سرینگر // حضرت شیخ العالمؒ کی ادبی اور روحانی زندگی کو اپنانے پر زو ر دیتے ہوئے تعمیرات عامہ کے وزیر نعم اختر نے کہا ہے ’’ہم نے موت کو آسان بنایا ہے اور جو لوگ زندہ رہ کر کام کرتے ہیں وہ ہی اصل مسلمان کہلائے جاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا ’’ اگر میرے لئے یہ آسان ہوتا تو میں کشمیر میں اسلامیات مضامین کے بجائے صرف شیخ العالم ؒکی زندگی کا ایک سبجیکٹ یہاں شروع کراتا کیونکہ انہوں نے جو دنیا چھوڑ دی وہ پاک اور پرامن تھی، اُس وقت آرام تھا، ایک دوسرے کا خوف نہیں تھا، آج انسان انسان سے ڈرتا ہے اور بھائی بھائی سے‘‘ ۔انہوں نے والدین پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں کو واپس لانے کی کوشش کریں اور راستہ وہی ہے جو شیخ العالمؒ نے دکھایاہے ۔جموں وکشمیر ثقافتی مرکز بڈگام کی جانب سے ریاستی کلچرل اکیڈمی کے سمینار ہال واقعہ لال منڈی میں ایک ادبی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں ڈاکٹر شبیب رضوی کی کتاب ’’آبشار نور ‘‘ جو کہ کلام شیخ عالم کا ترجمعہ ہے کی رسم رونمائی انجام دی گئی تقریب میں مہمان خصوصی کے فرائض تعمیرات عامہ کے وزیر نعیم اختر نے انجام دی ۔اس موقعہ پر شیح العالم کی ادبی اور روحانی زندگی پر مختصر روشنی ڈالتے ہوئے نعیم اختر نے کہا ’’اُن کی زندگی کا کوئی بھی ایسا پہلو نہیں ہے ،چاہئے وہ سماجی ہو یا روحانی یا پھر اقتصادی، انہوں نے کسی بھی پہلوسے انہیں نظر انداز نہیں کیا اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک عام انسان کو کیسا ہونا چاہئے‘‘ ۔انہوں نے کہا کہ شیخ العالمؒ نے جو عمل یہاں چھوڑا اُس کو کسی تضاد کی نظر نہیں کر سکتے ہیں ‘‘ ۔نعیم اختر نے کہا ’’مجھے ایک بات ہمیشہ کوٹتی رہی ہے کہ آج کے زمانے کے جو ہم انسان ہیں ہم کیوں اتنے حضرت شیخ سے مختلف ہیں، آج کے زمانے میں اگر آپ مسلمانوں کے حصے کریں گے تو کس قسم کے مسلمان ہیں، ایک قسم کا مسلمان جو حج پر جاتا ہے، سال میں تین تین بار عمرہ کرتا ہے نیاز اور زکوات کرتا ہے اور جنت کا تلاشی بنتا ہے ۔ اور دوسری جماعت وہ ہے جو کہتی ہے کہ اگر ہم بندوق اٹھائیں گے ہم کسی کو ماریں گے اور خود مریں گے ہم جنت میں جائیں گے اب جنت میں جانے کی یہی ہمارا پاسپورٹ اور ویزا ہے، زندگی میں کیا کام کیا جائے یہ ہمارے ذہن میں نہیں ہے کہ ہم زندہ رہ کر کوئی ایسا کام کریں تاکہ ہم جنت میں جائیں کیونکہ جنت ہی ہمار ا مقصد اور آخری منزل ہے‘‘ ۔نعیم اختر نے کہا ’’ مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے بزرگ عالم دین جو کشمیر آئے وہ کیوں مکہ شریف جانے کے بجائے کشمیر آئے ۔مدینہ پاک کا رخ کرنے کے بجائے کیوں کشمیر آئے، اگر ہم سب چاہتے ہیں کہ ہماری موت مکہ شریف یامدینہ شریف میں ہو تو پھر وہ تو کافی پہنچے ہوئے عالم دین تھے وہ کشمیر کیوں آئے ‘‘۔انہوں نے کہا کہ اس کا جواب مجھے تب ملا جب میں خود حج پر چلا گیا ۔میں نے دیکھا کہ وہاں پانچ دن کیا ہوتا ہے ایک ہی کمرے میں رہنا ، پانچ دن میں ایک ہی کپڑے پہننا ، نہانہ نہیں ہے، سابن کا استعمال نہیں کرنا ہے، ناخن نہیں کاٹنے ہیں، داڑھی نہیں کاٹنی ہے، لیکن شیخ عالم اور دوسرے بزرگ پوری عمر احرام کی حالت میں رہے تھے ۔