یوں تو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں آئے دن مختلف موضوعات پر سیمینار وں اورکا نفرنسوں کا انعقاد ہوتا رہتاہے لیکن وادیِ چناب کے گورنمنٹ ڈگری کالج ڈوڈہمیں 26اور 27ستمبر2018کو منعقدہ ادبی کانفرنس اپنے موضوع اور شرکاء کے اعتبار سے کافی اہمیت اور دور رس نتائج کی حامل تھی کیو نکہ یہ کانفرنس مقامی،صوبائی،ریاستی یا قومی سطح کی نہیں تھی بلکہ یہ ایک بین الاقوامی کانفرنس تھی جس میں ہندوستان کی مختلف جامعات کے علاوہ مصر ، ایران اور بنگلہ دیش کے ادیب اور سکالر بھی شریک ہوئے تھے ۔اتناہی نہیں جہاں تک اس کانفرنس کے موضوع’ ہند وپاک کے اردو ادب میں انسان دوستی،محبت اور امن کا پیغام ‘کا تعلق تھا، اس مناسبت سے اس میں شریک ہونے کے لیے پاکستان کے کئی ادیبوںاوردانشوروںنے بھی حامی بھری تھی لیکن دونوں ہمسایہ ملکوں کے مابین آ ئے دن بگڑتے حالات اور ان سے پیدا شدہ صورت حال اور بروقت ویزا نہ ملنے کی وجہ سے پاکستان کے مندوبین اپنی نوعیت کی اس اہم کانفرنس میں شرکت نہ کرسکے البتہ پاکستان کی معروف ادیبہ گل نسرین نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میںہند وستان اورپاکستان میں تخلیق کیے گئے اردو ادب کے حوالے سے برصغیرہندو پاک میں محبت ،امن اور انسان دوستی کی راہیں ہموار کرنے پر کافی زور دیا ۔گل نسرین کے اس محبت ،امن اور انسان دوستی کے حامل ویڈیو پیغام کو کانفرنس کے شرکاء نے بے حد سراہا۔
گورنمنٹ ڈگری کالج ڈوڈہ کی جانب سے منعقدہ اس کانفرنس میں ایران سے مہدیہ نژادشیخ،منیرہ نژاد شیخ،مصر سے مصطفی علائوالدین محمد علی،بنگلہ دیش سے پروفیسرغلام محمد ربانی کے علاوہ دہلی یونیورسٹی ،جے این یو،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،جامعہ ہمدرد،حیدر آباد، کشمیریونیورسٹی ،جموں یونیورسٹی اورریاست کے مختلف کالجوں کے تقریباً اسی (۸۰)اساتذہ اور سکالر شریک ہوئے جنہوں نے اس د وروزہ غیر معمولی ادبی اجتماع میں ا نسان دوستی،محبت اورامن کے بہی خواہ ادیبوں اورشاعروں کی تخلیقات پر مبنی اپنے مقالات اورتاثرات پیش کیے ۔یہ مقالات میر تقی میر،مرزا اسداللہ غالب،سر محمد اقبال،فیض احمد فیض ، ساحرلدھیانوی،جگن ناتھ آزاد،علی سردار جعفری،احمد فراز،کرشن چندر،عرش صہبائی وغیرہ ایسے مقتدر شعرأاور ادبأ کی تخلیقات پر محیط تھے جو نہ صرف ہند وپاک کے مابین انسان دوستی،محبت اورامن کے خواہاں رہے ہیں بلکہ اُن کے ادب پارے عالمی بھائی چارے،انسان دوستی، امن او ر محبت کا آئینہ ہیں اورجنہوں نے ہمیشہ امن اور محبت کی شمعیں روشن کرنے کی بات کہی ہے۔ یہ مقالات اگرچہ اردوزبان میں پیش کیے گئے مگر ان کے پس منظر میں عربی،فارسی ،انگریزی اورکشمیری زبانوں کاشعری اور نثری ادب بھی کارفرما رہا ہے ۔
کانفرنس کے دوران مختلف موضوعات پر پیش کیے گئے مقالات ،شرکائے کانفرنس کی تقاریر اور تاثرات سے یہ بات ابھر کر سامنے آئی کہ نہ صرف برصغیر ہندوپاک بلکہ عالمی سطح پررونما ہونے والے حالات اور انسانیت سوز واقعات کے اس دور میں ہر فردِ بشر اپنا انسانی فریضہ ادا کرنے کے بجائے کسی مسیحا کی مسیحائی کا منتظر ہے، ایسے حالات میں شعبۂ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج ،ڈوڈہ نے امید ِفردا پہ انحصارکر کے اس جمود کو توڑتے ہوئے انسانی عظمت کو از سر نو دہرانے کی خاطر وقت اور حالات کا ادراک رکھتے ہوئے دو روزہ بین الأقوامی کانفرنس بعنوان :’’ہند وپاک کے اردو ادب میں انسان دوستی،محبت اور امن کا پیغامــ‘‘ کا انعقاد کر کے امن کی خاطر ترستی انسانیت کی دکھتی رگ پہ انگلی رکھنے کی بھر پور اور کامیاب سعی کی ہے۔اس کانفرنس میں ملک وبیرون ملک سے اسی (۸۰)سے زائد ادبأ، قلمکار، محققین، اساتذہ اور سول سوسائٹی سے وابستہ سینکڑوں شخصیات نے شرکت کی اور مختلف نشستوں میں پیش کیے گئے مقالات اور تاثرات کے بعد کالج کے پرنسپل ڈاکٹرشفقت حسین رفیقی نے کانفرنس کے شرکاء میں سے حصولِ امن کے سلسلے میں ایک قرار داد تیار کرنے کے لیے مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل ایک کمیٹی کا اعلان ہند وپاک کے اردو ادب میں انسان دوستی،محبت اور امن کا پیغام
کیا ٭پروفیسرمحمد اسداللہ وانی سابق پروفیسرشعبۂ اردو جموں یونیورسٹی ، ٭ڈاکٹرآفاق عزیز ایسوسی ایٹ پروفیسر کشمیر یونیورسٹی،٭ ڈاکٹر محمد ریاض احمد، ایسو سی ایٹ پروفیسرجموں یونیورسٹی ، ٭ڈاکٹر چمن لال بھگت ، سینئر اسسٹنٹ پروفیسرجموں یونیورسٹی ، ٭ڈاکٹر عبد الرشید خان، ایسو سی ایٹ پروفیسر،جی، ڈی ،سی، بیرواہ ،٭ڈاکٹر جوہر قدوسی، ایسو سی ایٹ پروفیسر،جی، ڈی ،سی ،پانپور،٭ڈاکٹر اختر حسین، اسسٹنٹ پروفیسر، جی، ڈی، سی،ڈوڈہ ،٭ڈاکٹر عنایت اللہ وانی ندوی، اسسٹنٹ پروفیسر، جی، ڈی، سی،ڈوڈہ ، ٭ڈاکٹر امتیاز حسین،اسسٹنٹ پروفیسر، جی، ڈی، سی،ڈوڈہ۔
کانفرنس کے اختتامی اجلاس کے آخرپر مندوبین کانفرنس،ضلعی نظم ونسق سے وابستہ عہدہ داران،معززین سول سوسائٹی ڈوڈہ،طلباو طالبات اورکارپردازان ڈگری کالج ڈوڈہ سے کھچا کھچ بھرے ہوئے کیمونٹی ہال میں حاضرین کے روبرو ڈاکٹر عنایت اللہ وانی ندوی نے کمیٹی کی تیار کردہ نو نکات پر مشتمل حسبِ ذیل قرار داد پڑھ کر سنائی جسے سامعین نے تالیوں کی گڑگڑاہٹ میں متفقہ طور پر منظورکیا :
٭ کانفرنس کے جملہ شرکاء اس نتیجے پر پہنچے کہ بلاشہ امن کی ظاطر اب تک کے اٹھائے گئے اقدامات میں ادب وثقافت کو شریک کرنا حصول امن کے لئے ایک بنیادی وظیفہ ہے۔
٭ کانفرنس کے جملہ شرکاء قراردادِ اول کو مزید وسعت دیتے ہوئے یہ تجویز پاس کرتے ہیں کہ زبان وادب کے ذریعہ حصول امن کے اس عمل کو زندگی کا وظیفہ بنا کر زندگی کے تمام شعبوں میں پھیلانے کی از حد ضرورت ہے۔
