گجرات کے شہر کویدیا میں ملک بھر سے شریک ڈائریکٹریٹ جنرل اور انسپکٹر جنرلوں کی الوداعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ انہیں ملکی پولیس کی بہادری پر فخر ہے۔ انہوں نے جموں و کشمیر پولیس کا بطور خاص تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر پولیس ملی ٹنٹوں سے نمٹنے کیلئے جس طرح نبرد آزماہے، اس کیلئے وہ بطور خاص توصیف کے مستحق ہیں۔ اُس روز یعنی 22دسمبر کو ترال کے علاقے میں انصار الغزوۃ الہند کے 6عسکریت پسند جاں بحق ہوئے تھے۔ اگر چہ وزیر اعظم کے اس طرح کے توصیفی کلمات جو توصیفی سند کا درجہ رکھتے ہیں،کوئی نئے نہیں ہے اور عموماًاس کی توقع بھی ہے لیکن یہ بیان جس پس منظر میں سامنے آیا وہ یقینا خاص ہے اور اس سے نریندر مودی ایک بار پھر فورسز کی زیادتیوں اور تشدد کی پالیسی کی توثیق کررہے تھے۔ انہیں ضرور معلوم تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل گویٹرس کو ایک خط میں کشمیر میں ہونے والی شدید انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں لکھاتھا کیونکہ چند ہی روز قبل پلوامہ میں فورسز نے سات نہتے شہریوں،جن میں چار نو عمر بچے بھی تھے ، کو راست فائرنگ سے قتل کرڈالا ۔ اس واقعہ کے خلاف بہت شور اٹھا جو یقینا وزیر اعظم کو بھی معلوم ہوگا۔ اس بات کو مد نظر رکھ کرانہوں نے ایک بار پھر پولیس کی پیٹھ تھپتھپائی ہے حالانکہ جموں و کشمیر پولیس کو شدید کاروائیوں کیلئے شاباشی دینا اصل میں فوج کو اشارہ ہے کہ آپ کام جاری رکھو کیونکہ ریاست میں تشددکی اصل زمام فوج کے ہاتھوں میں ہے اور پولیس ان کے ماتحت اور اس نظام کا ایک حصہ ہے، کُل نہیں ہے۔
نریندر مود کی تشدد پسند پالیسی کی توثیق کو سمجھنا اس لئے بھی ضرور ی ہے کہ وزیر اعظم کو براہ راست نہ سہی لیکن اس کے سیکریٹریٹ کو ضرور معلوم ہوگا کہ 19دسمبر 2018کے روز ریاست کے ایک سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حسیب درابو کا مضمون ’’ملی ٹنٹ نہیں،ملی ٹینسی‘‘ شائع ہوا ۔ اس کے بارے میں قارئیں کو پہلے ہی جانکاری دی جاچکی ہے ، اس لئے یہاں پروہ سارے مندر جات دہرانے کی چنداںضرورت نہیں ہے ۔ یہاں پر مضمون کے اس کلیدی حصہ کا تذکرہ بر محل معلوم ہوتا ہے جس کے بارے میں وزیر اعظم کو جانکاری ضروری دی گئی ہوگی کیونکہ ایک تو مضمون ہندوستان کے ایک بڑے قومی روز نامہ’’ انڈین ایکسپریس‘‘ میں شائع ہوا، لکھنے والا سابق بی جے پی ۔ پی ڈی پی مخلوط سرکار کا اہم وزیر ہی نہیں بلکہ بی جے پی کے ساتھ پی ڈی پی کا گٹھ جوڑ روبہ عمل لانے والا دانشور بھی ہے جس نے رام مادو کے ساتھ دونوں سیاسی جماعتوں کا اتحاد نامہ بھی لکھا تھا۔ اس لئے جب وہ کہتا ہے کہ کشت و خون ، ملی ٹنٹوںکو صرف مارنے، انہیں پکڑنے، سرینڈر کرانے یا بحالی کی کوئی پالیسی نہیں ہے اور جو لوگ صرف مار دھاڑ کے ذریعے بھاری رقومات اور ترقیاں پاتے ہیں انہیں ہیروکا درجہ دیا جاتا ہے۔ نریندرمودی نے گجرات میں ایک بار پھر وہی دہرایا۔ قابل غور بات یہ ہے اور جس پر کتابیں اور مقالے لکھے جاسکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ درابو صاحب نے لکھا ہے کہ کچھ پولیس آفیسر جو اس مارو اور ختم کرو پالیسی کا حصہ ہیں وہ سوشل نیٹ ورک کے ذریعے اور چند اپنے مخصوص علاقوں میں ملی ٹینسی اور ملی ٹنٹ پروان چڑھانے اور بنانے کا کام کرتے ہیں تاکہ انہیں مارنے کیلئے عسکریت پسند دستیاب رہیں جن سے وہ نہ صرف ملکی قیادت کی نہ صرف زبردست شاباشی حاصل کریں بلکہ رقومات اورترقی کی عنایات بھی۔ حسیب درابویوں صاف طور پر کہتے ہیں کہ قانون کے ذریعے مارنے کی اس سپاری قسم کی پالیسی سے عسکریت پسند تیار کئے جاتے ہیں ،یہ ایک ادارہ جاتی تشدد پسند پالیسی کا اہم ستون ہے۔
