ممبئی//وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے افسپا کی جزوی واپسی کی وکالت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حساس سرحدی ریاست ہونے کی بنا پر ریاستی عوام کے تئیں مرکزی سرکار کارویہ بالکل مختلف ہونا چاہیے۔وزیر اعلیٰ ممبئی میں’’ انڈیاٹوڈے کنکلیو‘‘کے زیراہتمام سالانہ مباحثے میں اظہارخیال کررہی تھیں۔انہوں نے ریاست میں تجرباتی بنیاد پر متنازعہ قانون افسپا کی مرحلہ وار واپسی کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھنا چاہیں گے کہ جب کسی علاقے سے یہ قانون ہٹایا جاتا ہے تو وہاں کیسی صورتحال رہے گی۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ مرکزی حکومت اور اسکے پالیسی سا ز علاقائی لیڈروں کو نظر انداز نہیں کرسکتے کیونکہ جب تک وفاقیت کا جذبہ مضبوط نہیں ہوگا تب تک ملک ترقی نہیں کر پائے گا۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ملی ٹنسی سے متاثرہ ریاست جموں وکشمیر میں سرکار چلانا آسا ن نہیں ہے کیونکہ ایسے حالات میں صورتحال بدلتے دیر نہیں لگتی، جموں وکشمیر ایک سرحدی ریاست ہے اور اسکی حساسیت سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے۔ وزیرا علیٰ نے کہا کہ سیاسی اور سرحدی اعتبار سے حساس خطہ ہونے کی وجہ سے جموں وکشمیر اور یہاں رہنے والے عوام کے تئیں مرکزی حکومت اور سیاسی لیڈر شپ کا رویہ بالکل مختلف ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر اور کشمیری نوجوان تک پہنچنے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے کچھ فوری نوعیت کے اقدامات اٹھانا ناگزیر بن چکا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کشمیراورکشمیری نوجوانوں کیساتھ بہترروابط پرزوردیتے ہوئے کہاکہ سیاسی افراتفری ریاست جموں وکشمیرکی اقتصادی ،معاشی ومالی پسماندگی کی بنیادی وجہ ہے۔
ہندوپاک تعلقات
محبوبہ مفتی نے کہا جموں وکشمیر کا ہندو پاک کے مابین بہترتعلقات میں اہم رول ہے۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے کہ جموں وکشمیر سیاسی اور سرحدی اعتبار سے ایک حساس ریاست ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جب سفارتی اور سرحدی سطح پر ٹکرائو کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے تو اس کا خمیازہ ریاست اور ریاستی عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سیاسی افراء تفری اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ریاست جموں وکشمیر گزشتہ سات دہائیوں سے اقتصادی ، معاشی اور مالی پسماندگی سے نجات حاصل نہیں کر پائی ہے۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بہترتعلقات قائم کرانے میں جموں وکشمیر اور یہاں کے لوگوں کا اہم رول بنتا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ مجھے کبھی ایسا نہیں لگا کہ موجودہ مرکزی حکومت کا کوئی وزیر اس بات کیخلاف ہے کہ ریاست اور ریاستی عوام ہندوپاک کے درمیان ٹکرائو کی صورتحال کا خاتمہ کرنے میں رول اداکریں ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی سیاسی قیادت اور پالیسی ساز یہ جانتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیا ن دشمنی اور منافرت کی صورتحال کی سب سے زیادہ سزاء جموں وکشمیر اور یہاں رہنے والے لوگوں کو دہائیوں سے اٹھانا پڑ رہی ہے، اسی لئے ہم چاہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہوں تاکہ اس کا اثر ریاست اور ریاستی عوام پر بھی پڑے۔
دفعہ370
سینئر صحافی راج دیپ سر ڈیسائی کی طرف سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں’’ اگر موصوفہ چاہتی ہیں کہ بھارت کے سرمایہ کار جموں وکشمیر میں سرمایہ کاری کریں تو کیا آئین ہند کی دفعہ370اس میں رکاوٹ نہیں ہے‘‘؟، محبوبہ مفتی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بیرون ریاستوں سے لوگ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ کشمیر آکر موسم بہار کا لطف اٹھائیں۔ انہوں نے کہا کہ بلا شبہ کشمیر میں کبھی کبھار کہیں کہیں انکاونٹر بھی ہوتا ہے لیکن وادی سیاحوں اور سیلانیوں کیلئے محفوظ ترین مقام ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بیرون ریاستوں سے لوگ کشمیر آکر کچھ وقت گزاریں گے تو اس کا کشمیر کی صورتحال کا مثبت اثر پڑے گا۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ہمیں سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ ریاست کی سیاحتی صنعت کو فروغ ملے تاکہ اس کے مثبت اثرات ریاست کی اقتصادیات پر بھی پڑیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سرمایہ کاری سے کہیں زیادہ مہمان نوازی کی خواہش رکھتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ صرف جموں وکشمیر میں دفعہ370کے تحت بیرون ریاستی شہریوں کے پراپرٹی خریدنے پر پابندی عائد نہیں ہے بلکہ ایسا قانون تو ریاست مہارشٹرا میں بھی لاگو ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملک میں وفاقیت کو مضبوط اور فعال بنانے کے لئے علاقائی امنگوں کا احترام ہونا چاہیے تاکہ مختلف علاقوں اور ریاستوں کے لوگ بھی اپنی خواہش اور ضرورت کے مطابق ترقی حاصل کرسکیں۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ انکی سرکار کو مختلف تعمیراتی و ترقیاتی اسکیموں کی عمل آوری کیلئے درکار فنڈس مرکزی حکومت سے حاصل کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں ہے۔
نریندر مودی
محبوبہ مفتی نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ وزیرا عظم ہند نریندرا مودی کا اپروچ آمرانہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں کئی مرتبہ وزیر اعظم سے ملی ہوں اور میں نے پایا کہ وہ ایک کھلے ذہن کے لیڈر ہیں اور انکے اپروچ میں کوئی آمریت پسندی نہیں ہے۔