اگر ہم بخوبی غور کریں کہ ہماری زندگی کیا ہے،تو معلوم ہوجاتا ہے کہ زندگی محض ایک مقررہ ’وقت ‘ہے۔جسے اگر ہم ضائع کرتے ہیں تو گویازندگی بر باد کرتے ہیں۔کوئی بھی ذی ہوش فرد اگر اپنی گذشتہ زندگی پر نظر ڈالے تو اُسے معلوم ہوجائے گا کہ اُس کی زندگی میں بھی کئی سارے ایسے سنہری مواقع آئے ہیں،جسے اُس نے خود ہی کھویا ہے۔اسی لئے فلاسفروں کا قول رہا ہے کہ زندگی میں کامیابی کے لئے پہلی ضروری شرط یہ ہے کہ حیوانات کی طرح حلیم و صابرا ور محنت کش بن جائو،پھر کوئی دن ایسا نہیں گذرے گا جس میں تم اپنے آپ میں کوئی بہتری پیدا نہ کرسکو۔ظاہر ہے کہ ہر کوئی شخص اس بات سے واقت ہے کہ انسانی زندگی چند روزہ ہے لیکن اس کی ذمہ داری کئی حصہ زیادہ ہےاور جو شخص اپنی زندگی میں باقاعدگی ، عمدگی اورنیک نیتی کا مظاہرہ کرتا ہے ،وہ پھل دار درخت کی مانند اپنی زندگی خوشحالی سے بسر کرتا ہے۔ چنانچہ ہر انسان کی زندگی کا ایک خاص مقصد ہوتا ہے لیکن تمام لوازماتِ زندگی سے ہر کوئی لطف اندوز نہیں ہوتا،جبکہ زندگی اور صحت تھوڑی سی آمدنی پر بھی قائم رہ سکتی ہے۔اس لئے زندگی تلخ ہویا سہل، اسے صرف اپنی آنکھ سے ہی نہ دیکھیںبلکہ اُسے فٹ پاتھوں پر پڑے اُن اشخاص کی آنکھوں سے بھی دیکھیں ،جنہیں زندگی کی بنیادی ضروریات میسر نہیں۔عالی شان گھروں میں رہنے والے اُن افرد کی نظروں سے بھی دیکھیں ،جن کے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی پیار ، محبت اور خلوص نہیں۔ اُس علیل شخص کی نظر سے دیکھیں ،جو جینا تو چاہتا ہےمگراُس کے پاس جینے کےلئے وقت ختم ہونے والا ہو۔ اس طرح زندگی کا مختلف لوگوں کی آنکھ سے مشاہدہ کرنے سے تو معلوم ہو گا کہ یہ کتنی تلخ ہے۔، مگر اس کے تلخ ہو نے کے باوجود ہم اپنے ارد گرد لوگوں پر غور کریں تو کچھ لوگ خوش مزاج ہو تے ہیں، کچھ نرم مزاج اور کچھ تلخ ، کچھ شرارتی اور کچھ سنجیدہ لوگ ہو تے ہیں۔ جو سنجیدہ لوگ ہو تے ہیں ، ان میں سے زیادہ تر زندگی کی تلخیوں سے اُکتا ئے ہو ئے ہو تے ہیں مگر جو خوش مزاج لوگ ہو تے ہیں جنہیں ہم نان سر یس کہتے ہیں ،وہ بھی زندگی کے انگاروں سے جھُلسے ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنے میں مصروف ہو تے ہیں ۔گویا ہر شخص چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب ، کسی نہ کسی پریشانی کا شکار ضرور ہو تا ہے ۔ جس کی وجہ سےکوئی شخص تلخ مزاج بن جاتا ہے تو کوئی نرم مزاج۔بہر حال زندگی بالکل بھی مشکل نہیں ہے لیکن ہم نے اسے مشکل بنا رکھا ہے ۔ ہم نے اپنی بے جا خواہشات کے انبار لگا کر اسے مشکل بنا رکھا ہے ، یہ ایسی خواہشات ہو تی ہیں جو کبھی پوری ہوہی نہیںسکتیں ۔ اب یہ سوال بھی پیدا ہوجاتا کہ زندگی کو آسان کیسے بنایا جا ئے ؟ ہم کبھی اتنی مشکلات کی گر فت میں آجا تے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی سننے والا ہو ، کوئی ایسا شخص موجود ہو ،جس کے سامنے ہم دل کھول کر رولیں،اُس وقت شائد ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جس ذات نے ہمیں تخلیق کیا ہے،اُسی ذات کواپنے آپ کوسونپ دیں جو ہر چیز پر قادر ہے،جوہر مشکل سے نکال سکتا ہے ۔یا درہے کہ زندگی میں ہم کبھی ایسے مقام پر بھی آ جاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہو جا تے ہیں، وہاں صرف ہم اور ہمارا خالق و مالک ہو تا ہے۔ کوئی ماں ، باپ ، بہن ، بھائی ،رشتہ داراور دوست نہیں ہو تا ،پھر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم زمین پر مٹی کے ایک ذرّے یا درخت پر لگے ایک پتے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتےہیں ۔بے شک دنیا میں تمام محبتوں کو زوال حاصل ہے تو پھر ہم لوگ اُس سے محبت و دوستی کیوں نہیں کر لیتے جو لا زوال ہے۔کیونکہ ہمارا رجحان ہماری زندگی کی کسوٹی ہی نہیں بلکہ ہماری انسانیت کی پہچان بھی ہے۔اس لئے یہ ہم پر ہی منحصر ہے کہ زندگی کی راہ طے کرتے ہوئے یا تو فطرت کی کل آوازوں کو نغمہ میں ڈھال دیں یا پھر اس کی شفقت وہمدردی کو ٹھکراکر ایک خوفناک خاموشی میں تبدیل کرلیں۔نشاط و انبساط اور اندوہ و کلفت زندگی کی اصلی غرض و غایت نہیں،اس کا منتہائے مقصود تو یہ ہے کہ ہم ہمیشہ سرگرم عمل رہیںتاکہ مستقبل روز بروز بہتر ہی ہوتا جائےاور یہ سمجھ کر آگے بڑھتے رہیں کہ آج کا دن ہماری زندگی کا پہلا دن ہے اور یہی دن آخری دن بھی ہے۔