یہاں پر ایک اور تجزیہ کار کا تذکرہ بھی مناسب رہے گا۔ این ڈی ٹی وی کے نذیر مسعودی نے اپنے ایک بلاگ میں لکھاہے کہ 2010 کی ایجی ٹیشن کے دوران جب پالیمارنی کل جماعتی وفد نے کشمیر کا دورہ کیا اور اس میں اور لیڈروں کے علاوہ چدمبرم اور ارون جیٹلی بھی شامل تھے تو ٹنگمرگ میں ایک شخص نے انہیں پوچھا کہ کشمیریوں کے ساتھ اس قدر ظلم و زیادتی سے ہندوستان کا ضمیر کیوں بیدار نہیں ہوتا ،کیا کشمیری ملکی شہری نہیں ہیں۔ یہ سُن کر سارا وفد ہکا بکارہ گیا کیونکہ اس وقت 2010میں سو سے زائد شہروں کو فورسز نے مار ڈالا تھا۔ پھر تین برسوں کے اندر سولہ ہزار افراد کو پیلٹ سے اندھا اور نیم اندھا بنادیا گیا لیکن ہندوستان کا ضمیر اس سے بھی بیدا ر نہیں ہوا۔
موجودہ گورنر ستیہ پال ملک دوبار کہہ چکے ہیں کہ دلی کشمیریوں کو بدنام اور مطعون کررہی ہے۔ وہ ایسے بیانات دے رہے ہیں جو عموماً ان سے توقع نہیں ہے لیکن ان بیانات سے بھی ضمیر کی بیداری کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ملتاہے۔ صرف اسی سال 110انکائونٹر اور 300ہلاکتیں اس خون آ شام تاریخ کا بدترین حصہ ہے۔ اب جبکہ ملک کے وزیر اعظم خصوصی کانفرنس میں بھی سخت گیر اور انسان کش پالیسی کو جاری رکھنے کا اشارہ دے رہے ہیں تو بات سمجھ میں آ رہی ہے کہ ضمیر خاموش ہی رہے گا ۔
جیساکہ راقم نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ نہ واویلا کرنے سے ، نہ ہڑتال کرنے سے اور نہ شرم دلانے سے ظالم کا ہاتھ رُک سکتا ہے یا اس کا ضمیر بیدار ہوگا کہ وہ کم ازکم بنیاد ی انسانی حقوق کی پاسداری کرے کیونکہ متحارب فریق کے پاس بے پناہ طاقت ہے جو وہ بھر پور طریقے سے استعمال کررہا ہے بلکہ انکا آرمی چیف یہ اشارہ بھی دے چکا ہے کہ وہ امریکی طرز پر ڈرون حملے بھی کرسکتے ہیں۔ ان حالات میں ہندوستان کا ضمیر بند کمروں میں مذمتی بیانات داغنے سے بیدار نہیں ہوگا۔ ہم جیسے کالم نگار یہ بار بار کہتے ہیںکہ تشدد مسئلہ کا حل نہیں ہے لیکن غالب فریق تشدد کو پوری طرح سے پالیسی کا ستون بناکر کشمیری مسلمانوں کی دھیمی نسل کشی پر عمل پیرا ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جو کشمیر کے سول سوسائٹی ،دانشور حلقوں،مزاحمتی حلقوں ہی نہیں بلکہ بھارت نواز اقتدار پسندکشمیری سیاسی حلقوں سے بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ یہ نسل کشی روکنے کیلئے وہ کم ازکم چند بنیادوں پرمتحد ہوکرایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں۔تب جاکرکہیں ہندوستان کا اجتماعی ضمیر بیدار ہوگا جس ضمیر نے افضل گورو کی پھانسی کے حوالے سے عدالت عظمیٰ سے یہ کہلوایا کہ اجتماعی قومی ضمیر کی تسکین کی خاطر انہیں پھانسی پر چڑھانا لازمی ہے۔ تشدد کی اس اجتماعی پھانسی سے نجات کی سبیل واویلا، مذمت، ہڑتال اور اپیلیںکافی ہوچکی ہیں۔ اب مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
……………………..
بشکریہ ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر