔چین اور پاکستان درمیان مفادات کی ہم آہنگی او ر یک رنگی پائی جاتی ہے اور یہ مفادات نئی دلی کی عالمی سیاست اور سفارت کاری سے میل نہیں کھاتے لیکن اس کے باوجود چین اور پاکستان دونوں ہی بھارت سے سفارتی رشتے بنائے ہوئے ہیں۔ چین اور پاکستان کے مابین سی پیک (CPEC) اقتصادی راہداری دوطرفہ تعلق داری کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔ یہ ایک ایسا بین المملکتی اقتصادی رابطہ ہے جس میں چین اب تک 62بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکاہے۔چین کے بارے میں سفارتی حلقوں میں مانا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا اُبھرتا ہوا معاشی سپر پاور وہی پیسہ لگاتا ہے جہاں اُس کا مفاد بندھا ہوا ہو۔ نہ نظر غائردیکھا جائے تو یہ بات چین پر ہی بلکہ ہر ملک اور قوم پر صادق آتی ہے ، جدید دنیا میں ہر بڑی عالمی طاقت اپنے سرمایے کو سفارتی اور معاشی اپنا اثر و نفوذ بڑھانے کیلئے بروئے کار لاتی ہے ۔
جنگ عظیم دوم کی تباہ کاریوں کے بعد امریکہ نے یورپی ممالک کی باز آباد کاری کے لئے مارشل پلان کو بروئے کار لایا۔ جارج مارشل جنگ عظیم دوم کے بعد صدر ٹرومین کی انتظامیہ میں امریکہ کے سیکر ٹری آف سٹیٹ اور سیکر ٹری آف ڈیفنس تھے ۔ مارشل پلان میں مغربی یورپی ممالک کو 12؍بلین ڈالر کی کثیر باز نو آباد کاری کے لئے دی گئی ۔اس امداد سے یہ ممالک امریکہ کے ساتھ نیٹو دفاعی معاہدے میں بندھ گئے،امریکہ ایک سپر پاور بن گیا اور عالمی تجارت ڈالر میں لین دین کی تابع ہوئی۔عصر حاضر میں چین ایک نئی عالمی طاقت کے روپ میں اُبھر رہا ہے۔مارشل پلان کی مانند چین نے یورشین بیلٹ میں کم و بیش 65؍ممالک کو ایک ہی بیلٹ میں باندھنے کا منصوبہ بنایا ہے۔یورشین بیلٹ کا مدعا و مفہوم یورپی اور ایشیائی ممالک کا اقتصادی سنگم ہے، گر چہ اس میں یورپی اور ایشیائی ممالک کے علاوہ افریقی ممالک بھی شامل ہیں۔ایک اندازے کے مطابق چین اس منصوبے کو عملی بنانے کیلئے 900؍بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا کا پلان بنا رہا ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری اس پلان کا اہم ترین جز ہے، یہ چین کو عالمی تجارت کے لئے ایک متبادل شاہراہ فراہم کرتا ہے۔ اس اُبھرتی صورت حال نے چین اور پاکستان کو ایک ایسے رشتے میں باندھ لیا ہے جسے لوہے سے مضبوط تر، پہاڑی چوٹیوں سے بلند تراور سمندر سے عمیق تر کہا جاتا ہے ۔جذباتی نعرہ بازی سے صرف نظر کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں کے مفادات اس حد تک بندھ چکے ہیں کہ جہاں ایک دوسرے کی بقاء اور سلامتی کی نگہبانی دونوں کے واسطے لازم و ملزوم بن جاتی ہے۔بھارت کے معروف دفاعی تجزیہ نگار پروین ساہنی نے بھی اپنے متعدد کالموں اور تصانیف میں موصوف کا مانناہے کہ چینی اور پاکستانی افواج میں ایک ایسا اشتراک قائم ہوا ہے جہاں دونوں کو دفاعی تجزیے میں ایک ہی کسوٹی میں پرکھنا ہو گا۔ یہ تجزیہ پروین سا ہنی جیسے مبصرین تک محدود نہیں ہے بلکہ بھارت کے کئی سابقہ جنرل اِس موضوع کو لئے اظہار ِخیال کر چکے ہیں کہ ہند پاک جنگ کی صورت میں نئی دلی کو چین اور پاکستان کے فوجی اشتراک کو مد نظر رکھنا ہو گا۔
