جرس ہمالہ
میر شوکت پوچھی، جموں
ہمارا محلہ کوئی عام گلی کوچہ نہیں، یہ ایک تماش گاہ ہے جہاں ہر کونے سے کوئی نہ کوئی کہانی سر اٹھاتی ہے اور ہر کہانی کا انجام کسی نہ کسی نشے کے ڈھیر پر جا کر ٹھہرتا ہے۔ یہاں سڑکیں ٹوٹی ہیں، خواب پھٹے ہیں، لیکن شراب کی دکانیں ایسی چمکتی ہیں جیسے رات کے آسمان سے ستارے اُتار کر زمین پر سجا دئیے گئے ہوں۔ یہ دکانیں صرف شراب نہیں بیچتیں، یہ’’خوشی کا وعدہ‘‘ بیچتی ہیں، وہ وعدہ جو صبح تک دھندلا جاتا ہے اور شام تک ایک نئی بوتل کی تلاش میں بدل جاتا ہے۔ ہمارے محلے کا ایک اصول ہے، جو شاید آپ کے محلے میں بھی ہو ، جو بچہ دو کلومیٹر دور اسکول تک نہیں جا سکتا، وہ 100قدم کے فاصلے پر شراب کی بوتل ضرور ڈھونڈ لیتا ہے اور اگر شراب اس کا دل نہ بھرے تو وہ گلی کی نکڑ پر بیٹھے ’’سچے فقیر‘‘ سے ملتا ہے، وہ فقیر جس کے کانپتے ہاتھ، لال آنکھیں اور جھولتا جسم بتاتا ہے کہ وہ دنیا سے کوسوں دور، اپنی ہی ایک دھندلی سی جنت میں رہتا ہے۔ بچہ پوچھتا ہے،’’بھائی، آج انجکشن والا کیا لے کر آیا ہے؟‘‘ اور فقیر مسکراتا ہے، جیسے کوئی حکیمِ وقت اپنے شاگرد کو زندگی کا راز بتا رہا ہو۔
شراب تو اب بس ایک معصوم سی عادت بن چکی ہے، جیسے صبح کی چائے یا شام کی سیر۔ اصل بات تو اس سے آگے کی ہے۔ شراب وہ دروازہ ہے جس کے پار چرس کی دھواں دار راہیں ہیں، ہیروئن کے گہرے گڑھے ہیں اور انجکشن، گولی، سفوف، اور’’پاؤڈر جی‘‘ کی رنگین دنیا ہے۔ یہ وہ نشے ہیں جو سرکاری دکانوں پر نہیں ملتے، لیکن سرکاری خاموشی کی چھاؤں میں ضرور پلتے ہیں۔ یہ خاموشی اتنی گہری ہے کہ اگر کوئی چیخ بھی مارے تو آواز گلی کے کونے سے آگے نہیں جاتی۔ اس آواز کو پولیس بڑی جانفشانی سے روک لیتی ہے ،اور ان نشوں کے خریدار؟ وہ وہی بچے ہیں جنہیں اسکول کے نام پر صرف خواب بیچے گئے۔ ان کے بستوں میں کتابیں نہیں، بس خالی خواہشات ہیں اور ان کے ہاتھوں میں قلم نہیں، سگریٹ یا سرنج کی نوک ہے۔محلے کا انور، جو کبھی اردو میں نظمیں لکھتا تھا، آج ننگے پاؤں گلیوں میں گھومتا ہے۔ اسے اب قافیہ نہیں ملتا، بس’’ڈرپ‘‘ اور’’ڈوز‘‘ کی تلاش رہتی ہے۔ اس کا باپ کبھی کہا کرتا تھا،’’بیٹا، پڑھ لکھ کر ملک کا نام روشن کرنا۔‘‘ اور آج وہ بچہ گلی کے کونے میں سگریٹ کی راکھ میں اپنی سانسیں بجھا رہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں خواب
