چلو جی اہل کشمیر ڈھول نگارے بجائو،تمبک ناری کی تھاپ پر ناچو،دمال ڈال دو ، روف ونہ وُن بھی گائو کہ اپنے ملک کشمیر میں ہماری مانگ کے بغیر ہی لوگ عالی شان کرسی چھوڑ کر ہمارے بچائو میں میدان میں آ دھمکے ہیں، اور خون کے ایک ایک قطرے کا حساب مانگنے کاغذ قلم ہی نہیں بڑے بہی کھاتے ہاتھ میں لئے گلی گلی گھومنے نکلے ہیں،یعنی ظالمو! جواب دو خون کا حساب دو۔ چونکہ اپنے ملک کشمیر کی سیاست بھی عجب راج نیتی کے کفن میں لپٹی ہے ،اس لئے ان کے ساتھ ہی مل کر خون کا حساب مانگنے کا پروگرام ہے جو سالہا سال سے یہی مشق جاری رکھے ہیں۔ اس لئے اب کوئی خون خرابہ نہیں ہوگا کہ فیصلہ کرنے و الے نے یہی فیصلہ کرنے کے لئے ڈیلی ویجری کو لات ماری ،قیمتی کرسی کی ٹانگیں توڑ دیں کہ بس ایک ہی مشن ہے خون خرابہ روکنا ہے اور نہ رُکا تو اس کے خلاف کا غذی احتجاج کرنا ہے ؎
میرے ہاتھوں میں اب جذبہ ٔ آزادی کا جھنڈا ہے
سیاست میراکوچہ ہے الیکشن میرا ڈنڈا ہے
چلو مانا کہ کرسی تھی بڑی ہی رعب دار اپنی
مگر اب عالی شان صوفے پر بیٹھ کر دکھائوں گا
میں اب لیڈر بنوںگا قوم کو رستہ دکھائوں گا
بہت دن بن گیا الو اب اوروں کو بنائوں گا
یہ اور بات ہے کہ کسی کو سرکاری زمین سے مٹی اٹھانے پر روکیں گے نہیں کیونکہ وہ ووٹر نکلا تو بھلا کہاں کامیاب بنائے گا لیکن اہل کشمیر کی خاطر براہ راست وردی پوشوں سے پنگہ لیں گے ، ان کا گریبان پکڑ کر کہیں گے یہ تو اپنا بھائی ہے ، اسکے ساتھ کیسی لڑائی ہے ۔معاملہ سیاسی ہے ترپن ہو یا ستاسی ہے۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھیں گے کہ یہ ملک ہمارا ہے اس کا فیصلہ ہم کریں گے۔ مکا لہرا کر سوال کریں گے کہ کتنے چھرے مار کر پیلٹ زخم جسموں میں لگوائے تھے؟ مطلب صاف اب کسی کو گھر سے کھینچ کر نہیں ماریں گے اور کسی کو کراس فائرنگ زمرے میں نہیں لائیں گے بلکہ کسی گروپ کو بھی انکاؤنٹر سائٹ کے دیو کے منہ میں بھی نہیں پھینکا جائے گا اور یہ بھی نہیں کہا جائے گا کہ ’’یُس مود سُہ مود سرکاری‘‘۔پھر دیکھتے ہیں یہ وردی پوش کھینچا تانی میں کپڑے پھاڑ دیں یا بال نوچیں کیونکہ آخر تو احتجاج ان کے ہی خلاف ہوتا ہے اور وہ مزے سے کافی پیتے رہتے ہیں اور ان کے دریندر بیچ میدان پکڑتے ہیں ، جکڑتے ہیں ، رگڑتے ہیں، اور اکثر اوقات چھوٹے سے قفس میں دھکیلتے ہیں۔ پھر شام گئے اس حالت میں چھوڑ دیتے ہیں کہ گھر جائو تو پہچاننے سے انکار ہوتا ہے۔دروازے پر ہی یہ کہہ کر پیچھا چھڑایا جاتا ہے کہ مالک مکان گھر میں نہیں۔کچھ تو اس قسم کے احتجاج اپنا انجنیئر بھی کرتا رہتا ہے جبھی تو اپنے ساتھ ہاتھ سے ہاتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کی فرمائش کی کہ بھائی میرے خوب گزرے گی جو مل کے پِٹے دیوانے دو۔ نہیں تو سول سروس چھوڑنے کا کیا تک؟اِدھر سے خون خرابہ روکنے کے لئے نوکری گئی اُدھر خون خرابے کا پچھلا حساب چکتا کرنے کے لئے معافی کا بھاری وزن پلڑے میں ڈال دیا۔اب سوچتے ہیں کہ پلڑا کس جانب بھاری ہے ہل یا قلم دان؟
