اسد مرزا
وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل 22 اپریل کو جدہ میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی، جہاں دونوں رہنماؤں نے وسیع پیمانے پر دو طرفہ بات چیت کی۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان گھنٹوں طویل ملاقات کے بعد چار اہم معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔ پی ایم مودی جنہیں ایک ریاستی عشائیہ میں شرکت اور ہندوستانی برادری سے خطاب بھی کرنا تھا، لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے کیونکہ انہوں نے کشمیر میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے،جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے،کی وجہ سے اپنا دورہ مختصر کردیا اور واپس ہندوستان آگئے۔پی ایم مودی کا سعودی عرب کا دورہ حکمت عملی کے لحاظ سے بہت اہم تھا۔ دونوں ممالک اپنے تعلقات کو ایک نئی سطح تک بڑھانے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ نئی دہلی اور ریاض خطے میں پہلے ہی اسٹریٹجک پارٹنر ہیں اور اہم دفاعی شراکت دار بھی ہیں۔ منگل کی میٹنگ میں دونوں فریقوں نے دو نئی وزارتی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں، جن میں ایک نئی دفاعی کمیٹی بھی شامل ہےاور سعودی عرب کی جانب سے ہندوستان میں دو نئی ریفائنریوں کے قیام پر تعاون کرنے پر اتفاق بھی کیا۔
سعودی عرب کی طرف سے دورے کو دی جانے والی اہمیت اس حقیقت سے ظاہر ہوتی ہے کہ پی ایم مودی کے پیر کو جدہ میں اترنے سے پہلے ہی ان کے طیارے ’’ایئر انڈیا ون‘‘ کو سعودی فضائیہ کے متعدد F-15 لڑاکا طیاروں نے سعودی ہوائی حدود میں اس کے ساتھ پرواز بھری جو کہ عموماً سعودی عرب کے خاص مہمانوں کے لیے ہی کیا جاتا ہے۔شاہی سعودی فضائیہ کا یہ اشارہ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط ہوتے ہوئے دفاعی تعاون کو بھی اُجاگر کرتا ہے۔ان کی جدہ آمد پر، وزیر اعظم کو 21 توپوں کی سلامی دی گئی اور ہندوستانی برادری کے ارکان نے ’’سارے جہاں سے اچھا‘‘گایا۔ دن کے آخر میں، پی ایم مودی کا السلام محل میں رسمی استقبال کیا گیا، جہاں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ان کا استقبال کیا۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو ’’میرے بھائی ‘‘کے طور پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی، جو40 سال سے زیادہ عرصے میں جدہ کا دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی وزیر اعظم بنے، انھوں نے سعودی اخبار ’عرب نیوز‘ کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں سعودی عرب کو ’’ایک قابل اعتماد دوست، اسٹریٹجک اتحادی اور ہندوستان کے سب سے قابل قدر شراکت داروں میں سے ایک ‘‘قرار دیا اور کہا کہ ہندوستان۔سعودی شراکت میں ‘‘لامحدود صلاحیت اور امکانات ‘‘موجود ہیں۔ ’’ہم سعودی عرب کو خطے میں مثبت اور استحکام کی طاقت سمجھتے ہیں۔ سمندری پڑوسیوں کے طور پر، ہندوستان اور سعودی عرب خطے میں امن اور استحکام کے تحفظ میں فطری دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا۔وزیر اعظم مودی اور سعودی ولی عہد نے اس کے بعد وزیر اعظم مودی کے 2019 کے دورے کے دوران قائم ہونے والی سعودی-انڈیا اسٹریٹجک پارٹنرشپ کونسل کی دوسری میٹنگ کی مشترکہ صدارت کی، جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ اور اسٹریٹجک تعلقات کو مضبوط بنانا تھا۔دونوں فریقوں نے دفاع اور خلائی، تعلیم، صحت اور مواصلات کے شعبوں میں چار اہم معاہدوں پر بھی دستخط کیے جیسا کہ پہلے اعلان کیا گیا تھا کہ دونوں فریق چھ نئے معاہدوں پر دستخط کرنے والے تھے، لیکن پی ایم مودی کی سعودی عرب سے پہلے روانگی کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکے۔حکومتی ذرائع کے مطابق دو طرفہ بات چیت میں ہندوستان میں سرمایہ کاری کے مواقع اور دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور کاروباری تعلقات کو بڑھانے پر بھی غور کیا گیا۔ پی ایم مودی نے اطلاعات کے مطابق اس سال ہونے والے حج میں شامل ہونے والے ہندوستانی زائرین کی تعداد کم کرنے کے مسئلے پر بھی سعودی حکام سے تبادلہ خیال کیا۔ میٹنگ کے آغاز میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کشمیر میں دہشت گردانہ حملے پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب، ہندوستان کے ساتھ اس کی دکھ کی گھڑی میں اس کے ساتھ کھڑا ہے اور ہر طرح کی مدد مہیا کرانے کے لیے تیار ہے۔شہزادہ سلمان نے کہا کہ’’سعودی عرب کے ہندوستان میں توانائی، پیٹرو کیمیکل، بنیادی ڈھانچہ، ٹیکنالوجی، فنٹیک، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، ٹیلی کمیونیکیشن، فارماسیوٹیکل، مینوفیکچرنگ اور صحت سمیت متعدد شعبوں میں ہندوستان میں 100 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے عزم کی بنیاد پر، سرمایہ کاری پر مشترکہ اعلیٰ سطحی ٹاسک فورس کی سفارشات پر سرمایہ کاری کے متعدد شعبوں میں تیزی سے زیادہ سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے گا۔‘‘
ہند۔سعودی تعلقات: پی ایم مودی کا سعودی عرب کا دورہ محض ایک اور سفارتی دورہ نہیں تھا۔ یہ ایک جیو پولیٹیکل سگنل تھا، ایک اسٹریٹجک استحکام تھا جو کہ سفارتی ذرائع کے ذریعے ان تمام موضوعات پر ایک نئے نظریے کو قائم کرنے اور ایک نئے باہمی اتحاد کی شروعات کے لیے سازگار ماحول بنانا تھا جو کہ خاص طور سے دفاعی تعاون اور صاف توانائی کے شعبوں میںشراکت داری کو آگے لے جاسکے۔یہ دورہ ایک پرانے اور پختہ تعلقات کی عکاسی بھی کرتا ہے جو اب تیل کی سفارت کاری یا مزدوروں کے بھیجے جانے تک محدود نہیں رہا ہے۔
بڑھتے ہوئے باہمی دفاعی تعلقات:ہندوستان۔سعودی تعلقات میں سب سے نمایاں ارتقاء دفاعی تعاون میں ہوا ہے۔ روایتی طور پر خیر سگالی کے اشاروں اور کبھی کبھار دوروں تک محدود، دفاعی شراکت داری میں اب خریداری کے سودے، مشترکہ مشقیں اور ادارہ جاتی سطح کی مصروفیات شامل ہیں۔گزشتہ دو سالوں میں دونوں ممالک نے مشترکہ فوجی اور بحری مشقیں کی ہیں، اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ فروری 2024 میں، دونوں ممالک نے اپنے پہلے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔ ہندوستان کی میونیشنس انڈیا لمیٹڈ (MIL) کے ساتھ 225 ملین ڈالر کے توپ خانے کا معاہدہ، جس میں155 mm Advanced Towed Artillery Gun System (ATAGS) کی برآمد بھی شامل ہے۔یہ الگ تھلگ واقعات نہیں ہیں۔ وہ ایک وسیع تر ہم آہنگی کا حصہ ہیں: ہندوستان کی ’’میک ان انڈیا ‘‘پہل، سعودی عرب کے وژن 2030 کے ساتھ اچھی طرح ہم آہنگ ہے،کیونکہ دونوں کا مقصد دفاعی اسلحہ کو مقامی طور پر بنانا اور مغربی سپلائرز پر انحصار کم کرنا ہے۔
