رواں پورا ہفتہ دیوالی ہے۔۔۔۔روشنیوں کا تہوار۔شمالی ہند کے ہندو اسے بڑی شدومد کے ساتھ مناتے ہیں اور جنوب (میٹروشہروں کو چھوڑ کر)میں کوئی خاندان اگر اسے مناتا ہے تو بریکنگ نیوز کا حامل قرار پاتا ہے۔اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جنوبی ہند میں بھی اس تہوار نے اپنا قدم جمانا شروع کر دیا ہے اور ممکن ہے کہ چند برسوں بعد کیرلا میں بھی اس کا آغاز ہو جائے ۔اس میں کوئی خرابی نہیں ہے کیونکہ تہوار خوشیاں ہی بکھیرتے ہیں ۔اگرچہ مسلمان اسے منا نہیں سکتے کیونکہ اس میں لکشمی (دیوی)کی پوجا ہوتی ہے اور پوجا پاٹھ اسلام میں منع ہے لیکن وہ اپنے ہندو بھائیوں کو اس کی مبارک باد دیتے ہیں اور اُن کی خوشیوں میں شامل بھی ہوتے ہیں ،گلے ملتے ہیں،مٹھائیاں کھاتے ہیں ، دعائیں دیتے ہیں۔
دیوالی میں پٹاخے پھوڑنا بھی اس تہوار کا ایک اہم جز بنایا گیا ہے لیکن اس دفعہ عدالت عظمیٰ نے پٹاخوں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی۔ اس فیصلے کو کچھ لوگوں نے مذہبی رنگ دے دیا اور اسے عدالت عظمیٰ کا مذہب میں بے جا مداخلت کے الزام سے نوازا ،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دیوالی میں پٹاخے پھوڑنے کی روایت ۱۹۲۰ء سے پہلے نہیں ملتی اور یہ کتنا حسین اتفاق ہے کہ اسی کے آس پاس مہاراشٹر میں گنپتی کے تہوار کا بھی آغاز ہوتا ہے۔اگرچہ گنیش جی پہلے سے موجود تھے اور خوشحالی کے لئے جانے جاتے ہیں لیکن لوگوں کو اکٹھا کرنے اور ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے بال گنگا دھر تلک نے اس تہوار کی شروعات کی تھی تاکہ مجمع کو انگریزوں کے ظلم کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔اب تو یہ تہوار آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں بھی بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کا مقصد کیا رہ گیا ہے،یہ بتلانے کی چنداں ضرورت نہیں!
مزے کی بات تو یہ ہے کہ پٹاخے پر فروخت کی پابندی کے باوجود دہلی اور اطراف میں پٹاخے کھلے عام فروخت کئے گئے اور عدالت عظمیٰ کا گویا مذاق اُڑایا گیا۔لیکن یہ منطق بھی سمجھ میں نہیں آئی کہ بیچنے اور خریدنے پر پابندی تو ہے لیکن رات میں ایک خاص وقت تک پٹاخے پھوڑنے پر نہیں ۔اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اس سے بدعنوانی راہ پاتی ہے۔اس سے قبل بھی اعلیٰ عدالتوں کے ذریعے مہاراشٹر میں ’’گووندا‘‘(جنم اشٹمی کے موقع پر دہی ہانڈی پھوڑنے کا تہوار) پر پابندی عائد کی گئی لیکن اس فیصلے اور حکم نامے کی متعدد بار تعمیل نہیں کی گئی بلکہ عدالتوں کو چیلنز کرتے ہوئے یہاں کی مقامی ہندو پارٹیوں نے ’’گووِندا ‘‘کا اہتمام کیا اور عدالتی احکامات کو سرعام نکارا۔ عدالت کا کام ہے حکم دینا یا فیصلے صادر کرنا۔اس فیصلے کے نفاذ کی تمام تر ذمہ داری ریاستوں یا مرکز پر ہوتی ہے ۔اگر مرکز میں اُسی آئیڈیالوجی کی حکومت ہو جو فیصلے کو اپنے خلاف سمجھتی ہے تو پھر نفاذ کی کوئی صورت نہیں۔یہی سبب ہے کہ اکثریتی آبادی کے جذبات اور ردعمل کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی فیصلے سنائے جانے لگے ہیں یعنی عدالتی فیصلوں پر بھی بعض اوقات مذہب اور آئیڈیالوجی کا رنگ غالب ہوتا ہے اور آج کل جج بھی اپنے ہی ہم خیال بنائے جا رہے ہیں اور جس ’کالیجیم‘ کے تحت ججوں کی تقرری عمل میں آتی ہے، فی الحال اُسے مرکزی حکومت نے اچھا خاصا متاثر کر رکھاہے۔