٭ کانفرنس کے جملہ شرکاء نے تعلیمی اداروں کی اہمیت اور اثر انگیزی کا ادراک رکھتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ انسان دوستی، محبت اور امن جیسے موضوعات پر ہر سطح کے تعلیمی اداروں میں مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا رہے تاکہ یہ موضوع معاشرہ سے لے کر فرد کی فکر کا محور بن جائے۔
٭ کانفرنس کے جملہ شرکاء نے اس ضرورت کو شدت سے محسوس کیا کہ ادباء، کالم نویسوں، تجزیہ نگاروں، شعراء، مصنفین، خطباء، اساتذہ کرام ، منتظمین، الکٹرانک وپرنٹ میڈیا اور سماج کے ہر ذی اثر فرد کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کے اندر امن کو بحال کرنے اور پُرامن فضا بنانے میں اپنے قلم وقرطاس،درس وتدریس، اور خطابت ونظامت کو ادب وثقافت کے زرّیں اصولوں کی رعایت کرتے ہوئے محبت، امن اور انسان دوستی کے لیے وقف کردیں۔
٭ کانفرنس کے جملہ شرکاء نے اس بات پر بھی زور دیا کہ قیامِ ا من کے اہداف حاصل کرنے کی خاطرموجودہ معاشرے کو لسانی شعور ، ادب اور زبان کی اہمیت وانفرادیت کا احساس زیادہ سے زیادہ کرایا جائے۔
٭ کانفرنس کے جملہ شرکاء نے شدت سے اس بات کو محسوس کیا کہ پوری دنیا میں بالعموم اور برصغیر میں بالخصوص بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے فرقہ وارانہ فسادات سے متاثر ہوکر اس کے تدارک اور نفی کے لیے لکھے گئے ہر زبان کے ادب کو زیادہ سے زیادہ نہ صرف مشتہر کرکے عوام تک پہنچایا جائے بلکہ تعلیمی اداروں کے نصاب میں بھی شامل کیا جائے۔
؎٭ کانفرنس کے جملہ شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ برصغیر کے ادیبوں،شاعروں، فنکاروں اور فکشن نگاروں کی زیادہ سے زیادہ محافل کا ادب وثقافت کے بینر تلے تسلسل کے ساتھ انعقاد کرانے کی فضا ہموار کی جائے۔
٭ کانفرنس کے جملہ شرکاء اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کشمیر یونیورسٹی کی طرح جموں یونیورسٹی میں لسانیات کا ایک شعبہ ترجیحی بنیادوں پر قائم کیا جائے تاکہ اس بد امنی کی فضا کا ازالہ ہوسکے جو لسانی بنیادوں پر جنم لیتی ہے۔
٭ کانفرنس کے جملہ شرکاء نے اس بات پر خصوصی طور پر زور دیا کہ سماجی لسانیات میں بعض الفاظ، نعرے، اور رنگ کچھ اس طرح سے پیش کیے گئے ہیں جن کے نتائج فطری طور پر بدامنی ہی ہوسکتے ہیں،اس لیے وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ان کا تدارک لسانی اور سماجی اعتبار سے کرنے کے لیے ایسی محفلوں کا انعقاد کیا جائے جن میں اس طرح کی اصطلاحات کا علمی وسماجی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے۔
