ہندوپاک کے درمیان پچھلے کچھ عرصہ سے جاری کشیدگی کا خمیازہ سب سے زیادہ حد متارکہ کے قریب آباد عوام کو بھگتناپڑرہاہے جہاں جنگ کا سماں بناہواہے اور لوگ گھر بارچھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں ۔پچھلے چاردنوں میں صرف راجوری کے نوشہرہ سیکٹر میں ہی تین عام شہریوں کی ہلاکتیں پیش آئی ہیں جبکہ متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں ۔اس دوران کئی رہائشی ڈھانچے تباہ ہوئے جبکہ بڑی تعداد میں مال مویشی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں ۔تشویشناک بات یہ ہے کہ کشیدگی کم ہونے کانام نہیں لے رہی اور اس ہر روز نئی شدت کے ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوتاجارہاہے ۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال کی فائرنگ اور گولہ باری کے بعد حد متارکہ اور بین الاقوامی سرحد پر حالات قدرے پرسکون تھے اور لوگ کم وبیش اپنے کھیتوں میں جاکر کام کاج کرسکتے تھے لیکن کرشنا گھاٹی سیکٹر میں دو بھارتی فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد حد متارکہ کے حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے ہیںاور اس دوران جہاں ہندوپاک کے درمیان سفارتی سطح پر تعلقات میں مزید خرابی آئی ہے وہیں فوجی سطح پر بھی زبردست کشیدگی دیکھی جارہی ہے ،یہاں تک کہ دونوں ممالک کے فوجی حکام نے ایک دوسرے کے خلاف دھمکی آمیز لہجے میں کارروائی و جوابی کارروائی کاانتباہ دیا۔حد متارکہ پر فائرنگ اور گولہ باری، جو اب ایک طرح کا معمول بن گیاہے ، سے آر پار کے عام شہری بری طرح سے متاثر ہورہے ہیں اور روزانہ اجڑتے رہتےہیں،نہ انہیں اپنے کھیتوں میںجانے کا موقع ملتاہے اور نہ ہی اپنے مال مویشی کی دیکھ بال کرسکتے ہیں، جو انکے لئے اقتصادی شہ رگ کی حیثیت ہے ، کیونکہ اپنی جان کی فکر میں انہیں اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہونا پڑرہا ہے۔ نوشہرہ علاقہ میں یہ صورتحال ایک بار کی نہیں بلکہ سرحدی لوگوں ، خواہ وہ اس پار ہو یا اُس پار کے، کےلئے روزانہ نئے سے نئے مسائل پیداہورہے ہیں اور ان کی زندگی جہنم زار بنی ہوئی ہے اور ان کو گزشتہ70برسوں سے برصغیر کے بٹوارے سے پیدا شدہ صورتحال کے زخم روزانہ سہناپڑتے ہیں ۔نہ ہی تونوشہرہ کے 51 سالہ طفیل حسین کا کوئی قصورتھااور نہ ہی13سال کی کمسن آسیہ بی کااورنہ ہی 36سالہ اختر بی نے ایسی کوئی خطا کی تھی کہ وہ ہندوپاک کشیدگی کی بھینٹ چڑھ جاتے، مگر وقت کی حقیقت یہی ہے اور لوگ بے گناہی کی پاداش میں کٹ رہے ہیں۔ جہاں طفیل کے بچے یتیم ہوگئے وہیں آسیہ کا لڑکپن چھن گیا اور اختر کی جوانی لٹ گئی ۔دونوں ممالک کے درمیان طاقت آزمائی کے فیصلے نئی دہلی اور اسلام آباد میں بیٹھے لوگ کرتے ہیں، جن پر اُن مصائب کا شائبہہ بھی نہیں پڑتا جوان معصوم اور بے گناہ لوگوں کو اُٹھانے پڑتے ہیں ۔ دونوں ممالک کے دارالحکومتوں میں بیٹھے ان لوگوں کوکم ا زکم یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ جب گولی یہاں سے چلتی ہیں یا مارٹر شال گرتے ہیں تو سرحدی عوام پر کیا گزرتی ہوگی،خاص کر بچوں، خواتین اور بوڑھوں پر۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ حد متارکہ کے قریب واقع تمام تعلیمی ادارے غیر معینہ مدت کیلئے بند کردیئے گئے ہیں اور سکولوں کو خالی کردیاگیاہے ۔صورتحال کا تقاضہ ہے کہ دونوں ممالک کی سیاسی و فوجی قیادت حد متارکہ کے عوام کی پریشانی اور ان کے دکھ درد کو سمجھے اورطاقت آزمائی کے بجائے افہام و تفہیم کے ذریعہ صورتحال کو سنبھالیں۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جنگ و جدل کا سلسلہ جاری رکھ کر دونوں ممالک کچھ حاصل نہیںکرسکیںگے اور اس سے اقتصادی تباہی اور انسانی المناکیوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ ماضی میں ہوئی تین جنگیں اس امر کی گواہ ہیں اور بھر پور جنگوں کے بعد بھی دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تمام تحفظات کو ایک طرف رکھ کر مذاکرات کی یہ میزسجانے کا اہتمام جس قدر جلدی ہو ، اُتنا ہی برصغیر کےلئے سود مند ہوگا۔