ہماری بات آج قومی مفاد کے دائرے میں ہے ۔ چین جہاں پاکستان کا سانجھی بنا ہوا ہے، وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے بھارت کی تجارتی منڈی میں چینی سامان کی کھپت ہے یعنی ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جہاں پاکستان سے چین کا اشتراک کئی دائروں میں بڑھتا جا رہا ہے ،وہاں چین بھارت کا بھی کاروباری ساجھے دار ہے اور چین اپنے اقتصادی مفادات کو فروغ دینے کے نقطہ ٔ نظر سے دلی کے ساتھ سیاسی اختلافات کے باوجود اس سے قریبی مراسم میں بندھا ہواہے۔ بھارت میں کئی شدت پسندطبقات کا ماننا ہے کہ اگرچین کے مال پہ بھارتی منڈیوں میں روک لگا ئی جائے تو بیجنگ کو ’’راہ راست ‘‘پہ لایا جا سکتا ہے۔امریکہ نے بھی ایسی کوششیں کی تھیں لیکن یہ کوششیں اُلٹی پڑ گئیں چناںچہ آج کل خبریں یہ آ رہی ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ چین کے تئیں اقتصادی تصادم کے بجائے اشتراک وتعاون پر مائل نظر آرہا ہے۔ بھارت میں بھی یہی رحجان پایا جاتا ہے ۔بھارت چین اور پاکستان کے مابین قریبی تعلقات کو جانتے ہوئے بھی چین سے سفارتی رشتوں میں ایک معقول توازن قائم رکھنے کے لئے کوشاں ہے ۔اس کی وجہ چین اور بھارت کے مابین 3448کلومیٹر لمبی سرحد ہے اور اس سرحد کی حد و بند کئی سیکٹروں میں متنازعہ ہے۔اس کے علاوہ بھارت کا یہ ماننا ہے کہ گلگت بلتستان پر نئی دلی کاقانونی حق بنتا ہے۔بھارت یہ حق رایست جموں و کشمیرکے ا لحاق کی بنیاد پہ جتا تا رہا ہے، اُدھر گلگت بلتستان سی پیک کی راہ گزر بلکہ شہ رَگ ہے۔ ان تضادات کے بیچوں بیچ چین اور بھارت تعلقات میں اعتدال قائم رکھنے کی کوششیں کر رہے ہیں ،اس کی وجہ بڑھتے ہوئے دوطرفہ تجارتی روابط ہیں۔ پاکستان کے چین سے قریبی تعلقات کے باوجود بھارت اور چین کے مابین جو سفارتی توازن قائم ہے، اُس کی کئی جھلکیاں بعض دیگر دائروں میں بھی نمایاں نظر آتی رہی ہیں۔ ان حقائق کو ذہن نشین کر تے ہوئے آیئے ہم برصغیر کے حالیہ حالات اور واقعات پر ایک اچکتی نگاہ ڈالتے ہیں ۔
18؍فروری کو پلوامہ خود کش دھماکہ کے فوراً بعد سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کے دو روزہ دورے پر اسلام آبا د پہنچے۔نور خان ائیر بیس پہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اُن کا پرتپاک استقبال کیا اور پروٹوکال کو درکنار کر تے ہوئے خود اُس گاڑی کوڈرائیو کیا جس میں بن سلمان کو وزیر اعظم ہاوس اسلام آباد پہنچایا ۔ کسی غیر ملکی مہمان خصوصی کی گاڑی کو میزبان ملک کا وزیر اعظم ڈرائیو کرے، یہ نارمل پروٹوکال میں شامل نہیں ۔ رسمی ضیافت کے موقعے پر شہزادے نے وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُنہیں سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر مانا جائے۔ بر سرموقع عمران نے ولی ٔعہد سے جو مانگا وہ انہیں عطا ہوا، چاہے وہ پاکستانی حاجیوں کے لئے سہولیات تھیں یا سعودی عرب جیلوں میں قید 2000 پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا اعلان بھی تھا۔ ان رعایات کے علاوہ سعودی عرب نے پاکستان میں 20؍بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ۔اس رقم کثیر میں 10بلین ڈالر کی سرمایہ کاری گوادر میں آئیل ریفائنری کے لئے مختص کی گئی۔اس سے پہلے عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے موقع پہ سعودیہ نے پاکستان کی ادائیگیوں میں توازن کو سہارا دینے کے لئے تین بلین ڈالر کی رقم میسر رکھی ،جس سے پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر کو وقتی سہارا ملا۔ کسی بھی مملکت کی ادائیگی کے توازن کو بر قرار رکھنے کے لئے زر مبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ رقم کی فراہمی ضروری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ تین بلین ڈالر کی رقم تیل کی خرید میں تاخیری ادائیگی کیلئے بھی مختص کی گئی۔ یہ رقوم پاکستان کی پتلی اقتصادی پوزیشن کو سہارا دینے کے لئے بالفعل حیاتی ثابت ہوئیں۔ایسے ہی اقتصادی معاملات متحدہ عرب امارات سے بھی طے ہوئے ۔
یہ تصویر کا ایک رُخ ہے، اب دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیں۔ دورہ ٔ پاکستان کے ایک دن بعد محمد بن سلمان دہلی پہنچے اور وہاں دہلی کے ہوائی اڈے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اُن کا پُرجوش استقبال کیا۔شہزادے کو گلے لگاتے ہوئے نریندر مودی نے بھی وہی گرمجوشی دکھائی جس کا مظاہرہ عمران نے اسلام آباد میں کیا تھا۔اتفاقاََ نریند مودی نے بھی بن سلمان سے وہی رعایات مانگیں جو عمران خان نے مانگی تھیں یعنی حاجیوں کے حوالے سے سہولیات اور سعودی عرب میںمقید بھارتی قیدیوں کی رہائی ۔ اس استدعا ؤں کو سعودی شاہزادے نے فوری منظور کیا ۔سعودی عرب میں شاہی نظام رائج ہے جہاں شاہانِ سعود پر کسی سے ملکی معاملات میں پوچھنے یا جوابدہ ہونے کی کوئی بندش نہیں ۔شاہی دربار سے فوری حکم صادر ہوا،چاہے مانگنے والا عمران خان تھے یانریندر مودی ۔ سعودی دربار نے ان حوالوں سے بر صغیر کے ان حریف ملکوں سے ڈیل کر تے وقت اپنے روایتی توازن کوبر قرار رکھااور یہ توازن سرمایہ کاری میں بھی قائم رکھا۔یہ صحیح ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات بہت قریبی ہیں ۔ان میں سیاسی اشتراک کے ساتھ ساتھ فوجی اشتراک بھی عرصۂ دراز سے چلا آ رہا ہے۔جہاں یہ ایک حقیقت ہے، وہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سعودی عرب بھارت جیسی بڑھتی ہوئی اقتصادی قوت سے اپنے تجارتی مفاد کو وسعت دینا چاہتا ہے۔ بھارت سعودی تیل کے بڑے خریداروں میں سے ایک ہیں اور ایسے خریدار کو سعودی ہاتھ سے جانے دے ، یہ بعید ازامکان ہے۔ چناںچہ سعودی عرب نے بھارت میں 100 بلین ڈالرکی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے۔اس سے پہلے بھی سعودی عرب نے بھارت میں ایک آئیل ریفائنری میں 44؍بلین ڈالر سرمایہ کاری پہ اتفاق کیا تھا لیکن یہاں تیل کی صنعت کو فروغ دینے کے لئے زمین کا حصول مشکلات میں الجھا ہوا ہے۔مجموعی طورسعودی عرب کے مفادات پاکستان سے بھی وابستہ ہیں اور ہندوستان سے بھی اور یہی بات امارات عرب پر بھی صادق آتی ہے۔ بایں ہمہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعودالفیصل نے بھارت میں بھارت کے منجھے ہوئے صحافی راج دیپ سر ڈیسائی اور ندھی رازدان کے کافی تیکھے سوالات کے جوابات میں وہ توازن قائم رکھا جو ہند پاک کے بگڑتے ہوئے حالات کے فریم ورک میں سعودیہ قائم رکھنا چاہتا ہے ۔دہشت گردی اور شدت پسندی سے مقابلے میں سعودی عرب وزیر خارجہ نے بھارت کا ساتھ دینے کا عندیہ دیا مگر ساتھ ہی دہشت گردی اور شدت پسندی میںپاکستان کو ملوث قرار دینے سے احترازبھی کیا اور سب سے بڑھ کرصاف گوئی کے ساتھ ہند پاک حکومتوںکو مذاکرات کی ترغیب دیتے ہوئے مسلٔہ کشمیر کے حل پر بھی زوردیا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کا دفاع بھی کیا ، یہاں تک کہ بھارت سعودیہ کے مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان کے ساتھ گفت وشنید کے لئے حالات سازگار بنانے کا قول و قرار بھی شامل کیا۔ واضح رہے کہ عالمی طاقتوں میں روس نے اقوام متحدہ میں دہشت گردی کی مذمت میںبھارتی تحریک کی حمایت کی لیکن اس سے یہ اخذکرناکہ روس پاکستان سے تعلقات بڑھانے میں پس و پیش سے کام لے رہا ہے، احمقانہ ہوگا۔روس پاکستان میں گیس پائپ لگانے 14؍بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔امریکہ کئی سال سے بھارت سے اپنے سیاسی،فوجی اور سفارتی تعلقات کو روز افزوں فروغ دے رہا ہے، جب کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں سر دمہری کم کررہاہے کیونکہ اسے افغانستان کے دلدل سے نکلنے کے لئے پاکستان کی حمایت کی اشد ضرورت ہے۔یورپین یونین بھی بھارت کا بھر پور ساتھ دیتے ہیں لیکن جہاں کشمیر مین بشری حقوق کی پامالیوں بات آتی ہے ، یورپین پارلیمنٹ بھارتی دلی سے نالاں ہی نظر نہیںآتی بلکہ اس کی انگشت نمائی کر نے میں کوئی پس وپیش نہیں کر تی جو بھارت کے لئے کسی معنی میںخوش آئند نہیں ہے۔
عالمی طاقتوں کا ہند و ستان اور پاکستان کے مابین سفارتی توازن قائم رکھنا شاید مستقبل قریب میں بر صغیر میں امن وامان قائم رکھنے کے لئے خوش آئند ثابت ہو لیکن ز مدت مدید سے کشمیر حل ٹالے جانے کے سبب کشمیر میں زمینی سطح پر حالات اب اس قدر غیر یقینی ہورہے ہیں کہ پلوامہ کا حملہ ہند پاک حکومتوں کو فی الوقت میدانِ جنگ کی طرف دھکیل رہاہے ۔ حالانکہ اگر بالفرض چوتھی انڈوپاک جنگ بھی ہو ، تب بھی ان دونوں ملکوں کو کشمیر مسئلے کو حمتی طور منصفانہ بنیادوں پر حل کر نے کے لئے دیر سویر آگے آنا ہوگا ۔ اس کے بغیر خطے میںدائمی امن اور تعمنیر وترقی طفلانہ تصورہو گا۔ اس مسئلے کابناحل رہنے سے بر صغیر ا س وقت تلوار کی دھار پہ لٹکا ہوا ہے گا اور یہ صورت حال عالمی امن کیلئے ایک مستقل خطرہ ہے ۔چونکہ بر صغیر میں ماضی سے ہٹ کرروایتی جنگ کا خطرہ ہی نہیں بلکہ آر پار کے پاس ایٹمی ہتھیار ہونے کے سبب اس مسئلے سے کرہ ٔارض کے اس حصہ میں ساری نسل انسانی ہمیشہ فنائیت کے گھاٹ اُتر سکتی ہے۔ بے نیازی کی نیند سے جاگ جایئے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو۔
Feedback on:[email protected]