انہوں نے کہا ’’ میرے پاس آج بھی بہت سے لوگ آتے ہیں اور جب میں ٹورازم میں تھا، تب بھی آتے تھے اور زیارت گاہوں کیلئے سیمنٹ کی دیوار اور جنگلہ لگانے کی بات کرتے ہیں اور حالت ایسی ہے کہ ساری زیارت گاہیں سرکاری سیمنٹ لگا کر بند کر دی گئی ہیںجب انہوں نے پہلے ہی یہ سب کچھ چھوا ہے‘‘ ۔انہوں نے کہا ’’ یہ ہماری تعبیر کی ایک غلطی ہے جسے ہم کہتے ہیں کہ ہم شیخ عالم کے صحیح مقام کو پہچان ہی نہیں سکے، آپ کے سامنے سونے کا پہاڑ ہے اور آپ اس کو پہچان نہیں سکے ۔پی ڈی پی ترجمان نے کہا ’’ آج ہر جگہ اسلامی تعلیم کا چرچہ ہے۔کہا جاتا ہے کہ بچے کو اسلامیات پڑھنی چاہیے اس مضامین کے رکھنے سے نمبرات بہت زیادہ آتے ہیں اس لئے وہ اسلامیات کا سبجیکٹ لیتے ہیں اور اگر میرے لئے یہ آسان ہوتا تو میں کشمیر میں اسلامیات مضامین کے بجائے صرف شیخ عالمؒ کی زندگی کا ایک سبجیکٹ یہاں شروع کراتا، کیونکہ شیخ العالم نے جو دنیا چھوڑی دی وہ پاک امن اور پرامن تھی آرام تھا ایک دوسرے کا خوف نہیں تھا، آج انسان انسان سے ڈرتا ہے، بھائی بھائی سے ،جس کو لمبی داڑھی ہے وہ چھوٹی دداڑھی والے سے ڈرتا ہے، جس کا پاجامہ بڑا ہے وہ چھوٹے والے سے ڈرتا ہے ۔مسلمان مسلمان سے ڈرتا ہے، بھاگتا ہے، یہ تو ہمارا مذہب نہیں‘‘۔انہوں نے کہا’’ کہیں تفرقہ ہے شیعہ سنی کا اب تو شیعہ شیعہ میں بھی تفرق ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’میں ابھی کسی اخبا ر میں پڑھ رہا تھا جس میں کسی نے ایک اشتہار نکالاہے کہ ہمیں لڑکی کیلئے رشتہ چاہئے اور وہ اصلی اہل حدیث سلفی ہونا چاہئے‘‘ ۔ انہوں نے اس خاندان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’کیا کوئی اور مذہب ہے آپ کا ،یہ کون سا مذہب ہے، آپ تو یہودی کے ساتھ بھی شادی کر سکتی ہیں ،اہل کتاب کے ساتھ شادی کر سکتے ہیں، یہ کون سا مذہب ہے یہ تو شیخ عالمؒ کے سبجیکٹ میں کہیں نہیں تھا ،ہم تو اسی سماج کا حصہ ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، ہم نے ہی یہ نعرہ دیا تھا کہ ’’ چرار بن ہنہ ہنہ مست گل کتہ بنہ ‘‘اور میں کہتا ہوں کہ یہ عتاب ہے جن لوگوں کے پاس اتنا بڑاا سرمایہ ہو شیخ العالم کا شاہ ہمدان کا، وہ سب کچھ چھوڑ کر آگے ہیں ،انہوں نے تو زندگی میں کبھی ہتھیار نہیں اٹھایا، اُن پر بھی ظلم ہوتے تھے لیکن انہوں نے کبھی ہتھیار نہیں اٹھایا ،و ہ بھی ہتھیار اٹھا کر جنت میں داخل ہو سکتے تھے؟۔لیکن وہ تو کشمیر آئے، انہوں نے تبلیغ کی ،میں جب بھی لداخ جاتا ہوں ،جہاز میں گاڑی میں، کافی مشکل ہوتا ہے، وہ تو چھ چھ مہینے پیدل چلے ، اگر مرنا ہی ہے تو زندگی بنائی ہی کیوں خدا نے ،اللہ نے زندگی اور موت اسی لئے بنائی کہ کون اچھا عمل کرے گا پھر تو یہ آسان ہے کہ بندوق اٹھائو پولیس والے کو گولی مارو اور جنت میں چلے جائو معاملہ ختم۔’’ سستا ڈسکاونٹ‘‘ ہم نے مرنے کو اتنا آسان بنایا ہے زندہ رہ کر جو لوگ کام کرتے ہیں وہ ہی اصل مسلمان ہیں ۔