جب والدین، استاد اور سماج خاموش ہو جائیں تو نسلیں بے سمت ہو جاتی ہیں
اِکز اِقبال
بڑی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ جس قوم کے بزرگوں نے قلم کو ہتھیار اور علم کو روشنی سمجھ کر دنیا میں عزت پائی، آج اُسی قوم کے نوجوان علم کے مراکز میں گمراہی کے سبق پڑھ رہے ہیں۔ تعلیم جو کبھی تہذیب کا زیور اور کردار کا محافظ ہوا کرتی تھی، اب محض فیشن، نمبروں اور نمود و نمائش کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے۔
یہ ایک تلخ مگر ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعلیمی ادارے، خاص طور پر نجی اسکول اور کوچنگ سینٹرز، اپنی اصل روح سے خالی ہو چکے ہیں۔ وہاں علم کم اور نمائش زیادہ ہے، تربیت کم اور تفریح زیادہ۔ لڑکیاں تعلیم کے نام پر ایسے ماحول میں دھکیلی جا رہی ہیں جہاں حیا کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے اور لڑکے اُسی بے حیائی کے جال میں الجھ کر اپنی سمت کھو بیٹھتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ کردار میں کمزوری اور سماج میں بداعتمادی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں تعلیم کا مقصد شعور نہیں بلکہ شہرت بن چکا ہے۔ اکثر والدین سمجھتے ہیں کہ بچہ جتنا جدید اسکول میں پڑھے گا، اتنا ہی کامیاب ہوگا۔ مگر یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ اُن اداروں کے در و دیوار سے کیسی ہوائیں گزر رہی ہیں۔ جن دروازوں سے کبھی علم و اخلاق کی خوشبو آتی تھی، وہاں آج بے حیائی کی ہوا چل رہی ہے۔
اکثر طلباء اسکول کے بعد اپنی تعلیمی کمزوریوں کی تلافی کے لیے کوچنگ سینٹرز کا رخ کرتے ہیں۔ مگر وہاں پڑھائی سے زیادہ دکھاوا، تعلیم سے زیادہ تعلقات اور اخلاق سے زیادہ آزادی دیکھنے کو ملتی ہے۔ بیشتر کوچنگ مراکز، علم کے نام پر کاروبار اور تربیت کے نام پر تماشہ بن چکے ہیں۔ استاد کا رعب ختم، شاگرد کا احترام غائب اور تعلیم ایک تیز رفتار تجارت کا نام بن چکی ہے۔
حال ہی میں ایک غیر نجی کوچنگ ادارے کی ویڈیو منظرِ عام پر آئی، جس میں کلاس کے دوران طلباء و طالبات کو ایک غیر اخلاقی گانا دکھایا جا رہا تھا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ’’تعلیم‘‘ کے اوقات میں،’’تعلیم‘‘ کے نام پر ہوا۔ کچھ ہی عرصے بعد ایک اور کوچنگ سینٹر میں اسی نوعیت کی شرمناک حرکت سامنے آئی۔ وہاں علم نہیں، فحاشی تھی۔ کتابیں نہیں، کیمرے تھے۔ سبق نہیں، سیلفیاں تھیں۔
ہماری قوم کے نوجوان، جو کبھی علم و دانش کے قافلے کے سردار ہوا کرتے تھے، آج سوشل میڈیا کی لہر میں بہہ کر اپنے مقصدِ زندگی سے ناواقف ہو چکے ہیں۔ والدین فخر سے کہتے ہیں کہ’’میری بیٹی جدید اسکول میں پڑھتی ہے‘‘ مگر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ وہ اسکول اُسے کیا سکھا رہا ہے۔ لڑکے خود کو ماڈرن ظاہر کرنے کی دوڑ میں اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ اخلاق اور غیرت کو دقیانوسیت سمجھنے لگے ہیں۔
یہ سب کچھ کسی ایک ادارے یا شہر تک محدود نہیں، بلکہ ایک اجتماعی زوال کی نشانی ہے۔ تعلیمی نظام کا اصل المیہ یہ نہیں کہ ہمارے طلباء کمزور ہیں بلکہ یہ ہے کہ ہمارے استاد اور والدین نے تربیت کو تعلیم سے الگ کر دیا ہے۔ جہاں استاد نصاب پڑھاتا ہے مگر اخلاق نہیں سکھاتا، وہاں شاگرد علم تو حاصل کر لیتا ہے مگر انسان نہیں بنتا۔