توانائی اور سبز ہائیڈروجن۔ مستقبل کا ایندھن: اس دورے کے دوران گرین ہائیڈروجن کے حوالے سے ایک اہم مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کیے جانے کی امید تھی۔ سعودی عرب، اپنے وافر شمسی وسائل کے ساتھ، اور ہندوستان، اپنی توسیع پذیر تکنیکی بنیاد اور قابل تجدید ذرائع کے لیے پالیسی کے ساتھ صاف توانائی کی اختراع میں قدرتی شراکت دار ہیں۔ گرین ہائیڈروجن تعاون میں آگے بڑھ کر ہندوستان اور سعودی عرب نہ صرف اپنے توانائی کے مستقبل کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں بلکہ عالمی آب و ہوا کے اہداف اور پائیدار ترقی میں بھی اپنا مثبت حصہ شامل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تعاون دونوں معیشتوں کو جیواشم ایندھن کی منڈیوں کے اُتار چڑھاؤ اور جغرافیائی سیاسی توانائی کی رکاوٹوں کے خلاف بھی ایک طرفہ ہے۔
مغربی ایشیا کا پیچیدہ منظر نامہ: پی ایم مودی کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب مغربی ایشیا میں جنگی تنازعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل۔فلسطین تنازعہ بدستور بڑھتا جا رہا ہے، جبکہ بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملوں کی وجہ سے سمندری عدم تحفظ کی وجہ سے عالمی سپلائی چینز کو خطرہ ہے۔ ہندوستان اور سعودی عرب علاقائی استحکام پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں، خاص طور پر ان کے بڑھتے ہوئے اقتصادی باہمی انحصار اور توانائی کے روابط کے پیش نظر۔لیکن اس دورے کا ایک اہم مقصد سعودی حکومت کو خلیجی تعاون کونسل (GCC) کے ساتھ آزادتجارتی معاہدے (ایف ٹی اے) کے مسئلے پر شہزادہ سلمان کے ساتھ بات چیت کرنا بھی تھی کہ وہ GCCاور ہندوستان کے درمیان ایف ٹی اے کو حتمی شکل دینے کے لیے اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کریں۔عالمی تجارتی راستوں کی تبدیلی کے درمیان، خاص طور پر ٹرمپ کے دور کے ٹیرف اور تنازعات کی وجہ سے جاری رکاوٹوں کے درمیان FTA مذاکرات کو بحال کرنا، اپنے اقتصادی شراکت داروں کو متنوع بنانے اور خلیج کے ذریعے تجارتی راہداریوں کو محفوظ بنانے کی ہندوستان کی جستجو کے لیے بہت ضروری ہے۔مجموعی طور پر پی ایم مودی کے اس دورے کو اس نئی سفارت کاری سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جس کے تحت حال میں زیادہ تر ممالک عالمی تعاون کے بجائے علاقائی تعاون کو فروغ دینے کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ یعنی کہ اب وہ دور نہیں رہا ہے کہ آپ صرف روس یا امریکہ ساتھ کھڑے ہوں بلکہ اب آج کے دور میں آپ ان دونوں بڑی طاقتوں سے کسی ایک موضوع پر اختلاف کرتے ہوئے بھی اس کے ساتھ وسیع تر مفادات کے لیے کام کرسکتے ہیں اور یہ بڑی طاقتیں بھی اب اس امر کو تسلیم کرنے لگی ہیں۔ جیسا کہ روس-یوکرین جنگ پر ہندوستان اور سعودی عرب کے مختلف رویوں کے باوجود فلسطین مسئلے پر ہندوستان اور سعودی کے مختلف پالیسی پر قائم رہنے کے باوجود دونوں ملک باہمی شراکت داری کے لیے بھی کام کررہے ہیں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)