یعنی اس فلم میں کہانی ہے، ڈرامہ ہے ، ایموشن ہے ، ایکشن ہے۔ مطلب یہ کہانی مار کٹائی سے بھرپور ہے اور اس ایکشن میں یقین آئے نہ آئے ڈیڑھ سو سے زیادہ جانیں گئیں، پھر ن جانے کتنی آنکھیں چلی گئیں۔اسی لئے ٹافی سے لے کر معافی تک ایک لمبی کہانی ہے جو کوئی دو سال پر محیط ہے اور برسوں بعد اختتام یوں ہوا کہ یہ اہل قلم دان آج کل بکھرے بکھرے جیسے لگتے ہیں ۔مطلب اس دل کے ٹکڑے ہزا ر ہوئے کوئی اِدھر گرا کوئی اُدھر گرا ۔کہاں مرد مومن کا خواب اور کہاں بانوئے کشمیر کی تعبیر ؟؟؟کہاں قطبین کا ملاپ ،کہاں دل جگر کے ٹوٹے ٹوٹے اور ناگپوری ڈرامہ بازوں کے طعنے کہ اس وقت کہاں تھی وہ محبت جو آج کل دکھا رہے ہو ؟اور حد تو یہ ہے کہ جو کل تک مشن موڑ میں جتلاتے تھے کہ ان کی پارٹی سیاست نہیں ایک تحریک ہے، وہی آج ایک دن بیان بازی میں مفتیوں کے خلاف ہی فتویٰ صادر کرتے ہیں اور دوسرے دن کہیں اور پناہ لیتے ہیں ۔ کچھ ہل والوں کی چھتری کے نیچے کچھ پیپلز کے بغیر دندان شیر کی کھال کے اندراور اس پریشانی میں بانوئے کشمیر نے پینترا بدلا ۔عشرہ پہلے جیسی دوڑ دھوپ شروع کی ،جنہیں رُلایا اُن کے آنسو پونچھنے پہنچی،جنہیں کل تک دودھ ٹافی کے خریدار کہہ کر بدن میں اتنے چھید کروائے کہ وہ بے چارے کنفیوژ ہیں کہ ٹافی کہاں سے لیں اور دودھ کہاں سے پی لیں۔ جاں بحق افراد کے گھر جا کر تعزیت کی شاید یہ جان کر کہ مارا بھی ہم نے ،دُکھ بھی مابدولت نے پہنچائے،اب زخم بھی ہم سہلائیں تو ہوسکتا ہے پھر سے کچھ کچھ سانس لے پائیں ۔جیسے مردہ جسم نہیں کوئی سیاسی پارٹی ہوئی جو لمحہ بہ لمحہ سانس لیتی اور کھوتی ہے،یعنی جس کی ایک دن موت ہوتی ہے تو دوسرے دن اقتدار کے وینٹی لیٹر پر پھر دل دھک دھک کرتا ہے۔ اپنے سیاست دان بھی نہ جا نے کس مٹی کے مادھو ہیں کہ چہرہ جب چاہا بدل دیا، زبان بدلی ، سخن بد لااور اس تھوبڑے میں آنکھیں خود کار یعنی کمپیوٹر لگی آٹو میٹک ہوتی ہیں کہ اشارہ کیا تو آنسو بہے، وآرڈر دیا تو چلہ کلانی ٹھنڈی آہیں بھریں ۔ جبھی تو بانوئے کشمیر ملی ٹنٹ کی مظلوم بہن سے ہمدردی جتانے مداخلت بے جا کے ساتھ اس کے گھر اندر آ دھمکی اور ستیہ پال کو دھمکی دے ڈالی کہ ہم یہ بے عزتی برداشت نہیں کرسکتے کیونکہ بھاجپا منڈلی نے ہماری اس قدر کی بے عزتی خراب کر ڈالی ہے کہ ہم اور لینے کی پوزیشن میں نہیں ،ناگپوری سیاست نے ہمارے گھڑے اپنے قطبینی مہربانیوں سے اس قدر بھر ڈالے کہ اور پروسو تو کناروں سے چھلک جائے گی۔ فقط راج بھون مکین کو ہی یہ بے ضرر دھمکی نہیں دی بلکہ اپنے کل تک کے ساتھیوں کے بارے میں نیا فتویٰ جاری کردیا کہ وہ تو کچرا تھا، صاف ہو گیا ۔ارے واہ !یہ قطیبنی سیاست دان بھی کس قسم کی سونگھنے کی اعلیٰ قوت رکھتے ہیں کہ جب اپنے شاگردوں کو پاس بٹھایا ، کھلایا پلایا، پڑھایا لکھایا تب تو یہ کرم فرما بڑے خوشبو دار تھے ، اُن کے ساتھ اقتداری واز وان چٹ کرنے میں بڑا سواد تھا ، اب جو یہ قطبینی یونیورسٹی سے ڈگری لے کر نکلے تو انہیں بد بو دار کہہ کر دُھتکارا ، طعنہ دیا انہوں نے اندرکا پورا ماحول گندہ کردیا تھا۔ لوگ پوچھتے ہیں کیاکل تک کے شب شالیمار ساتھی آج میونسپلٹی کی ڈرین ہیں۔ اب مسلٔہ اہل کشمیر کا ہے کہ اپنے سرینگر والے کچرے کی صفائی سے ابھی جھوج ہی رہے تھے کیونکہ فارین میئر اور نیرو مودی جیسے ڈپٹی میئر کے بیچ چھینا جھپٹی میں گلی گلی کوچہ کوچہ عفونت و کچرا بھر گیا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اہل کشمیر کہاں کہاں کا کچرا صاف کریں ، گلی کوچوں کا یا بازارِ سیاست کا؟؟؟
اور تو اور بانوئے کشمیر نے اپیل کر ڈالی کہ چلو بیٹا لوگو! معاف کردو اور ہماری منڈلی میں شامل ہو جائو ۔پھر ہم ماضی کی طرح ساتھ مل کر گائیں گے، بجائیں گے، دھوم مچائیں گے اور گنگنائیں گے ’’ییلہ آؤ مفتی تیلہ ژجی سختی‘‘ اسی نغمے پر تھرک تھرک ناچیں گے اور ہل والوں کو چیتائونی دیں گے کہ چلو سیاسی تیر آزما کر دیکھیں کون کتنے قطبینی پانی میں ہے ۔ مگر وہ نوجوان ہیں کہاں جن کو توپ کی رسد بنائیں ؟ وہ تو قبروں میں ہیں یا ہسپتالوں میں سلب شدہ بینائی کا علاج کروا رہے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ انشا ء اور ہبہ جیسی بینائی کھوئی چھوٹی کلیاں پھبتی کسیں :مس د و قطبی! ہم سے معافی کیا مانگنی ہم تو ووٹر بھی نہیں۔بھلا معافی مانگ کر اپنا وقت کیوںضائع کرنا؟
ہل والا قائد ثانی اپنے قد سے تو ایک میٹر لمبا ہی نکلا ۔اس نے نیا سیاسی تیرمارڈالا کہ میں ہل کے ساتھ رام مندر کی اینٹ لے کر فیض آبادجائوں گا تاکہ سند رہے کہ ہل والے بھی رام بھکت ہیں اور وہ بابر کی مسجد کو مسماری کو اہمیت دیتے ہیں۔جبھی تو ترشول بردار ہل والا جھنڈا اُٹھائے نئی فوج میں شامل ہو ں گے اور نوائے صبح سے گپکار تک مارچ کریں گے ؎
آج دلی سے الیکشن کی خبر آئی ہے
قطبیانِ سیاست میں صف آرائی ہے
ممبری فلم ہے اور قوم تماشائی ہے
فلم اچھا ہے اداکار ہیں اونچے لیڈر
