محمد ہاشم القاسمی
شادی کے بعد عورت کا سب سے زیادہ واسطہ اور تلخ تجربہ اپنے گھر میں ’’ساس‘‘ یعنی شوہر کی ماں سے ہی پڑتا ہے۔ اکثر گھرانوں میں شادی کے کچھ ہی دنوں کے بعد ساس، بہو کے جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں۔بہو اگر اپنی ساس کو ماں سمجھ کراس کے ساتھ حْسن ِ سلوک روا رکھے تو زندگی پر سکون گزر سکتی ہے۔گوکہ عورت کے ذمہ ساس کی خدمت شرعاً واجب نہیں ہے، لیکن اَخلاقی طورپر عورت کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اْس کے شوہر کی ماں ہے، جس طرح اپنی ماں کی راحت کا خیال رکھتی ہے اسی طرح شوہر کی ماں کی خدمت اور اْن کو راحت پہنچانا اْس کی اخلاقی ذمہ داری میں شامل ہے۔ لیکن اس میں یہ پہلو بھی پیش ِ نظر ہونا چاہئے کہ شوہر اپنی بیوی کو اپنے والدین کی خدمت پر یا ساس کا اپنی بہو کو خدمت پر مجبور کرنا اور اس پر ظلم جبر کرنا درست نہیں ہے،(بلکہ خود شوہر پر اپنے والدین کی خدمت کرنا ضروری ہے) یعنی دونوں طرف اعتدال کی ضرورت ہے، ساس کو چاہیے کہ وہ اپنی بہو کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھے، اور اس کے دکھ درد میں شریک ہو، اور بہو کو چاہیے کہ وہ ساس کو اپنی ماں کی طرح سمجھے اور اس کی خدمت کو اپنے لیے دنیا و آخرت کی سعادت سمجھے، اس سے گھریلو زندگی میں خوش گوار ماحول پیدا ہوگا، اور میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ پائدار اور مستحکم ہوگا۔
ساس اور بہو کا یہ جھگڑا دراصل ملکیت کا ہوتا ہے اور دونوں عورت خواہ ساس ہو یا بہو کے اندر احساس ملکیت اس قدر شدید ہوتا ہے کہ اس میں شراکت برداشت کرنا اس کیلئے قابل قبول نہیں ہوتا۔ بیوی کی حیثیت سے جس طرح وہ سوتن کو دیکھتی ہے، اسی طرح ساس کی حیثیت سے وہ بہو کو برداشت کرنے کیلئے بڑی مشکل سے تیار ہوتی ہے۔جب گھر میں ایک عورت بہو بن کر آتی ہے تو بیٹے کے وقت اور مال و دولت میں بھی شریک بنتی ہے۔ پھر یہ بات بیٹے کی ماں یعنی ساس کے لئے برداشت کرنا ذرا مشکل ہوجاتا ہے۔ اگر بہو نرم اور ٹھنڈے مزاج کی مالک ہے تو وہ ابتدائی سختیوں کو آسانی سے سہہ جاتی ہے اور ساس کی سختی کو برداشت کرتی رہتی ہے، لیکن اگر تنک مزاج ہے تو بس جوابی کارروائیاں بھی شروع ہوجاتی ہیں، پھر تکرار میں جانبین کی آواز تیز اور تلخ ہوتی جاتی ہے جن کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ پھر آپس میں محبت اور خلوص کے بجائے اگر دیکھا جائے تو اس رشتے میں حسد کا جذبہ بھی فعال کردار ادا کرتا ہے۔ انسان میں احساس ملکیت، سوچ، تکبر اور تکبر کے بعد حسد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ساس اور بہو کے درمیان ہونے والے تنازعات میں اگر بہو ساس کو ماں کے برابر عزت دے جب کہ ساس بہو کو بیٹی کا درجہ دے دے تو ان لڑائی جھگڑوں میں پچاس فیصد کمی لائی جاسکتی ہے۔ ساس اور بہو کے درمیان چھوٹی موٹی نوک جھونک تو روز مرہ کا معمول ہے لیکن اس حد تک نہیں ہونی چاہیے کہ معاملہ لڑائی جھگڑے تک پہنچ جائے۔
