اتحاد و اتفاق کی کمی نے اُمت کو منتشر کرکے رکھا ہے ۔سوال کرنا ،تنقید کرنا زندہ دماغوں کا حق ہے ۔ سوالات قائم نہ کرکے ، اختلاف نہ کرکے ،عقل کو موت کے حوالے نہیں کرنا چاہیے ۔برطانوی فلسفی ایڈمنڈ برک ؔنے کہا ہے کہ ’’جس قوم کے پڑھے لکھے افراد میں بحث و مکالمہ کی روایت ختم ہوجائے ،اس قوم کی مثال ایسے شخص کی سی ہے ،جو سانس لے کر زندہ تو ہے ،مگر اس کے اعضاء مفلوج اور بے حرکت ہوچکے ہوں ۔مکالمہ ہی قوموں کی زندگی اور ان کے فکری ارتقاء کی علامت ہے ‘‘۔ہمارے معاشرے میں ایک ہولناک خاموشی چھائی ہے ۔جو تنظیمیں ،جماعتیں،ادارے نظریات کی بنیاد پر قائم ہوئیں، وہ بھی جمود کا شکار ہیں ۔ نئی نسل کے ساتھ ان کا رشتہ عملاََ کٹ چکا ہے ۔تعمیری کام بہت کم ہو رہا ہے البتہ وعظ و تبلیغ کے ذریعے ،ناپختہ اسکولی نصاب کے ذریعے تخریبی فضا ہموار کی جارہی ہے ۔ مخالف کی رائے ،ان کا وجود ناقابل برداشت بن چکا ہے ۔کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ دوسروں کی بات سُنیں ،صرف سُننے کے لئے نہیں بلکہ اس بات کو سمجھنے کے لئے سُنے ۔ خود کلام کریں تو بس جواب دینے کے لئے لب نہ کھولے بلکہ علم اور دلائل سے کام لے کر خوشگوار فضا میں اپنی بات سمجھانے کے لئے کلام کرے ۔ مکالمے ،مباحثے دوسروں پر فتح حاصل کرنے کے لئے نہ ہو بلکہ دردِ دل سے پُر ، اصلاح و تزکیہ کی نیت سے ہو ۔تب شاید تشدد ، تنفر سے بھرا موجودہ معاشرہ تبدیل ہو ۔اور خوشگوار فضا ہموارہوجائے ۔محبت کے بول منبر و محراب سے پھوٹنے لگے اورماحول معطرہو۔لیکن ہماراالمیہ ہے کہ سیاسی طورہم بچھڑچکے ہیں،معاشی طورعوام سے لے کرمسلط کئے گئے حکمراںتک کاسئہ فقیری لئے دردرجھولی پھیلارہے ہیں،تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کی کھیپ درکھیپ وادی کے یمین ویسارمیںذہنی تنائوکاشکارہیں،نیچے سے لے کراوپرتک تعلیمی نظام ناعاقبت اندیشوںکے ہاتھ میںہے،جنہوںنے اپنامستقبل توبنایالیکن عام طلباء کی زندگیوںسے کھیلتے جارہے ہیں،کالج کی جو ڈگری تین سالوںمیںمکمل ہوجاتی تھی، اسے اب چارسے پانچ سال تکمیل کو لگتے ہیں،ماسٹرس دوسال کاکورس تھا،ارباب اختیارکی ’’مہربانی‘‘سے اب تین چارسالوںمیںمکمل ہوجاتی ہے،فوج اورقانون کے’ ’محافظوں‘‘کی صورت میںپوری وادی تاریک ترین سایوںکی لپیٹ میںہیں،استادہوںیاطلباء،ڈاکٹرہوںیاانجینئر،ریڑے والاہویاکوئی افسر،کیاکالج،کیامدرسہ اورکیایونیورسٹی ، دانشورہوںیامذہبی رہنماہرسُو اخلاقی اقدارکافقدان ہے، اگرچہ تھوڑا سااستثنیٰ بھی موجودہے۔ان سب بڑے بڑے مسائل کے ہوتے کیسے لوگ مچھرچھانٹنے بیٹھ جاتی ہے؟
