میر شوکت
یادوں کے اُس شہر سے جہاں وقت رک گیا تھا۔
پونچھ۔
ایک چھوٹا سا شہر، مگر میرے لیے پوری کائنات۔یہاں کے درختوں سے لے کر گلیوں کی مٹی تک میں، جیسے میری سانسیں گھلی ہوئی تھیں۔ہم وہ بچے تھے جو پاؤں میں چپل نہیں، خواب پہنتے تھے۔جن کے کھیل کھلونوں سے نہیں، مٹی سے بنتے تھے۔
پریڈ گراؤنڈ ہماری سلطنت تھی۔ وہاں ہر سہ پہر سورج ہماری آنکھوں میں چمکتا اور ہم اپنی ہنسی سے فضا کو جگمگاتے۔
شرما جی ایک درخت کے سائے تلے سائیکلوں کی قطار سجائے بیٹھے ہوتے۔ سائیکلیں پرانی تھیں، رنگ مدھم، لیکن ہمارے خواب ان پر سوار ہو کر قوسِ قزح بن جاتے۔
ایک روپیہ — اور ایک گھنٹہ ہماری مرضی کا ہوتا۔ہم دوست، پانچ کی ٹولی — ایک سائیکل، چار وعدے اور لاتعداد قہقہے۔مٹی میں گرتے، کپڑوں پر دھول جمتی، لیکن چہروں پر چمک باقی رہتی۔ماں کی آواز کسی اذان کی طرح دور سے گونجتی،
’’آ جا پتر، دہی چینی رکھی اے!‘‘
اور ہم دوڑتے، جیسے سورج غروب ہونے سے پہلے زندگی پوری کرنی ہو۔ان دنوں وقت آہستہ چلتا تھا —اتنا آہستہ کہ ہم ہر لمحہ جی لیتے تھے۔
نہ کوئی جلدی، نہ کوئی فکر —بس کھیل، مٹی، دوست، اور گھر کا صحن۔
پھر آیا میرا پہلا سکوٹر۔
پیلا رنگ، دھیمی آواز والا، لیکن میرے دل کی دھڑکن سے تیز رفتار۔میں اس پر سوار ہوا تو یوں لگا جیسے زمین میرے قدموں کے نیچے سے پھسل رہی ہو اور آسمان سر پر چھا رہا ہو۔
ہم تین چار دوست، ایک سکوٹر اور پورا شہر —،گلیاں ہماری تھیں، دیواریں ہم سے واقف تھیں اور سکوٹر کی گھنٹی پونچھ کا سب سے خوش الحان نغمہ بن گئی تھی۔تب پونچھ میں شاید چار موٹر سائیکلیں ہوں گی،اور سرکاری گاڑی کا گزرنا گویا کسی راجا کی سواری کا گزر تھا۔
ہم انہیں دیکھتے، اور ہنستے:
’’ایک دن ہم بھی…!‘‘
لیکن پھر ایک دن سب کچھ بدل گیا۔
ہجرت — ایک ایسا لفظ جو صرف پتوں کے گرنے یا دروازے بند ہونے کا نام نہیں،بلکہ ایک مکمل وجود کے ادھورے ہونے کا نوحہ ہے۔
ہم نے پونچھ چھوڑ دیا۔چھوڑ دی وہ گلیاں، وہ صحن، وہ سائیکلیں، وہ آوازیں۔اور وہ مٹی… جس میں ہم نے اپنے بچپن کے خواب بوئے تھے۔
میری حویلی کی الماری میں ایک خزانہ تھا۔کتابیں جن کے صفحات پر میری سانسیں بسی ہوئی تھیں۔کچھ خط — جو دل کی دھڑکن تھے،کچھ تصویریں — جن کی آنکھوں میں امید تھی۔
میں سب کچھ چھوڑ آیا۔
وقت کی دیمک نے ان کتابوں کو چاٹ لیا۔
لیکن وہ مٹی —اب بھی میرے اندر کہیں زندہ ہے۔
بس چند یادیں اور کچھ حسینوں کے خط میں نے انور خان کو دے دیئے، —میرا یارِ غار، جو لفظوں کو دل میں محفوظ رکھنے کا ہنر جانتا تھا۔
’’یہ خط نہیں، سانسیں ہیں۔لفظ نہیں، تمھارا عکس ہیں — اور میں انہیں سنبھال کے رکھوں گا‘‘
وہ کہا کرتا۔
وقت گزرتا گیا۔
آج میرے پاس سب کچھ ہے —عیش و عشرت، بلندی، آسائشیں۔
بنگلہ، شیشے کی دیواریں، مہنگی گھڑیاں۔لیگزری گاڑیاںلیکن دل کی ایک دیوار آج بھی خالی ہے،جس پر صرف پونچھ کی تصویر ٹھہرتی ہے۔
اکثر جب رات گہری ہو جائے،اور کمرے کی خاموشی سانس لینے لگے،تو ایک پرانی سائیکل کی گھنٹی سنائی دیتی ہے…شرما جی کی ہنسی، ماں کی پکار، اور سکوٹر کی آواز —سب مل کر وہ نغمہ چھیڑتے ہیں،جو صرف مٹی کے لوگ سن سکتے ہیں۔ہم زندگی میں بہت کچھ پا لیتے ہیں مگر بچپن کی مٹی، ماں کی گود، دوستوں کے قہقہے،یہ سب صرف ایک بار ملتے ہیں۔
وقت گزر جاتا ہے،لیکن “مٹی کی خوشبو” رہ جاتی ہے — سانسوں میں، خوابوں میں، اور یاد کی ہلکی نمی میں…جو جب بھی دل کو چھوتی ہے،تو ایک ٹھنڈی ہوا سی محسوس ہوتی ہے —جیسے پونچھ کی شام… جو کبھی بھولتی نہیں۔
���
پونچھ،حال گاندھی نگرجموں