ساس بہو کا رشتہ ایک مقدس رشتہ ہے اگر حقیقت میں اس رشتے کو پہچان لیا جائے تو ہر قسم کی قباحتیں ختم ہوجائیں گی۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ بہو ساس کو ماں کا درجہ نہیں دے پاتی اور ساس کا رویہ بھی شفیق ماں جیسا نہیں رہتا۔ خاندانی سسٹم کو بہتر انداز میں چلانے کے لئے ضروری ہے کہ ساس اور بہو ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھیں ۔گھروں میں ساس اور بہو کی لڑائیاں زیادہ تر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ہوتی ہیں۔ اگر خاوند اپنی بیوی کو ایک دائرہ کار میں رکھے اور خود ماں کا احترام کرتے ہوئے بیوی کو گھر میں والدہ کے مقدم ہونے کا احساس دلاتا رہے تو اس سے گھریلو ماحول میں نہ صرف توازن پیدا ہوگا بلکہ اس کے بچوں پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اکثر گھرانوں میں ساس اپنی بہو سے یہ توقع رکھتی ہیں کہ وہ ان سے بھی اسی شدت سے محبت کرے جس طرح وہ اپنے والدین سے کرتی ہے اور ہر بات پر اپنی بہو کا مقابلہ اپنی بیٹی سے کرتی ہے، اسی طرح بہویں بھی اپنی ساس سے یہ توقع کرتی ہیں کہ وہ اسی ممتا بھری محبت کا اظہار ان سے کریں جیسا وہ اپنی بیٹی سے کرتی ہیں اور اپنا مقابلہ اپنی نند سے کرتی ہیں۔ ایسی صورت میں دونوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ یہ سوچ اور توقعات غیر فطری اور غیر حقیقت پسندانہ ہیں اور ایسی توقعات نہ پوری ہونے کی صورت میں ساس بہو کے تعلقات میں مایوسی کے ساتھ ساتھ کشیدگی اور تناؤ پیدا ہوتا ہے، جو بڑھ کر دونوں کے درمیان فاصلے پیدا کر دیتا ہے۔
ساس اور بہو کو اس حقیقت کا احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ خونی رشتوں کا مقابلہ تعظیمی رشتوں سے کرنا حقیقت پسندی نہیں۔ ساس اور بہو کے رشتے اور تعلقات کا انحصار ایک دوسرے سے برتاؤ پر منحصر ہے۔ اگر دونوں ایک دوسرے کا مقام و مرتبہ تسلیم کریں، ایک دوسرے کے ساتھ عزت اور محبت سے پیش آئیں، ایک دوسرے کی ضروریات اور احساس کا خیال رکھیں اور دکھ سکھ میں شریک رہیں تو یہ رشتہ مضبوط، پائیدار اور مثالی ہو جاتا ہے، اور کبھی کبھی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ رشتہ خونی رشتہ پر بھی سبقت لے جاتا ہے۔
ہر رشتہ محبت، اخلاق، سامنے والے کا خیال رکھنے اور قربانی سے مضبوط ہوتا ہے اور اس میں پہل بہو کی جانب سے ہونا زیادہ موثر ہے کیوں کہ وہ سسرال میں باہر سے آتی ہے اور اپنے حسن سلوک اور بلند اخلاق سے اپنی جگہ بناتی ہے۔ اس کے برخلاف یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ محبت نچھاور کرنے کی شروعات ساس کی جانب سے ہونی چاہیے اس لئے کہ وہ اس کے بیٹے کی بیوی ہے۔ اگر وہ بہو کو بیٹی کی طرح محبت دے تو توقع ہی نہیں یقین کیا جاسکتا ہے کہ بہو بھی بیٹی جیسا برتاؤ کرے گی، دوسری اہم بات یہ ہے کہ شروع ہی سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں تاکہ بعد میں مایوسی اور شکوے شکایات نہ ہوں۔کسی بھی بہو کا یہ ذہن بنالینا کہ اب میرا اپنی ساس سے نبھا نہیں ہوسکتا، آگ پر تیل ڈالنے کے مرادف ہوگا اور معاملے کو مزید بگاڑ دے گا، اور اگر بہو ہی اپنا ذہن تبدیل کرلے اور اپنے رویّے میں تھوڑی بہتری لے آئے تو حیران کن نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
(مضمون نگارخادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال ہیں اور ان سے موبائل نمبر 9933598528پر رابطہ کیاجاسکتا ہے۔)
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیںا ور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)