لندن//آئی سی سی چیمپئنس ٹرافی کا جمعرات سے آغاز ہونے والا ہے جہاں تمام ٹیمیں خطاب پر نظر لگائے ہو ئے ہیں ۔ گزشتہ چمپئن ہندوستانی ٹیم کی کارکردگی اور اس کے کھلاڑیوں کے کھیل کے پیش نظر اس سال بھی وہ جیت کی مضبوط دعویدار ہے جو خطابی ہیٹ ٹرک لگا نے کے مقصد سے اترے گی۔ ٹورنامنٹ کا آغاز یکم جون کو میزبان انگلینڈ اور بنگلہ دیش کے درمیان میچ سے ہوگا۔ اس کے بعد گزشتہ چمپئن ہندستانی ٹیم چار جون کو روایتی حریف پاکستان کے خلاف میچ سے اپنی مہم کا آغاز کرے گی۔ ہندستان نے اپنے دونوں پریکٹس میچ جیت کر دکھا دیا ہے کہ خطاب کا دفاع کرنے کے لئے اس کے بلے بازوں کے ساتھ ساتھ گیند باز بھی شاندارفارم میں ہیں اور اس کے گیند باز کسی بھی ٹیم کے بلے بازوں کے لئے مصیبت کھڑی کر سکتے ہے ۔ ٹیم میں اس وقت نوجوان اور تجربہ کار کھلاڑی موجود ہیں جو کسی بھی طرح کے حالات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہندستان اس سے پہلے 1998 میں بنگلہ دیش میں، 2002 میں میزبان سری لنکا کے ساتھ مشترکہ طور پر اور 2013 میں انگلینڈ میں ہی چیمپئنز ٹرافی کا خطاب اپنے نام کر چکا ہے ۔ ہندستان کی اس بار بھی یہی خواہش ہوگی کہ وہ خطاب جیت کر آسٹریلیا کے بعد خطاب کا دفاع کرنے والی دوسری ٹیم بنے ۔ٹورنامنٹ کے مضوط دعویداروں میں ہندستان کے علاوہ آسٹریلیا اور میزبان انگلینڈ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ آسٹریلیا اس سے پہلے 2006 میں ہندستان میں اور 2009 میں جنوبی افریقہ میں خطاب جیت چکا ہے ۔ اگرچہ آسٹریلیا ئی کرکٹ ایسوسی ایشن (اے سی اے ) اور کرکٹ آسٹریلیا (سی اے ) کے مابین موجودہ تنخواہ پر جاری تنازعہ کی وجہ سے کھلاڑیوں کا حوصلہ گرا ہے لیکن کھلاڑی چاہیں گے کہ وہ ان اختلافات کو بھلا کر اچھی کارکردگی پر توجہ دیں۔اس کے علاوہ جہاں انگلینڈ کو اپنی میزبانی میں کھیلنے کا فائدہ مل سکتا ہے تو وہیں جنوبی افریقہ بھی سیمی فائنل تک کا سفر کر سکتا ہے لیکن انگلینڈ کی تاریخ ہے کہ وہ ٹوئنٹی ۔20 ورلڈ کپ کے علاوہ اب تک کو کوئی بڑا آئی سی سی خطاب نہیں جیت سکاہے ۔ وہیں جنوبی افریقہ سیمی فائنل تک پہنچنے کی تو صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس کے اوپر لگا چوکرس کا دھبہ اسے آئی سی سی خطاب سے دور کر سکتا ہے ۔پاکستان کی ٹیم ایک ایسی ٹیم ہے جو کبھی بھی بڑا الٹ پھیر کر سکتی ہے ۔ سرفراز احمد کی قیادت والی ٹیم میں ایسا ہی کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس کے علاوہ نیوزی لینڈ، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی ٹیمیں ایسی ٹیمیں ہیں جو کوئی بھی کارنامہ انجام دے سکتی ہیں۔ٹورنامنٹ کے مضوط دعویداروں میں ہندستان کے علاوہ آسٹریلیا اور میزبان انگلینڈ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ آسٹریلیا اس سے پہلے 2006 میں ہندستان میں اور 2009 میں جنوبی افریقہ میں خطاب جیت چکا ہے ۔ اگرچہ آسٹریلیا ئی کرکٹ ایسوسی ایشن (اے سی اے ) اور کرکٹ آسٹریلیا (سی اے ) کے مابین موجودہ تنخواہ پر جاری تنازعہ کی وجہ سے کھلاڑیوں کا حوصلہ گرا ہے لیکن کھلاڑی چاہیں گے کہ وہ ان اختلافات کو بھلا کر اچھی کارکردگی پر توجہ دیں۔اس کے علاوہ جہاں انگلینڈ کو اپنی میزبانی میں کھیلنے کا فائدہ مل سکتا ہے تو وہیں جنوبی افریقہ بھی سیمی فائنل تک کا سفر کر سکتا ہے لیکن انگلینڈ کی تاریخ ہے کہ وہ ٹوئنٹی ۔20 ورلڈ کپ کے علاوہ اب تک کو کوئی بڑا آئی سی سی خطاب نہیں جیت سکاہے ۔ وہیں جنوبی افریقہ سیمی فائنل تک پہنچنے کی تو صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس کے اوپر لگا چوکرس کا دھبہ اسے آئی سی سی خطاب سے دور کر سکتا ہے ۔پاکستان کی ٹیم ایک ایسی ٹیم ہے جو کبھی بھی بڑا الٹ پھیر کر سکتی ہے ۔ سرفراز احمد کی قیادت والی ٹیم میں ایسا ہی کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس کے علاوہ نیوزی لینڈ، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی ٹیمیں ایسی ٹیمیں ہیں جو کوئی بھی کارنامہ انجام دے سکتی ہیں۔ (یو این آئی )