یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر بڑے بڑے معاہدوں، رپورٹوں اور تشویشناک خبروں کے باوجود فضائی آلودگی، آبی آلودگی اور زمینی آلودگی میں کوئی نمایاں کمی نظر نہیں آرہی ہے بلکہ منظر عام پر آنے والے جائزوں کے مطابق قدرتی ماحول مزید بگڑتا جا رہا ہے۔جائزوں اور رپورٹوں میںیہ بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ کرۂ ارض کے قدرتی ماحول میں اس قدر بگاڑ پیدا ہو چکا ہے کہ آئندہ صدی تک اس زمین پر انسانیت کو ناقابل تلافی نقصانات اُٹھانے کا خطرہ ہے۔جس کی بڑی وجہ انسان کی اپنی کوتاہیاں ہیں، جدید طرز زندگی اور زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کا لالچ ہے، جس کے لئے وہ ہر حد سے گزرنے کیلئے تیار ہے۔ المیہ یہ بھی ہےکہ سائنس دان اور ماہرین جن اشیاء کے استعمال سے منع کرتےہیں اور طرز حیات میں تبدیلی لانے پر زور دیتے ہیں،اُن پر انسان قطعی کان نہیں دھرتاہے۔ پلاسٹک لفافوںوبیگز کا بڑھتا ہوا استعمال، پلاسٹک کی بوتلوںو دیگر پلاسٹک اشیاء کا بڑھتا ہوا رُجحان اور اس نوعیت کا دیگر کوڑا کرکٹ تو اب ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ گویاحرص اور لالچ ،جدید طرز زندگی اور خواہشات نے انسان کو اس قدر بے حس بنا دیا ہے کہ بین الاقوامی تحقیقی جائزے کے مطابق ہر سال دنیا میں ایک ارب ٹن سے زائد پکے ہوئے خوراک یا کھانے تک کوڑے کی نذر ہو جاتا ہے اور ہر فرد سالانہ 74 کلو خوراک کوڑے دان کی نذر کرتا ہے۔یہ صرف امیر ممالک میں نہیں ہو رہا ہے بلکہ ترقی پذیر ممالک میں بھی یہی طرز عمل ہے۔ جبکہ ماہرین حیران ہیں کہ غریب ممالک کےکروڑوں عوام کم خوراک یا فاقوں کا شکار ہیں۔اگرچہ بعض ممالک میں غیر سرکاری تنظیموں نے اپنی اپنی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ خوراک کے ضائع ہونے کے عمل کو روکنے یا اس ضائع کردہ کھانے کو استعمال کرنے کے طریقہ کار پر غور کریں تاکہ خوراک ضائع نہ ہو سکے اور غریب افراد میں تقسیم کی جا سکے۔ مگر دکھائی تو یہی دے رہا ہے کہ ایسی کسی اسکیم پر ٹھوس بنیاد پر عملدآمد نہیں ہورہا ہے۔ ہماری اس وادیٔ کشمیر میں بھی جہاں پلاسٹک اشیاء کا استعمال بڑے پیمانے پر ہورہا ہے وہیںپکائے ہوئے کھانوں اورخوراک کا ایک خاصا حصہ کوڑے دانوں کی نذر ہورہا ہے۔شادی بیاہ کے موقعوں پر تو پکائے ہوئے کھانوں کا بے دریغ زیاںایک عام بات بن چکی ہےجو کسی سے پوشیدہ نہیں۔لیکن پھر بھی اس طرزِ عمل کو بدلنے پر غوروفکر نہیں کیا جارہا ہے۔اگرچہ بہتر طریقہ یہی ہے کہ گھروں میں کھانا پکانے پر مامور افراد کو یہ آگہی فراہم کی جائے اور انہیں اس پر راضی کیا جائے کہ انسانیت کی خاطر کھانا پکانے میں اعتدال اور ضرورت کا پورا خیال رکھا جائے تاکہ خوراک ضائع نہ ہو سکے۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ دنیا میں بعض کمیونٹیز ایسی بھی ہیں جو کھانا صرف اتنا پکاتی ہیں جتنا ان کے گھروں میں صرف ہوتا ہے ،وہاں خوراک کو کوڑے دان میں ڈالنا بہت معیوب تصور کیا جاتا ہے بلکہ بعض لوگ اس کو عظیم گناہ بھی قرار دیتے ہیںجبکہ اسلام بھی یہی تعلیم دیتا ہےکہ ہر معاملے میں اعتدال لازمی ہے۔مختلف ممالک کی بیشتر غیر سرکاری تنظیموں نے اپنے علاقوں میں ٹنوں کے حساب سے پھینکے جانے والا کوڑا کرکٹ جس میں پلاسٹک کا سامان، کانچ کی بوتلیں، پرانے ٹائر، کاغذی ردی اور دیگر بیکار سامان ہوتا ہے۔ اس کو جمع کر کے اور انہیں الگ الگ کرکے، سائیکلنگ یا دوبارہ قابل استعمال اور کارآمد بنانے والے کارخانوں کو فراہم کرتے ہیںاور اس طرح اس کام سے وابستہ افراد کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے،جس کے نتیجے میں کوڑا چننے کا کاروبار ایک طرح سے منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ ہمیںآج کے دور اور آئندہ آنے والے ادوار کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں قدرتی ماحول میں بگاڑ ، عالمی مفادات کی رسہ کشی اورعالمی نظام میں ناہمواری کی وجہ سے جو مسائل جنم لے رہے ہیں، ان کا سامنا کرنے کے لئے اپنی اپنی معیشتوں کو مستحکم بنانے، تعلیم، صحت عامہ اور انتظامی شعبوں کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کریں۔ آج کے انسان کو جدید ٹیکنالوجی کی سہولتیں حاصل ہیں۔ اس سے بھرپور فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے اور معاشروں کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔جبکہ عصری تقاضوں کی تکمیل اور پیش آنے والے مسائل کا سامنا جدید نظریات کو ملحوظ رکھ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