ڈاکٹر جتیندر سنگھ
اس کی شروعات ایک شگاف سے ہوئی جو بمشکل نظر آیا، جو فالکن-9بوسٹر پر پریشر فیڈ لائن کے ویلڈ جوائنٹ میں تھا۔ یہ شاید ایک معمولی خامی تھی ، جوخلائی پرواز کی اہم مشینری میں تھی۔ لیکن بھارت کے لیے یہ لمحہ فکریہ تھا۔اسرومیں ہمارے مستعد اورسمجھوتہ نہ کرنے والے سائنسدانوں نے اس کا جواب تلاش کیا۔ انہوں نے وقتی تدابیر پر مرمت کو ترجیح دی اور ایسا کرتے ہوئے، انہوں نے صرف ایک مشن کی نہیں، بلکہ ایک خواب کی حفاظت کی۔
وہ خواب 25 جون 2025 کو حقیقت کا روپ اختیار کر گیا، جب گروپ کیپٹن شبھانشو شکلا، جو بھارتی فضائیہ کے افسر اور اسرو کے تربیتیافتہ خلاباز ہیں، ایکزیوم-4 مشن کے ذریعے مدار کیلئے روانہ ہوئے۔ اگلے ہی دن جب ان کا خلائی جہاز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس)سے منسلک ہوا، تو وہ نہ صرف خلا میں بھارت کے ایک اور عظیممعرکے کا چہرہ بنے، بلکہ انسان پر مرکوزسائنس، طب اور ٹیکنالوجی کے مستقبل کی جانب ہمارے عزم کی بھی عکاسی کی۔
یہ کوئی رسمییا نمائشی سفر نہیں تھا، بلکہ ایکسائنسی مہم تھی۔ شکلا اپنے ساتھ سات مائیکرو گریوٹی تجربات لے کر گئے، جو بھارتی محققین نے نہایت باریکی سے اس انداز میں تیار کیے تھے کہ وہ ایسے سوالات کے جواب دے سکیں جو صرف خلا نوردوں کے لیے نہیں، بلکہ ہمارے ملک کے کسانوں، ڈاکٹروں، انجینئروں اور طلباء کے لیے بھی اہم ہیں۔
خلاء میں میتھی اور مونگ کے بیجوں کا اگنا—سننے میںیہ ایک سادہ، بلکہ شاعرانہ عمل لگتا ہے۔ مگر اس کے اثرات نہایت گہرے ہیں۔ ایک خلائی جہاز کے محدود ماحول میں، جہاں ایک ایک گرام غذائیت کیبھی اہمیت ہوتی ہے، یہ جاننا کہ بھارتی فصلیں مائیکرو گریوٹی میں کس طرح کا ردِ عمل دیتی ہیں، طویل خلائی مشنوں کے لیے خلا نوردوں کی خوراک کو از سرِ نو متعین کر سکتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر، یہ تحقیق زمین پر عمودی کاشتاور پانی کے بغیر کھیتی جیسے نظاموں میں نئی جدت پیدا کر سکتی ہے۔خصوصاً ان علاقوں میں جو مٹی کی زرخیزی میں کمی اور پانی کی کمی جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
پھر بات آتی ہے بھارتی ٹارڈیگریڈز کے مطالعے کی — وہ خردبینی جاندار جو بے پناہ سخت جان ہونے کے لیے مشہور ہیں۔ جب انہیں خلاء میں غفلتکی حالت سے بیدار کیا گیا، تو ان کی بقاء، افزائشِ نسل، اور جینیاتی اظہار کا مشاہدہ کیا گیا۔ ان کا طرزِ عمل حیاتیاتی مزاحمت کے راز کھول سکتا ہے، جو ویکسین کی تیاری سے لے کر موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ زرعی تحقیق تک — کئی میدانوں میں انقلابی پیش رفت کی بنیاد بن سکتا ہے۔
شکلا نے ایک مایوجنیسس تجربہ بھی انجام دیا، جس میںاس بات کی جانچ کی گئی کہ انسانی عضلاتی خلیے خلا کے ماحول اور غذائی سپلیمنٹس پر کس طرح ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج نہ صرف خلا نوردوں کے لیے، بلکہ معمر مریضوں اور چوٹ یا صدمے سے صحت یاب ہونے والے افراد کے لیے بھیپٹھوں کی کمزوری کے علاج میں انقلابیاہمیت کے حامل ہو سکتے ہیں۔
