اترپردیش کے لکھنئو میں الگ الگ مذہب والے جوڑے کی پاسپورٹ کی عرضی خارج کرنے اور انہیں مبینہ طور پر بے عزت کرنے والے پاسپورٹ افسر کا تبادلہ کردیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس معاملہ میں جانچ کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اس معاملہ کا وزارت خارجہ کے سکریٹری ڈی ایم ملیئے نے بھی نوٹس لیتے ہوئے جلد ہی مناسب کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ایک دوسرے افسر نے بتایا کہ متاثرہ جوڑے کو بدھ کو پاسپورٹ آفس بلایا گیا اور آج جمعرات کو ان کا پاسپورٹ بھی بنا دیا گیا۔دراصل اس جوڑے نے شکایت کی تھی کہ پاسپورٹ افسر نے ان کی عرضی اس لئے خارج کردی کیونکہ وہ الگ الگ مذہب سے تھے۔ نیوز 18 سے بات چیت کرتے ہوئے انس اور تنوی نے الزام لگایا کہ پاسپورٹ افسر نے بین مذاہب شادی کی وجہ سے انہیں شرمندہ کرتے ہوئے ان کی درخواست خارج کردی۔ انس نے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتایا کہ اس افسر نے انہیں اپنا مذہب تبدیل کرکے ہندو بننے کی بھی نصیحت کی۔ جوڑے نے وزیر خارجہ سشما سوراج اور پی ایم او کو ٹویٹ کرکے اس کی معلومات دی اور اس معاملہ میں مداخلت کی اپیل کی۔اس معاملہ پر تنازع کے بعد جوڑے کو پاسپورٹ دیدیا گیا ہے۔ادھر پاسپورٹ افسر وکاس مشرا نے اپنے اوپر لگے سبھی الزامات کو خارج کیا ہے۔ ان کا کہنا کہ انہوں نے تنوی سیٹھ کے نکاح نامہ میں مسلم اور درخواست میں ہندو نام ہونے پر سوال اٹھایا تھا۔ افسر نے کہا کہ تنوی سے اس کے نکاح نامہ میں لکھے نام کا ہی استعمال کرنے کیلے کہا تھا ، جس کیلئے انہوں نے منع کردیا۔اطلاعات کے مطابق محمد انس صدیقی نے سال 2007 میں لکھنئو میں تنوی سیٹھ کے ساتھ شادی کی اور اپنی اہلیہ کے پاسپورٹ کیلئے درخواست دی تھی۔ 20 جون کو لکھنئو کے پاسپورٹ آفس میں ان کا اپوائنٹمنٹ تھا۔ بتایا جارہا ہے کہ جوڑے نے انٹرویو اسٹیج اے اور بی کلیئر کرلیا تھا ، مگر سی اسٹیج میں پوچھے گئے سوالوں کو لے کر پریشانی ہوگئی۔