بہرکیف مودی جی جب اپنی تقریر میں یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ۱۲؍سو برس بعد آزادی ملی ہے تو اس میں آزاد ہندوستان کے وہ ادوار بھی شامل ہیں جن میں کانگریس نے تقریباً ۵۵؍برس حکومت کی ہے یعنی کہ کانگریس کے دور کو بھی وہ غلامی کے دور سے معنون کرتے ہیں۔اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ سیکولرازم اُن کے نزدیک غلامی کی علامت ہے جب کہ اِس لفظ کو آئین میں اندرا گاندھی کے دورِ حکومت میں تحریراً پیوست کیا گیا،اگرچہ جواہر لال نہرو،مولانا آزد ،سردار پٹیل اور راجندر پرساد وغیرہ لیڈروں نے ملک کی خونین تقسیم کے واقعے کے بعد بھی ہندوستان کو شدت پسندی کی راہ پر چلنے سے یکسر اور بزور روکا۔یہ اور بات ہے کہ اپنے موقف میں سردار پٹیل سخت تھے لیکن شدت پسند قطعی نہیں تھے بلکہ وہ نہرو کے لئے بڑے ہی معاون ثابت ہوئے اور ان تمام لوگوں نے مل کر ہندوستان کی جو بنیاد رکھی وہ سراسر آزاد خیالی پر مبنی تھی۔ اُن دنوں بھی شدت پسند ہندو اور ان کی تنظیمیں سرگرم عمل تھیں اور نہ جانے کتنا بغض دلوں میں پالے ہوئے تھیں ،جن کے نتا ئج مختلف مسلم کش فسادات کی صورت میں وقفے وقفے سے آتے رہے اور جن کا سلسلہ گجرات ۲۰۰۲ء اور بعد کوشاملی و مظفرنگر۲۰۱۳ء (۲۰۱۴ء کے عام انتخابات سے پہلے) میں چلتا رہا ۔اس کی ایک زندہ حقیقت سنگیت سوم ہے جو آج بھی اپنی زہریلی تقریروں سے معاشرے کو شدت پسند بنا رہا ہے اور کہتا ہے کہ’ ’تاج محل ایک کلنک ہے‘‘۔ مودی ، یوگی اور بی جے پی نے سوم کے بیان کو اس کا ذاتی بیان گردانا ہے لیکن یوگی نے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد تاج محل کے تعلق سے جب یہ بیان دیا تھا کہ تاج محل ہندوستانی تہذیب و تمدن کا حصہ نہیںہے تو یہ بیان بھی کیا یوگی کا ذاتی بیان تھا؟ اس کے علاوہ جب تاج محل کو حال ہی میں یوپی کے سیاحتی کتابچے میں دانستہ طور جگہ نہیں دی گئی تو کیا یہ بھی کسی کی ذاتی بھول تھی؟ دراصل جو دل میں رہے گا وہی زبان پر آئے گا اور سیاسی لیپا پوتی تو محض ایک دکھاوا ہوتاہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بھاجپا نیتاؤں جہاں سے فکری تربیت ملی ہے، یہ سب اسی کا شاخسانہ ہے۔کوئی یہ امید نہ کرے کہ ان کے بنیادی کردار اور فکر میں کوئی تبدیلی آئے گی۔کچھ دنوں بعد ایسا ہوگا کہ اکثریتی طبقہ اسی فکر اور کردار کے ساتھ جینے پر مجبور ہو جائے گا۔
یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت میں آنے کے بعد یہ پہلی دیوالی ہے۔دیوالی کیسے منائی جائے ؟وہ تو انہوں نے بتا دیا،وہ یوں کہ ایودھیا میں سریو ندی کو دِیوں اور روشنیوں سے بکھیر دیا۔خبر یہ بھی آئی کہ ۲؍لاکھ سے زیادہ دِئیے روشن کئے گئے اور خود وزیر اعلیٰ نے اس کا اہتمام کیا۔ایودھیا کے لوگوں نے یہ بتایا کہ ایسی دیوالی انہوں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی اور زیادہ تر لوگوں نے یوگی کو’’ دعائیں‘‘ دیں۔روشنیاں اور آنکھیں خیرہ کرنے والے نظارے کسے اچھا نہیں لگیں گے لیکن اگر یہ سارے اہتمام حکومت کے اخراجات پر کئے گئے ہیں تو اس کی باز پرس ضروری ہے۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ باز پرس کرے گا کون اور کس سے کرے گا؟یوگی نے یہ ضرور کہا کہ اُن کے ذاتی آستھا پر سوال نہیں اُٹھایا جائے۔چلئے یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن یوگی کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ صرف ہندوؤں کے وزیر اعلیٰ نہیں ہیں بلکہ یوپی میں ہندوؤں کے علاوہ اور بھی جاتیوں کے لوگ رہتے بستے ہیں۔کیا وہ سب کے تہوار اسی طرح منائیں گے؟حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لوگ تہواروں پر لوگوں کو مبارک باد تک نہیں دیتے تو دوسروں کے تہواروں کا اہتمام کیا کریں گے؟
ایک بات طے ہے کہ ہندتوا کے علاوہ ان لوگوںکے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔یہ دیکھ رہے ہیں کہ گجرات کے الیکشن میں ان کی حالت پتلی ہو رہی ہے۔یوگی نے خود بھی گجرات کا ابھی ابھی دورہ کیا ہے اور انہیں کیا پورے سنگھ پریوار کو احساس ہو گیا کہ یوگی کوگجرات میں کوئی پوچھنے تک نہیں آیا،بھاؤ دینا تو بڑی بات ہے۔یہ وہی گجرات ہے جو بطور ’’ہندتو لیبارٹری‘‘ مشہور یا بدنام ہے ۔ذرا یاد کریں کہ انتخابات سے پہلے ایک سانحہ اکشر دھام بھی ہوا تھا اور مودی جی پھر سے جیت گئے تھے لیکن اکشر دھام کے فیصلے کا کیا نتیجہ نکلا، وہ بھی دنیا کو معلوم ہے۔ ہندتوا کی اس لیبارٹری کے بعد اسے ’’گجرات ماڈل‘‘ کا نام دیا گیا لیکن چند نوجوانوں نے اس گجرات ماڈل کی قلعی اُس وقت کھول دی جب انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو اس فقرہ کے ساتھ ڈال دی کہ ’’وکاس پاگل ہو گیا ہے‘‘ جس میں سڑکوں ،بسوں نیز انفراسٹرکچر کی خستہ حالی کو اُجاگر کیا گیا ہے۔یہ فقرہ ’’وکاس پاگل ہو گیا ہے‘‘ تقریباً دو ماہ سے گجرات میں زیرِ بحث بنا ہوا ہے اور لوگ اس چوٹ سے لطف بھی لے رہے ہیں ۔ مودی جی اپنی تازہ گجرات ریلی میں جب یہ کہتے ہیں کہ ’’میں ہی وکاس ہوں ،میں ہی گجرات ہوں ‘‘ تو ان کی سادہ لوحی پر ترس آتا ہے کہ کتنی آسانی سے خود کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ وہ کیا ہیں۔رہی بات گجرات ماڈل کی، تو یہ اُس بدصورت عورت کی مانند ہے جسے تقریباً ۱۵؍ برسوں سے بناؤ سنگھار اور میک اَپ کرکے میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اور خوبصوت جملوں اور فقروں کے ذریعے لوگوں کے سامنے پیش کیا گیاہے۔پورے ہندوستان کو گجرات ماڈل کو ایک نظیر کے طور پر پیش کرکے بیشتر انتخابات جیتے گئے لیکن قدرت کو شاید یہی منظور ہے کہ اس ماڈل کا جنازہ گجرات سے ہی اُٹھے،قرائن تو یہی بتا رہے ہیں کہ ارتھی تیار ہے ۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883