ہم تو سوچ رہے تھے کہ مسلٔہ کشمیر کبھی مسافر بسوں کے شیشوں کے اندر بند تھا جبھی تو وردی پوش فورس اہل کار یہ شیشے چڑھانے نہیں دیتے تھے ۔پھر لگا کہ مسلٔہ کشمیر کا حل پھرن کے اندر بند ہے کہ افسران نے اس پہناوے پر پابندی لگا رکھی ہے، مگراب تو وزیر داخلہ نے نیا انکشاف کردیا کہ بھائی لوگو ! یہ تو حریت کے دروازے کے دوسری طرف بند تھا ۔ہم بات چیت کے لئے تیار تھے پر حریت نے دروازہ بند کردیا۔ یہ کہہ کر وزیر داخلہ نے ایک اہم راز سے پردہ ہٹایا ۔اپنے ملک کشمیر میں تو دروازے کھڑکیاں وردی پوشوں کی ایک لات سے کھلتے ہیں ،اور ساتھ میں ٹی وی، فرج اور نہ جانے کیا کیا دھڑام سے گر کر ٹوٹ جاتے ہیں مگر لگتا ہے حریت کا دروازہ بڑا مضبوط ہے کہ پوری فوج اسے گرا نہیں سکتی ۔ ہو کیوں نہیں آخر مسلٔہ کشمیر کا حل جو اس کمین گاہ کے اندر چھپا بیٹھا ہے۔ جو دروازہ ایک لو لیٹر سے کھل سکتا تھا کہ آجائو بات چیت میں گھل مل جائیں ،کیا پتہ وزیر داخلہ نے پتہ کروایا ہو کہ یہ دروازہ مملکت خداداد سے بن کر آیا ہے اور اس میں حافظ مارکہ لکڑی اور مسعود مارکہ کیل لگے ہیں کہ بھارت کے سیاسی بلوان اور حکومتی پہلوان بھی اسے کھول نہیں پائے اور بقول وزیر داخلہ حریت کا دروازہ کھلتا تو سونے کی چڑیا کب کی باہر آ ئی ہوتی اور چوں چوں کرکے اپنے سنہری پر پھیلائے اہل بر صغیر کو امن کا پیغام اور ترقی کا انعام دے گئی ہوتی۔ جھوٹ سراسر جھوٹ ، بالکل بہتان ، سو فی صد بکواس، سر نہ پیر ، صرف سیاسی ہیر پھیر۔ کیا حریت ع کو دوبار دروازے تڑوا کردربار نہ بلایا؟ اپنا درشن دیا، اُن کا دیدار کیا،حاصل صفر! قسم اپنے چلہ کلان کی دربار نے ع اور گ کی تقسیم بھی کرائی مگر پھر ع کو خالی ہاتھ لوٹایا ، گ کو گولی گالی سے دبایا مگر گ ہے کہ شاہ فیصل اسی کی پناہوں میں آ تا مگر بائیکاٹ کی بوٹی اس کی تکلیف کم کر نے سے قاصر ہے۔ دل جلے کہتے ہیں کہ حریتی دروازہ بند نہیں ، دربار کی عقل پر تالا لگا ہے ۔ ارے بھئی ! جب کھڑکی سے گھس کر جبہ ودستار والے افغان طالبان سے امن بات چیت کرناحلال ہے ، کشمیر میں یہ حرام کیوں؟ صاف صاف کیوں نہیں کہتے کشمیر کاخون ووٹ پرچی کی حنابندی ہے۔ تم یہ بھی کہہ سکتے ہو ہم زعفرانیوں کو حریت دروازہ کھولنے سے زیادہ شہریت بل ، سہ طلاق، بابری مسجد کی فکر کھارہی ہے ، ہمیں ووٹ کے لئے اَپرواسی ہندو ؤں کو دیش میں بسانے کا غم مارہا ہے ، ہمیںمسلم ہندوستانیوں کی شہریت چھین لینے کی فکر نیندیں اُڑارہی ہے ۔ہم بھلا مملکت خداداد کے تیز رفتار گیند باز عمران خان کے ہاتھ کرتارپور پھاٹک کھل جانے پر خوش کیوں ہوں؟ یہ دروازہ پریوار توڑتا تو ہم ووٹ کا اُپہار پاتے۔ہم بھی کہتے ہیں سب دروازے کھلنے چاہئیں مگر جنگ کے ، فساد کے ، موت کے تباہی کے ،اس کے برعکس اگر امن کے ، محبت کے، خوش حالی کے ، بھائی چارے کے، نیک ہمسائیگی کے دروازے کھل گئے تو ووٹوں کا نان نقہ ہمیں ملے گا تو کہاں سے ملے؟۔
رابط ([email protected]/9419009169)