اب دھوئیں کی طرح بکھر چکے ہیں اور اس کے ہاتھ اب قلم نہیں، بس ایک ٹوٹا ہوا شیشہ تھامے ہیں، جس سے وہ اپنی رگوں میں’’امن‘‘ ڈھونڈتا ہے۔
سرکاری اسکول آج بھی کھلا ہے، لیکن ماسٹر جی کل بھی غیر حاضر تھے، آج بھی ہیں اور کل بھی شاید نہ آئیں۔ اسکول کے کمروں میں بچوں کی بجائے گائیں بیٹھی ہوتی ہیں یا پھر وہی لڑکے جو کلاس کی بجائے چلم کو آگ دیتے ہیں۔ ان کے پاس نہ یونیفارم ہے نہ کتاب۔ لیکن نشہ وقت پر ملتا ہےکبھی انجکشن کے روپ میں، کبھی چرس کی شکل میں اور کبھی کسی ’’بااثر چاچا‘‘ کی جیب سے نکلے لفافے میں۔ یہ’’بااثر چاچا‘‘ محلے کے وہ کردار ہیں جو سرکاری خاموشی کے سائے میں اپنا کاروبار چمکاتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ہر وہ چیز ہے جو ایک بچے کے مستقبل کو راتوں رات دھوئیں میں اُڑا سکتی ہے۔
ادھر شراب کی دکانیں، جو اب’’خوشحال ہندوستان‘‘ کا فلیگ شپ پروگرام بن چکی ہیں، ایئر کنڈیشنر سے لیس ہیں، رنگین بینرز لگے ہیں اور رعایتوں کے اشتہار لہراتے ہیں۔ ’’خوشی کا سچا ساتھی‘‘ جیسی نعرہ بازیاں ایسی لکھی جاتی ہیں جیسے ہم کوئی تہذیبی ورثہ خرید رہے ہوں۔ دوسری طرف، سرکاری اسکول کے باہر لگا بورڈ جھول رہا ہے، اس کے آدھے حروف مٹ چکے ہیں اور جو بچہ اسے پڑھنے کی کوشش کرتا ہے، وہ سوچتا ہے،’’اس میں کون سی زبان لکھی ہے؟ شاید میرے نصیب کی!‘‘
نجی اسکول؟ ارے، وہ تو شرفا کے بچوں کے لیے ہیں، جن کے پاس آدھے جسم پر سونا چڑھا ہوتا ہے اور آدھی روح انگریزی سے تراشی ہوتی ہے۔ وہاں اگر کوئی بچہ ایک دن غیر حاضر ہو جائے تو ٹیچر فون کر کے حال پوچھتا ہے،’’بیٹا! کیا ہوا؟ سب خیریت ہے؟‘‘ اور ہمارے سرکاری اسکول میں اگر بچے مہینے بھر نہ آئیں تو استاد خود کہتا ہے، ’’چلو، اچھا ہوا، ’’
سر کھپائی سے جان بچی!‘‘
اب بات صرف تعلیم کی نہیں، ترجیحات کی ہے۔ حکومت کو پتہ ہے کہ جو بندہ نشے میں جھوم رہا ہے، وہ سوال نہیں اٹھائے گا۔ وہ نہ کتاب مانگے گا نہ بجلی نہ اسکول نہ انصاف۔ اس کے ہونٹ بند ہوں گے، ہاتھ جھولیں گے اور زبان سے بس’’ایک پیگ اور‘‘ کی صدا نکلے گی۔ اور یہ جو غیر سرکاری نشے ہیں، یہ تو قوم کی رگوں میں ایسے دوڑ رہے ہیں جیسے آزادی کا خون۔ ہر گلی میں کوئی نہ کوئی’’سفیہ‘‘ بیٹھا ہے، جو مہنگی گولیوں سے اپنا سستا سا حال بہتر کرتا ہے اور پھر بے حال ہو کر گٹر کے پاس لیٹ جاتا ہے، جیسے کہہ رہا ہو،’’یہی ہے وشوگرو کی راہ۔ بس تھوڑی ٹیڑھی ہے۔