نئی دہلی// نائب صدر جمہوریہ محمد حامد انصاری نے کہا ہے کہ ہمارے جیسے معاشرے کے لیے ایک ذمہ دار پریس کی ضرورت ہے۔ حامد انصاری ا?ج بنگلور میں نیشنل ہیرالڈ کے یادگاری ایڈیشن کے ا?غاز کے موقع پر اظہار خیال کررہے تھے۔ اس موقع پر کرناٹک کے گورنر وجو بھائی رودابالی والا کرناٹک کے وزیر اعلیٰ مسٹر کے سدارمیا اے ا?ئی سی سی کے نائب صدر راہل گاندھی اور دیگر شخصیات بھی موجود تھیں۔ نائب صدر نے کہا کہ ہندوستان میں صحافت کی تاریخ ہماری ا?زادی کی جدوجہد کی تاریخ سے کافی جڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پریس (ذرائع ابلاغ ) نے ہمارے عوام کو با خبر رکھنے اور ان میں بیداری پیدا کرنے میں ایک اہم رول ادا کیا ہے۔ نائب صدر نے کہا کہ پوسٹ ٹروتھ اور متبادل حقائق کے اس دور میں جہاں اشتہاری اداریہ اور جوابی فیچر اداریہ کی اہمیت کو ختم کردیتے ہیں ہم پریس کے نہرو کے ویڑن کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے جمہوریت میں ایک نگراں کی حیثیت سے اپنا رول ادا کیا اور ان اصولوں کی پاسداری کی جو ان کی صحافت کو بااختیار بناتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہماری ا?ئینی فریم ورک کے تحت ریاستوں کے ذریعے مداخلت کی گنجائش ہے تاکہ پریس اور معاشرے کے کام کاج کو یقینی بنایا جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان قوانین میں یہ گنجائش ہے کہ ریاستوں کی مذکورہ مداخلت بڑے پیمانے پر عوامی مفاد میں ہو۔نائب صدر نے کہا کہ جواہرلعل نہرو نے ایک ا?زاد ،ایماندار اور غیر جانبدار پریس کا تصور پیش کیا اور انہوں نے ا?زاد ہندوستان میں میڈیا کے افراد کے مفادات کی نگرانی کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ورکنگ جرنلسٹ ایکٹ جس میں صحافیوں کو بڑی حد تک تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور پریس کی ا?زادی کو یقینی بنایا گیا ہے، کافی حد تک ان کا ایک اہم کارنامہ ہے۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ہیرالڈ نے 1938 میں لکھنو? سے اپنی اشاعت شروع کی تھی اور جلد ہی یہ ا?زادی کی تحریک بن گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی صحافی محض خبریں فراہم کرنے والے نہیں تھے، بلکہ وہ مجاہدین ا?زادی اور سماجی کارکن بھی تھے۔جنہوں نے نہ صرف ہندوستان کو غیر ملکی تسلط سے چھٹکارا دلایا، بلکہ سماجی امتیاز، ذات پات، فرقہ پرستی اور بھید بھاو? سے بھی چھٹکارا دلایا۔انہوں نے کہا کہ 1865میں کانگریس کے بہت سے بانی ممبران صحافی تھے۔ ٹریبون، ہندوستان،لیڈر، سدھارک،کیسری ، اخبار عام، دی ہندو اور سودیش جیسے جریدے سب سے تحریک والے جریدے تھے، جنہیں تلک گھوکھلے سبرا منیا ایر ، لاجپت رائے، مدن موہن مالویہ اور اگرکر جیسے ممتاز لیڈروں کے ذریعے ایڈٹ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ گاندھی خود چھ جریدوں سے جڑے ہوئے تھے اور دو بہت بااثر ہفتہ وار اخباروں کے ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے کوئی اشتہار نہیں شائع کیا ، لیکن وہ ساتھ ہی ساتھ یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے اخبار نقصان میں چلیں۔ ینگ انڈیا اور ہریجن موضوعات پر ان کے خیالات کے سب سے طاقتور وسیلے بنے۔انہوں نے نائب صدر نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ نیشنل ہیرالڈ نے پرنٹ اور ڈیجیٹل فارمیٹس دونوں میں اشاعت دوبارہ شروع کی ہے۔