اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہندوستان کی خوبصورتی کثرت میں وحدت چھپی ہے۔اس ملک کی زندگی میں گنگا جمنی تہذیب رچی بسی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک کو دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔۲۰۱۴میںہمارے ملک میں بی جے پی کو سیاسی عروج ملا ،اس کا نعرہ تھا’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ ، اس کی منزل تھی ’’اچھے دن ‘‘ مگر بہت جلد بھاجپا کی طرز حکمرانی اور سنگھیوں کی دھماچوکڑیوں سے عام لوگوں کو محسوس ہو اکہ ملک کو کسی کی نظر لگ گئی کہ مرکزمیں بی جے پی کی سرکار آگئی۔ پیارے دیش سے جمہوریت کا جنازہ اُٹھنے اور آمریت کا بول بالا ہونے لگا۔ایک دوسرے کے سکھ دکھ کے ساتھی آپس میں بھڑنے لگے،فرقہ وارانہ فسادات کرواکر معیشت برباد اور نسلوں کوختم کیا جانے لگا۔حال ہی میں ہریانہ کے گڑگائوں میںایک تین منزلہ قدیم مسجد کے باہر نماز کی ادائیگی کو لے کر مسلمانوں کے ساتھ جس طرح کا بُرابرتائو کیا گیااس سے ہندوستانی جمہوریت دم توڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔فرقہ پرستوں نے وہاںمسلمانوں کو نماز پڑھنے سے بزور بازو روک دیا،جب کہ ملک کا آئین ہر مذہب کے ماننے والے کو عبادت کا حق ہی نہیں دیتابلکہ عبادت گاہیں قائم کرنے کی بھی آزادی دیتا ہے۔۲۰۱۹ کے الیکشن کے لیے بی جے پی جس طرح
نفرت اور عداوت ، دھونس اور دباؤکا سیاسی کھیل ، کھیل رہی ہے، اس سے ہندوستان کی بچی کھچی جمہوریت بھی ختم ہونے کا اندیشہ ہے، اگر عام ہندوستانی کا ذہن اور ضمیر جاگ نہ اٹھا۔ امن کے مندر میںبسنے والے ہم جمہوریت پسند عوام کے لیے اب بھی وقت ہے کہ پھر سے ویسا ہی ہندوستان بنانے کی کوشش کریںجسے علامہ اقبالؔ نے فخر کے ساتھ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘کہاتھا۔ہم سب کا آئینی فریضہ، سیاسی ادھیکار اور ملی ذمہ داری بنتی ہے کہ وطن عزیزکو وہ ہندوستان بنائیں جہاں اشفاق اللہ خاں اور بھگت سنگھ کی حب الوطنی گیت گائے جائیں،جہاں کی صبح پرسکون ہو اور جہاں کی ہر شب،شب بخیر ہو، جہاں ہندو، مسلمان، سکھ ، عیسائی ، بودھ ، جین سب مل کر پیار محبت کے ساتھ رہیں ، جہاں گھر واپسی ، ڈر،خوف ، بے ا نصافی ، ہجومی قتل، منافرت ، شک وشبہات کا سایہ تک نہ ہو ، جہاں تعمیر وترقی کا پرچم ہر پرانت میں لہرارہو۔ یہی ہندوستان ہم سب کے خوابوں کا پیار ہندوستان ہے۔