دیگر جاری تجربات میں نیلا طحالب (سیانوبیکٹریا) کی افزائش شامل ہے،ایسے جاندار جو مستقبل میں خلا میں زندگی کے لیے درکار نظامِ حیات کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارتی فصلوں جیسے چاول، لوبیا ، تل، بینگناور ٹماٹر کے بیج مائیکرو گریوٹی کے ماحول میں بغیر کسی فعال مداخلت کے رکھے گئے۔ ان بیجوں کو آنے والی نسلوں تک اگایا جائے گا تاکہ ان میں وراثتی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جا سکے،جو ممکنہ طور پر ماحول کے انتہائیسختحالات کے لیے موزوں نئی فصلوں کے اگنے کا سبب بن سکتی ہیں۔
حتیٰ کہ انسان اور مشین کے باہمی تعاملکو بھی جانچا گیا۔ شکلا نے ویب پر مبنی جائزے انجام دیے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ مائیکرو گریوٹی انسان کی الیکٹرانک ڈسپلے سے تعامل کی صلاحیت کو کس حد تک متاثر کرتی ہے۔ یہ ایک نہایت اہم بصیرت ہے جو مستقبل کے خلائی اسٹیشنز اور خلائی جہازوں کے لیے موثر اور فطرییوزر انٹرفیسوضع کرنے میں مدد دے گی۔
یہ تجربات محض تصوراتی یا تجریدی مشقیں نہیں ہیں۔ اس کی جڑیں بھارتی سائنس کے اُس نظریے میںنپہاں ہیں جو ’’معاشرے کے لیے سائنس‘‘ کا علمبردار ہے۔ ایکزیوم-4 مشن پر کیا جانے والا ہر تجربہ زمین پر انسانی زندگیپر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ چاہے وہ اڑیسہ کا ایک قبائلی کسان ہو، شیلانگ کا ایک اسکول کا طالبعلم ہو، یا لداخ میں خدمات انجام دینے والا ایک صفِ اوّل کا معالج ہو۔
یہ مشن بھارت کی عالمی خلائی سفارت کاری میں بڑھتی ہوئی اہمیت کا بھی مظہر تھا۔ ہماری حفاظت کے پروٹوکول پر اصرار نے اسپیس ایکس کو ایک ممکنہ تباہ کن نقص کو شناخت کر کے اس کی مرمت کرنے پر مجبور کیا۔ ناسا، یورپی خلائی ایجنسی(ای ایس اے)، اور ایکزیوم اسپیس کے ساتھ ہمارا تعاون ایک نئے دور کی عکاسی کرتا ہے، جہاں بھارت محض ایک شراکت دار نہیںہے، بلکہ قائد ہے۔
مشن کے دوران، اسرو کے فلائٹ سرجنز نے شبھانشو شکلا کی صحت کی مسلسل نگرانی کی، تاکہ ان کی جسمانی اور نفسیاتیصحت برقرار رہے، وہ خوش مزاج رہیں اور بھارت کے مختلف شہروں کے طلباء سے بات چیت کرتے رہیں — لکھنؤ سے تروندرم، بنگلور سے شیلانگ تک — نوجوان ذہنوں میں سائنس اور خلا کی نئی ممکنات کیلئے جوش و ولولہ برقرار رکھیں ۔
شکلا اب واپس آ چکے ہیں، اور وہ اپنے ساتھ قیمتی ڈیٹا، نمونے، اور معلومات لے کر آئے ہیں جو بھارت کے آنے والے گگن یان مشن اور بھارت خلائی اسٹیشن کی بنیاد بنیں گی۔
یہ محض ایک خلاباز کے تجربہ تک محدود نہیں، بلکہ ایک قوم کے عروج کی کہانی ہے۔ یہ خلائی سائنس کو عوامی خدمت میں بدلنے کا عزم ہے۔ یہ اس بات کی ضمانت ہے کہ مائیکرو گریوٹی کی تحقیق کے فوائد بھارت کے ہر گوشے—دور دراز دیہاتوں میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ سے لے کر شہری ہسپتالوں میں تجدیدی طب —تک پہنچیں ۔
جیسا کہ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ گگن یان کا مقصد ہے کہ ایک ہندوستانی کو ہندوستانی وسائل سے خلا میں بھیجا جائے۔ ایکزیوم-4 اس کا ریہرسل، تصورکو ثابت کرنے اور خواہش سے کامیابی تک کا پل ہے۔
اور جب ہم آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو صرف حیرت سے نہیں، بلکہ ارادے کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ کیونکہ بھارت کے لیے، آسمان حد نہیں، بلکہ ایک تجربہ گاہ ہے۔
(مضمون نگار مرکزی وزیر مملکت (آزادانہ چارج) برائے سائنس اور ٹیکنالوجی؛ ارضیاتی سائنسز اور وزیر مملکت برائے پی ایم او، محکمہ جوہری توانائی، محکمہ خلا، عملہ، عوامی شکایات اور پنشن ہیں۔مضمون بشکریہ پی آئی بی)