یہاں ایک نہایت اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے بچے اُس عمر سے گزر رہے ہوتے ہیں، جس میں اُن کا شعور ابھی مکمل پختہ نہیں ہوتا۔ وہ صحیح اور غلط، مناسب اور نامناسب میں فرق کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اُن کے فیصلے جذبات کے تابع ہوتے ہیں، تجربے کے نہیں۔ اس عمر میں اُنہیں سب سے زیادہ رہنمائی، نگرانی اور اخلاقی سہارا درکار ہوتا ہے۔ مگر افسوس، یہی وہ لمحہ ہے جب ہم بحیثیت والدین، اساتذہ، حکومت اور سماج کے با شعور شہری اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی اختیار کرتے ہیں۔
ہم بچوں سے وہ شعور اور ضبط توقع کرتے ہیں جو خود بڑوں میں بھی مفقود ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ خود اچھے بُرے کی پہچان رکھیں، مگر اُنہیں کوئی بتانے والا نہیں کہ اچھائی اور برائی کی لکیر کہاں کھنچتی ہے۔ جب معاشرہ خاموش ہو جائے، جب استاد محض پڑھانے تک محدود ہو جائے، جب والدین’’ہم نے تو فیس دے دی‘‘ پر مطمئن ہو جائیں اور جب حکومت صرف نصاب کی بات کرے، تربیت کی نہیں — تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جو آج ہمارے سامنے ہے:تعلیم یافتہ مگر بے حس نسل، باشعور مگر بے حیا معاشرہ۔
علم کا مقصد اگر محض روزگار کمانا رہ جائے تو معاشرہ بے روح ہو جاتا ہے۔ اور یہی ہو رہا ہے۔ آج ہمارے نوجوان ڈگریاں تو رکھتے ہیں مگر کردار کے بھوکے ہیں۔ زبان پر علم ہے مگر دل میں حیا نہیں۔ ہاتھ میں کتاب ہے مگر نگاہ میں احساس نہیں۔
ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ قصور کس کا ہے؟
اساتذہ کا جو خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں؟
والدین کا جو اولاد کو جدیدیت کے نام پر آزادی دیتے ہیں؟
یا حکومت کا جو ایسے اداروں پر کوئی پابندی نہیں لگاتی؟
درحقیقت یہ سب کا اجتماعی گناہ ہے۔ ہم سب نے تعلیم کو تجارت، اخلاق کو مذاق، اور حیا کو رکاوٹ بنا دیا ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی سمت درست کریں۔ تعلیم کے ساتھ تربیت کو لازم قرار دیا جائے۔ کوچنگ سینٹرز کے لیے اخلاقی ضوابط بنائے جائیں، جہاں استاد صرف نصاب نہیں بلکہ کردار کی بنیاد بھی رکھے۔ والدین بھی اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور اولاد کو یہ سمجھائیں کہ کامیابی صرف نمبر لینے سے نہیں بلکہ خود کو بہتر انسان بنانے سے آتی ہے۔
قومیں علم سے بنتی ہیں مگر وہ علم جو کردار پیدا کرے، جو حیا کا درس دے، جو انسان کو انسان بنائے۔ اگر ہمارے ادارے اس مقصد سے خالی ہو گئے تو چاہے عمارتیں کتنی ہی بڑی ہوں، وہ علم نہیں بلکہ زوال کے گڑھ ہیں۔اگر ہم نے ابھی بھی ہوش نہ کیا تو آنے والی نسلیں تعلیم یافتہ ضرور ہوں گی، مگر بے حس، باشعور نہیں بلکہ بے شعور۔ اور تب ہمیں افسوس کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ تعلیم کا مطلب صرف اسکول جانا نہیں بلکہ خود کو سنوارنا ہے۔ وہ تعلیم جو حیا چھین لے، وہ ترقی نہیں تباہی ہے۔ قوم کی نجات تبھی ممکن ہے جب علم کے ساتھ حیا، عقل کے ساتھ دل اور تعلیم کے ساتھ تربیت کو دوبارہ جوڑ دیا جائے۔
(مضمون نگار مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورہ قاضی آباد میں پرنسپل ہیں)
رابطہ ۔ 7006857283
[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