کانفرنس کے تعلق سے اس امر کا اعتراف مبنی برحقیقت ہوگا کہ اس کے انعقاد کے فیصلے سے لے کر کامیابی سے اختتام تک کے تمام مراحل کا سہرا گورنمنٹ ڈگری کالج کے پرنسپل ڈاکٹر شفقت حسین رفیقی کے سربندھتا ہے جن کی ہمہ وقت رفاقت اور سر پرستی شامل ِحال رہی اور ساتھ ہی ساتھ مالی اورمشاورتی تعاون بھی میسّررہا ۔ کالج کے جملہ تدریسی وغیرتدریسی کارکنان کے اشتراک اور طلبہ اور طالبات کی غیر معمولی شمولیت کے بغیرکانفرنس کی شاندار حصول یابی کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا۔پروفیسر بابو رام کی نگرانی میں این ۔سی ۔سی کے یونٹ کی جانب سے مندوبین کا شاندار استقبال ، پروفیسر بشیر احمد کی رہبری میںاین ۔ایس ۔ایس کے رضا کار وں کاچاق چوبند نظم ونسق ،پروفیسروحید خاوربلوان،پروفیسرمحمد اسلم اورپروفیسر تاثر شریف کی مدبرانہ بصیرت کی حامل مجموعی طور پر دیکھ ریکھ ،پروفیسر ذین بانڈے اور پروفیسر ذین بٹ کے بھر پور تعاون کے علاوہ ڈوڈہ کی سول سوسائٹی کے معززین کی تمام اجلاسوں میں ہمہ وقت موجودگی نے انسان دوستی ،محبت اور امن کی شمع فروزاں کرکے دوسروں کو امن کے اس کارواں میں شریک ہونے کا اہم پیغام دیا ہے۔
دراصل گورنمنٹ ڈگری کالج ،ڈوڈہ میں ۲۳؍دسمبر۲۰۱۷ ء کومنعقدہ ایک روزہ قومی سیمینار کے الوداعی اجلاس میں کالج کے پرنسپل ،اساتذہ اورشرکا ئے سیمینارکے باہمی مشورہ سے ۲۰۱۸ء کے دوران ’ ہند وپاک کے اردو ادب میں انسان دوستی،محبت اور امن کا پیغام ‘ کے عنوان سے ایک دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کا متفقہ فیصلہ ہواتھا۔ کالج کے لائق اور فائق پرنسپل ڈاکٹرشفقت حسین رفیقی نے اپنی قیادت میں اس کانفرنس کے انعقاد کے سلسلے میںلائحۂ عمل تیار کرنے اوراس کے ا نعقاد کے امکان کا کام شعبۂ اردو کے ذہین،فطین اور فعال اساتذہ ڈاکٹر اختر حسین اورڈاکٹر امتیاز حسین کو تفویض کیا، جن کی مہینوںدن رات محنت شاقہ ،تگ ودَو اورمسلسل کاوشوں سے وادیِ چناب کے اس کالج میںپہلی بار ایک بین الاقوامی ادبی کانفرنس کے انعقاد کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا ۔ چنانچہ یہ ادبی کانفرنس ڈوڈہ کے کیمونٹی ہال میںکار پردازانِ کالج کی منتظمانہ تن دہی،طلبہ وطالبات کی قابلِ ستائش نظم ونسق کی حامل پُر جوش شمولیت ، انتظامیہ کے بھرپور تعاون،مقامی ادیبوں، ادب نوازوں اور سِوِل سوسائٹی کے باشعورافرادکی ہمہ وقت شرکت کی بدولت انتہائی خوش اسلوبی سے ۲۶؍اور۲۷؍ستمبر ۲۰۱۸ء کو منعقد ہوئی اور ہر مکتب خیال کے دل ودماغ پر انتہائی خوش گواراوریاد گارنقو ش مرتسم کر کے اختتام پذیر ہوئی۔
بہر کیف اس طرح کی شانداراورامتیازی اہداف کی حامل دو دن کی یہ بین الاقوامی اردو کانفرنس شعبۂ اردو کے اساتذہ ڈاکٹر اختر حسین اور ڈاکٹر امتیاز حسین کی والہانہ لگن دور اندیشی،عوامی روابط اور روز وشب کی اَن تھک کاوشوں کا ثمرہ ہے جس کے لیے وہ خصوصی طور پر تحسین اور تشکرکے مستحق ہیں
این کا ر از تو آید
مردان چنیں کند
٭٭٭
جموں، موبائل نمبر9419194261