ماہ مبارک میںہی نظردوڈائیںفروعی مسائل کا برمار۔اخبارت،ٹی۔وی،سوشل سائٹس پراسلام کے’’شیر‘‘ لایعنی بحث ومباحثوںاورمناظرہ بازی میںمصروف رہ کے نئی نسل کے ذہنوںمیںشکوک وشبہات اوراسلام سے تنفرکی ہواکوفروغ دے رہے۔صورت حال بے حدتشویش ناک ہے۔آٹھ اوربیس پر زوردینے والے حضرات کاش منبرومحراب پرسچائی، نیک عملی ، بلند کرادرا، اپنوں اور غیروں کے حقوق، زکٰوۃ وانفاق فی سبیل اللہ جیسے اہم ترین موضوعات کواہمیت دیتے،توشائدوالدین اپنے لخت جگروں کوفروخت نہ کرتے،میجرگگوئی جیسا بدطینت کوئی بھی نفس کا پجاری ہماری کسی بہن کی پر میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ کرتا،نانِ شبینہ کوترسنے والے چوری نہ کرتے،نکاح کی منتظربے کس وبے سہارالڑکیاںحسرت وآس لئے نہ بیٹھتیں۔۔۔خدارااسلام کامذاق نہ بنائیں،مسلکی ومشربی تنازعات واختلافات کو طاق ِنسیاں کی زینت بناکرلاعلموںکودین بتائیںاور نیک عملی سکھائیں۔اگراس کی توفیق نہیںتولوجہ اللہ خاموش رہیںاورآپ کی وہ خاموشی اس امت پراحسان سے کم نہ ہوگی۔اصول کوقربان کرکے،ترجیحات کولوگوںسے مخفی رکھ کے،فرع پراپنی توانائیاںصرف کرکے ایسے گنے چنے حضرات دین کی کوئی خدمت نہیںکررہے بلکہ الٹا بہت نقصان پہنچارہے ہیں۔صورتحال یہی رہی تومناظرہ بازیادرکھیں کہ روزِمحشر محتاجوںکے ہاتھ ہوں گے اورآپ کے گریباں۔۔۔!
اسکول،کالج اورمدرسے اخلاقی اسباق کولازم پکڑتے،ڈاکٹر،انجینئر،استاد،عالم وغیرہ بنانے کے ساتھ ساتھ انسانیت کادرس بھی ازبرکرتے تویہ بدنصیب وادی بھی مردم خیزہوتی،اس منتشربھیڑ کوقوم بنانے کی ضرورت ہے لیکن قحط الرجال ایساکہ کوئی ایسارجل ِرشیدہی نہیں جوہمیںایک سمت دیتا۔مثبت سوچ پروان چڑھاتا۔اسلام نے یہ کرکے دکھایاتھالیکن اب توبس مختلف بولیاںرہ گئی ہیںاورہرکوئی خودکوبرسرحق اورمخالف کے وجودسے ہی بے کَل ہے۔
یہ دنیا ایک امتحان گاہ اور مقام عمل ہے ۔یہاںموجوددیگرمخلوقات سے ہمیں، جنہیں’’اشرف المخلوقات‘‘ہونے کادعویٰ ہے،کچھ سبق لینالازمی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ درخت کی طرح اخلاقی وجود کونشوونما دیں۔ ایک درخت ہمارے لئے ایک بہترین اخلاقی معلم ہے۔قرآن پاک کے مطالعے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ ایک اعلیٰ اخلاقی کردارہی دین کامطلوب ومقصودہے۔کوئی انسان اگروہ کردار پیدا کرنا چاہتاہے تواسے درخت کواپناآئیڈیل بناناچاہیے کیونکہ اس کے دوپہلوہمارے لئے بہترین رہنماہے۔