ایک زمانہ تھا جب کسی کے پاس علم اور ا خلاقی حسانت کی دولت ہوتی تھی تو لوگ اسے مہذب مانتے تھے اورجن کے ظاہری اوصاف اور اخلاق اعلیٰ اور جاذب نظر ہوتے وہ سماج میں مہذب مانے جاتے ۔ کسی نوجوان کی حیامندی اور غیرت کو اس کی بہادری گردانا جاتا ، بنت حوا کو پردہ کی زینت سے مہذب مانا جاتا تھا لیکن انسانی سماج میں اچانک اخلاقی زوال نے قلب و نظر کے پیمانے اتنے بدل دئے کہ لفظ تہذیب کی تعریف و تشریح ہی بدل گئی ۔اس تغیر وتبدل کے سبب جو حضرات علم اور حسن اخلاق کی دولت سے مالا مال تھے، وہ مہذب نہیں بلکہ فرسودہ کہلاتے ہیں جب کہ مہذب وہ کہلاتے ہیں جودنیوی اعتبار سے مالدار ہیں ۔ اس تبدیلی کے زور سے یہ ہوا ہے کہ جن کے اخلاق بہترین ہوں وہ بے وقوف اورجو عیار و شاطر وہ مہذب و بااخلاق سمجھے جاتے ہیں ۔ جوعورت پردہ کرتی ہے وہ ا س گھٹیا سوچ کے تحت تعلیم سے نابلد اور جاہل سمجھی جاتی ہے اور جو خاتون اخلاقی آرائش کے قید وبند سے آزاد ہو تو اس جھوٹے کر وفر اور جاہلانہ طرز عمل والی دنیا میں وہ رول ماڈل بن جاتی ہے، چاہے وہ ایک ایسی اندھی دنیا میں لڑھک جائے جہاںلاج شرم ایک غلطی اور گناہ ہی نہیں بلکہ ایک بد دماغی بھی متصورہوگی؟ ایک خاص بات یہ ہے کہ ان جاہلانہ نظریات کے تختہ ٔ مشق یورپ وامریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے لوگ تو تھے ہی، اب اس گمر ہی کے شکار عرب و عجم کے ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ ستم یہ کہ اس جاہلانہ نظریہ ٔ حیات کو فروغ دینے کے لئے مذہب اسلام سے بغاوت کو ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ صرف اسلام انسانیت کو ان چیزوں سے روکتا ہے ۔ مغربیت کے دلداے ، سماج مخالف عناصر اور حق دشمن لابیاںبہت حد تک ہماری کم فہم اور غیر سنجیدہ واخلاق باختہ آبادی کو یہ شیطانی پٹی پڑھانے میںآگے بڑھ رہی ہیںکہ خو د نہ بدلو بلکہ اسلام کو بدل ڈلو ۔ا فسوس کہ ا غیار تو اغیار خود مسلمان اس دام فریب میں پھنس رہے ہیں ۔ بات چاہے اخلاقی معاشرت کی ہو، پردہ داری کی ہو، ترقی کی ہو یا حقوق نسواں کی ہو سب طرف سے ٹارگیٹ صرف اور صرف مذہب اسلام کو کیا جاتا ہے ۔ پردے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عورتوں کو پردے کی کیا ضرورت ہے ؟ وہ بھی انسان ہیں ان کو بھی آزادی سے گھومنے پھرنے اور اپنی زینت کی نمائش کر نے کی آزادی ہونی چاہیے ۔ تعمیر و ترقی کی بات ہو تو سب میں یہ غلط گمان وخیال راسخ کر دیا جاتا ہے کہ مذہبی اقدار کا ترقی سے کیا لینا دینا ہے ۔ بات اگر عورتوں کے حقوق اور ان کو باختیار بنانے کی ہو تو پوری دنیا میں مسلم خواتین کو ذہن نشین کرایا جاتاہے کہ مسلمان اپنی ماں بہن بیٹی کو برابری کے حقوق دینے پرتیار نہیں کیونکہ بقول ان بے وقوفوں کے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ غرض کوئی بھی نجی ، مقامی یاعالمی ایشوہو ،اس کا رُخ اسلام کی مخالفت کی جانب موڑ دیا جاتا ہے باوجود یکہ اس ایشو کا مذہب اسلام سے کوئی جوڑنہ بھی بنتا ہو یا کسی مخصوص مسئلے کا مذہب اسلام سے کوئی دور کا واسطہ نہ ہو کہ نہیں ۔ اس طرح انسانی سماج کو ود متوازی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے : ایک نام نہاد مہذب سماج جو صرف اور صرف ’’ترقی اور اونچی اُڑان‘‘ چاہتا ہے اور ایک ’’غیر مہذب اور تنزلی سماج‘‘ جو ترقی اور جدیدیت کے علم سے بے بہرہ ہے ۔ ہمارے اپنے بعض نام نہاد دانش ور اور آگے کی سوچ رکھنے والے لوگ اس کام میں دشمن کی کلہاڑی کے دستے بنے ہوئے ہیں اور یہ امت کے کوئی خیر خواہ نہیں بلکہ در حقیقت مغربی ایجنٹ ہوتے ہیں جن کو اندھے میڈیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جہاں یہ اسلام کی غلط اور من مانی تشریح کرکے لوگوں مین گمراہیاں پھیلاتے ہیں اور غیروں کی زبان بول کر خود کو’’ روشن خیال‘‘ اسلام کے بہت بڑے ہیرو جتلاتے پھر تے ہیں ۔
افسوس کہ آج کامسلم سماج ایک قلیل استثنیٰ کو چھوڑ کر حقیقت کا منکر اور مکر وفریب کا رسیا بناہواہے ۔ یہ ایک ایسا سماج ہے جہاں سچائی اور ایمانداری کی کوئی قدروقیمت نہیں رہی ہے اور دجل وفریب کو ٹیلنٹ کا نام دیا جاتا ہے ،جہاں محنت نہیں چوری کو ہنر مانا جاتا ہے ،جہاں اخلاقی برتری کی کوئی قدر منزلت نہیں، جہاں جنسی بے راہ روی کو’’ محبت‘‘ کانام دیا جاتا ہے اور اختلاط مردوزن کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جاتا ہے ۔ اس نام نہاد سماج میں تعلیم حاصل کر کے کوئی انسانوں کی فنائیت کے واسطے مہلک ہتھیار بنائے توسانئس داں تو کہلائے اور اگر کوئی تعلیم یافتہ امن کی بات کرے تو اس کو امن اور بقائے باہم کاآوازہ بلند کرے تو دقیانوسی کہلائے ۔ افسوس یہ بھی ہے کہ ہمارے علمائے کرام لوگوں کو آج کے دور کی ضرورتوں کے عین مطابق مسائل کی تبلیغ و نشرواشاعت میں ناکام نظر آتے ہیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ آج کا مسلمان دینی عقائد وشعار سے برگشتہ سماجی برائیوں میں اتنا مست و مگن ہے کہ وہ کافی حد تک حق بات سننے ، سچ بولنے ، صداقت ، قبولنے سے قاصر نظر آتا ہے ۔ اس جمود وتعطل کو توڑنے کے لئے علماء اور دانش ور وں کے ساتھ ساتھ عامتہ المسلین کو بھی مثبت سوچ ، صبر وثبات اور منصوبہ بند جذبہ ٔ تعمیر کے ساتھ فوراً سے پیش ترآگے آنا ہو گا ۔
رابطہ 9469734681