عظمیٰ نیوز سروس
جموں //جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے صدرڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پیر کے روز کہاکہ مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی وجہ سے ہی جموں وکشمیر ہندوستان کا حصہ بنا۔انہوں نے کہاکہ ہم ہندوستانی تھے اور ہندوستانی ہو کر مریں گے۔ان باتوں کا اظہار موصوف نے بلوال جموں میں نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران کیا۔انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کے لوگو ں کو اس وقت گونا گوں مشکلات کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔ان کے مطابق جموں وکشمیر کے تعلیم یافتہ نوجوان در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔فاروق عبداللہ نے مزید بتایا کہ وہ بھگوان رام کی بات کرتے ہیں لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ رام سب کا ہیں مسلمانوں کا بھی اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا بھی۔انہوں نے مزید بتایا کہ مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی وجہ سے ہی جموں وکشمیر ہندوستان کا حصہ بنا اور تاریخ اس کی گواہ ہے۔نیشنل کانفرنس کے صدر نے نامہ نگاروں کی جانب سے پوچھے گئے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ ہم ہندوستانی ہیں اور ہندوستانی ہو کرمریں گے۔ان کے مطابق ہندوستان تب ترقی کرئے گا جب سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہاکہ آج جو لوگ یہاں امن و امان اور تعمیروترقی کے دعوے کررہے ہیں ، وہ محض زبانی جمع خرچ سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ نیشنل کانفرنس نے جموں وکشمیر کی ترقی اور عوام کیلئے جتنا فلاحی کام کیا ہے ، اْس کا کوئی ثانی نہیںہوسکتا۔ دفعہ 370کے متعلق گمراہ کْن پروپیگنڈا پھیلانے والوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اسی دفعہ کی بدولت یہاں کے عوام کو زمینوں پر مالکانہ حقوق ملے اور مفت تعلیم جیسے مراعات حاصل ہوئے۔ دفعہ370مہاراجہ ہری سنگھ کی میراث تھی ، جسے غیر جمہوری، غیر آئینی اور یکطرفہ طور پر چھین لیاگیا۔ دفعہ370کے خاتمے کا سب زیادہ خمیازہ آج جموں کے عوام کو بھگتنا پڑ رہاہے۔اس سے قبل نگروٹہ میں حلقہ انتخاب بورن کے یک روزہ عظیم الشان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے فاروق عبداللہ نے کہا کہ 1990کے بعد پُرآشوب دور میں جموں وکشمیر تمام ڈھانچہ تہس نہس ہوگیا تھا ، جمہوریت اور ورک کلچر نام کی کوئی چیز نہیں تھی، بیشتر پُل، سرکاری عمارتیں، سکول اور دیگر تعلیمی ادارے خاکستر ہوگئے تھے اور لوگ خوف و ہراس کے سائے تلے زندگی گزار رہے تھے اور1996میں کوئی الیکشن لڑنے کیلئے تیار نہیں تھا لیکن ہم نے اُس وقت آگ میں کود کر جموں وکشمیر کے عوام کو اس پُرآشوب دور سے نکالنے کی ٹھان لی اور اس کیلئے ہمارے ہزاروں کارکنوں ، عہدیدارون اور لیڈران نے اپنی جان کی قربانیاں پیش کیں ۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہاکہ نیشنل کانفرنس نے 1996میں ایک ایسے وقت میں جموںوکشمیر کی تعمیر نو کا کام شروع کیا ، جب یہاں نہ کوئی پُل بچا تھا نہ کوئی سرکاری ڈھانچہ، نہ کوئی سڑک قابل آمد و رفت تھی اور نہ ہی کوئی ادارہ قابل کار تھا۔ہم نے نہ صرف آہستہ آہستہ ماحول ٹھیک کیا بلکہ ہزاروں کی تعداد میں سکول، کالج، پُل اور سرکیں تعمیر کیں اور 6سالہ دور میںڈیڑھ لاکھ سے زیادہ سرکاری ملازمتیں فراہم کیں۔ دور دراز لوگوں کیلئے رہبر تعلیم ،رہبر زراعت اور موقعے پر ہی ڈی جی بھرتی جیسی سکیمیں متعارف کرائیں اور پُرآشوب ریاست کا نظام پھر سے پٹری پر لایا ۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہاکہ آج جو لوگ یہاں امن و امان اور تعمیروترقی کے دعوے کررہے ہیں ، وہ محض زبانی جمع خرچ سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ نیشنل کانفرنس نے جموں وکشمیر کی ترقی اور عوام کیلئے جتنا فلاحی کام کیا ہے ، اُس کا کوئی ثانی نہیںہوسکتا۔ دفعہ 370کے متعلق گمراہ کُن پروپیگنڈا پھیلانے والوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اسی دفعہ کی بدولت یہاں کے عوام کو زمینوں پر مالکانہ حقوق ملے اور مفت تعلیم جیسے مراعات حاصل ہوئے۔ دفعہ370مہاراجہ ہری سنگھ کی میراث تھی ، جسے غیر جمہوری، غیر آئینی اور یکطرفہ طور پر چھین لیاگیا۔ دفعہ370کے خاتمے کا سب زیادہ خمیازہ آج جموں کے عوام کو بھگتنا پڑ رہاہے۔