درخت کاسب سے نمایاںپہلو یہ ہے کہ وہ ہرقسم کے تعصّب سے پاک ہوتاہے۔وہ ایک آفاقی شئے ہے،جس کی نشوونمامیںزمین وآسمان اورجوکچھ ان کے درمیان ہے، سب حصہ لیتے ہیں۔درخت اپنے وجودکوبڑھاتاہے اوراس عمل میںوہ کسی سے تعصب نہیںبرتتا۔ْوہ ایک دوسرے درخت کے بیج سے جنم لیتاہے بعدازاںوہ بغیرتعصّب کے سورج سے روشنی اورحرارت قبول کرتاہے۔وہ بلاتعصّب کے آسمان کے بادلوںسے پانی وصول کرتاہے۔وہ بغیرکسی ہٹ دھرمی کے فضاسے ہواحاصل کرکے جذب کرتاہے اورزمین سے مٹی وزرخیزی اخذکرتاہے۔کائنات کی ان متنوع چیزوںکے تعاون سے درخت اپنے وجودکوبڑھاتاہے اورایک بے وقعت بیج سے ،ایک طاقتور،مفید،سایہ داردرخت میںتبدیل ہوجاتاہے۔اگریہ’ بیج‘ تعصب،ہٹ دھرمی،اورعدم برداشت کامظاہرہ کرتاتوکبھی’ درخت‘ نہ بنتا۔درخت کی زندگی میںہمارے لئے ایک دوسرانمونہ اس اعتبارسے ہے کہ جب اس کے ساتھ برائی کامعاملہ ہوتاہے،تب بھی وہ بھلائی کامعاملہ کرتاہے۔آغازہی پراسے زمین میںدبادیاجاتاہے لیکن وہ شکایت نہیںکرتا،آہ نہیںبھرتا،بلکہ شکایتوںکادفترکھولے بغیرکوشش اورجدوجہدکرکے ،زمین میں اپنی جڑیں مضبوط و پیوست کرکے باہرنکل آتاہے۔آغازسے ہی زمین کی فضااسے کاربن ڈائی آکسائڈکی صورت میںزہرپلاتی ہے لیکن وہ انسانوںکوپلٹ کرآکسیجن کی صورت میںزیست کاانمول تحفہ عطاکرتاہے۔اس کے وجودکوزمین کی مٹی بدصورت جڑاوربے روپ تنے کی شکل میںجنم دیتی ہے لیکن وہ پلٹ کرزمین کے مکینوںکو سبزہ،پھول،چھائواوربے شمارپھل کی بہاریں دیتاہے۔انسان اسے پتھرمارتے ہیں،اس کے عوض وہ اپنے پھل ان پر نچھاور کردیتا ہے۔درخت کوخوددھوپ کی تپش ملتی ہے،بدلے میںوہ ہمیںسایہ دیتاہے۔ایک وقت آتاہے کہ اسے کاٹ دیاجاتاہے۔مگرپھربھی یہ انسانوںکے فائدے کے لئے ان کے گھرکافرنیچر،بیٹھنے کاصوفہ اورلیٹنے کی مسہری بن جاتاہے۔حتّٰی کہ جب اسے آگ میںجلادیاجاتاہے،تب بھی وہ بدلے میںہمیںروشنی ،کوئلہ اورحرارت مہیا کرتاہے۔اس میںکوئی شک نہیںدرخت کی طرح ہم انسان بھی اگرتعصب سے پاک ہوںاوریکطرفہ طورپرمخلوقِ خداکے خیرخواہ ہوں،ایک دوسرے کی عزت کریں، باوجود آپسی اختلاف کے اپنے دل ایک دوسرے کے لئے صاف رکھیں۔ضد،ہٹ دھرمی،عدم برداشت ، معاصرت ، کبر ، نخوّت ، گھمنڈ،سختی جیسے امراضِ خبیثہ سے لاتعلق رہیںتوکل محشرکے میدان میںاللہ ذولجلال اس کا بہترین بدلہ ابدی انعامات اور دائمی طور سرسبز رہنے والے پڑ بہار باغوںکی صورت میں دے گا۔کاش ہمارے ادارے،ہمارے اساتذہ،ہمارے علماء،ہمارے حکمران یہی بیج لگالیں اورایسے ہی باغات کے مالی بننے کی کوشش کرتومنظرنامہ بالکل مختلف ہوتا۔۔۔۔!