‘‘ہماری نئی نسلوں نے نہ تختیاں دیکھی ہیں نہ استاد کی مار، بس سرنج کی نوک، سگریٹ کی چمک اور چرس کی خوشبو دیکھی ہے۔ ان کے لیے اسکول کا مطلب ’’سزا‘‘ہے، اور نشہ ’’انعام‘‘۔ کیوں؟ کیونکہ وہاں کوئی ان سے سوال نہیں کرتا، نمبر نہیں مانگتا، حاضری نہیں گنتا۔ وہاں بس ایک لمحے کی بےخودی ہے جو انہیں اس حقیقت سے دور لے جاتی ہے کہ ان کا مستقبل پہلے ہی کسی نے جیب میں ڈال لیا ہے۔
یہ سب ہوتا ہے شہر کے اندر، گاؤں کے بیچ، قوم کے سینے پر۔ اور ہم؟ ہم بس ہنستے ہیں، میمز بناتے ہیں اور اپنے بچوں کو پڑھانے کے خواب دیکھتے ہیں، جیسے ریت پر کشتی بنانے کا ارادہ ہو۔ ہمارے بچوں کے بستے خالی ہیں، ان کے پھیپھڑے بھرے ہیں اور ہم سب سرکاری اشتہارات کی زبان میں یہی کہہ رہے ہیں،’’ایک ہاتھ میں بوتل، دوسرے میں خواب، ہمیں وشوگرو بننے سے کون روک سکتا ہے؟‘‘
لیکن اگر سچ پوچھیں تو یہ وشوگرو کا خواب نہیں، ایک دھوکہ ہے۔ یہ وہ دھوکہ ہے جو ہر گلی کے کونے پر بیچا جا رہا ہے، جہاں بچوں کو تعلیم کے بجائے نشہ دیا جاتا ہے، جہاں اسکول بند ہیں اور دکانیں کھلی ہیں۔ یہ وہ دھوکہ ہے جو انور جیسے بچوں کی نظموں کو دھوئیں میں بدل دیتا ہے اور ان کے باپ کے خوابوں کو راکھ کر دیتا ہے۔ یہ وہ دھوکہ ہے جو ہمیں ’’خوشحال ہندوستان‘‘ کا نعرہ تو دیتا ہے، لیکن اس کے پیچھے چھپا ہے ایک خالی اسکول، ایک ٹوٹا بورڈ اور ایک بچہ جو اپنی رگوں میں’’امن‘‘ ڈھونڈ رہا ہے۔
تو ہاں، ہم وشوگرو بننے کی راہ پر ہیں۔ ہماری درسگاہیں بند ہیں، دکانیں کھلی ہیں۔ ہمارے بچوں کے ہاتھ میں کتاب کی جگہ سرنج ہے اور ان کے دل میں خواب کی جگہ دھواں۔ ہم سب مل کر یہ گیت گا رہے ہیں، لیکن اس گیت کی دُھن کوئی اور بجا رہا ہے، اور ہم بس ناچ رہے ہیں۔۔۔ نشے میں، خوابوں میں اور اس دھوکے میں کہ ہم وشوگرو بن جائیں گے۔
یہ کہانی ہمارے محلے کی ہے، لیکن یہ صرف ایک محلے کی کہانی نہیں۔ یہ ہر اُس گلی، ہر اُس شہر، ہر اُس قوم کی کہانی ہے جہاں تعلیم ایک خواب ہے اور نشہ ایک حقیقت۔ جہاں بچوں کے بستوں میں کتابیں نہیں، خالی خواہشیں ہیں۔ جہاں اسکول کے دروازے بند ہیں اور شراب کی دکانیں ہر وقت کھلی ہیں۔ ہم وشوگرو بننے کی دوڑ میں ہیں، لیکن یہ دوڑ ہمیں کہاں لے جا رہی ہے؟ شاید وہی گلی کے کونے پر، جہاں انور اپنی نظموں کی راکھ میں سانسیں بجھا رہا ہے اور جہاں’’سچا فقیر‘‘ ہمیں ایک نئی بوتل، ایک نیا انجکشن اور ایک نیا خواب بیچ رہا ہے۔