ایس معشوق احمد
اس روز آسمان پر گہرے گھنے بادل چھائے ہوئے تھے لیکن بارش اس سبب سے نہیں ہوئی کہ جب آنسو خشک ہوجائیں تو انسان کی طرح آسمان بھی بس چیختا، چلاتا اور گرجتا ہے اپنا غم ہلکا کرنے کے لئے بارش کی صورت روتا نہیں۔ نگین آپا نے اپنے سارے کپڑے پھاڑ دئیے تھے، بال نوچ رہی تھی اور سڑک کی جانب تیزی سے دوڈ کر جارہی تھی۔راستے میں اس ماتمی صورت حال کا سبب کسی نے اگر کچھ پوچھا بھی تو بدحواسی میں اور زور سے رونا شروع کردیتی اور تیزی سے سڑک کی جانب بھاگتی چلی جاتی۔
نگین آپا کی اکلوتی بیٹی نرگس تھی۔نرگس پورے گاؤں کی چہیتی تھی، ہر ایک کا احترام کرنے والی،کوئی اس کا چچا ،کوئی ماما ،کوئی دادا ،کسی کو ابا کہتی تو کسی کو انکل، کسی کو بھائی پکارتی تو کسی کو بیٹا ۔گاؤں والے بھی نرگس کی ہر حرکت ،ہر ضد اور ہر فرمائش کو پورا کرتے جیسے وہ نگین آپا کی بیٹی نہیں بلکہ پورے گاوں کی بیٹی ہو۔نرگس کی پیدائش کے دو سال بعد ان کے والد مقبول احمد کنواں کھود رہے تھے کہ اچانک زمین دھنس گئی اور وہ دب کر مرگئے۔ والدہ نے اپنی اکلوتی بیٹی کو بڑے لاڈ اور ناز سے پالا اور اسے کبھی والد کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ نرگس بھی بڑی پیاری اور سگھڑ تھی۔ اسی سبب سے وہ فقط نگین آپا کی بیٹی نہ تھی بلکہ پورے گاؤں کی بیٹی تھی بلکہ وہ ہماری نرگس تھی۔
علامہ اقبال کی ہر بات پر مجھے یقین ہے لیکن یہ بات میں ماننے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوں کہ ۔۔۔۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
نرگس بے نور نہ تھی بلکہ اس کا چہرہ دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ کوہ کاف کی پری زمین پر قدم رکھ رہی ہے۔میں نے نرگس کو کبھی روتے ہوئے نہیں دیکھا۔اسے کیا ضرورت پڑی کہ وہ اپنی بے نوری پہ روئے ۔وہ تو اتنی حسین اور خوبصورت تھی کہ دن کو گھر سے نکلے تو سورج شرمائے ،رات کو چھت پر آئے تو چاند کو لاج آئے۔ہمیشہ ہنستی مسکراتی اور ہر ایک سے خلوص سے پیش آتی۔ایک دن میں نے نرگس سے پوچھا تمہاری عمر کتنی ہے؟ پہلے شرمائی پھر ہنس کر بولی کہ انیس سال۔جو کچھ میں نے آنکھوں سے دیکھا وہی بیان کررہا ہوں۔ ہزاروں سال کی بات دور ہے وہ نازک کلی اگر پچھلے اٹھارہ برس سے روتی تو آج بوڑھی ہوتی اور چلنے پھرنے میں اسے دشواری آتی لیکن نرگس تو ایک جگہ رکتی ہی نہیں تھی ہوا کی طرح ہر جگہ موجود۔ کبھی باڑی میں مختلف سبزیوں کو پانی دے رہی ہے،کبھی اماں کے لئے کھانا پکا رہی ہے، کبھی ہمسائن کے چھوٹے بیٹے کو اسکول چھوڑنے گئی ہے تو کبھی دادی کے کپڑے دھو رہی ہے، کسی کے گھر بھی مہمان آئے ان کی خاطر تواضع میں نرگس نے کوئی کمی نہ چھوڑی ،کسی نے مدد کے لئے بلایا تو سب سے آگے نرگس ہے، کوئی چلنے میں دقت محسوس کررہا ہے تو اس کو سہارا دے رہی ہے ،کسی نے نرگس سے شکایت کردی کہ آج کام نے مجھے پچھاڑ دیا ہے تو نرگس پہلوان بن کر کام کو چاروں خانے چت کر رہی ہے،نرگس ہر کام میں ماہر تھی اور ہر ضرورت کی جگہ پہ حاضر رہتی۔
نرگس کو میں لاڈ سے نرس کہتا تھا۔ ہر ایک کی دیکھ بھال اور دلجوئی وہ ایک ماہر نرس کی طرح کرتی تھی۔کریم چچا بیمار ہوئے تو اس کے بیٹے اور بہو نے صاف انکار کیا کہ ہم اسپتال میں ان کی تیمارداری نہیں کریں گے۔ہمارے بچوں کو اسکول جانا ہے۔ہم گھر کو تالا لگا کر اسپتال میں نہیں رہ سکتے۔ بیٹا ناخلف نکلا تو نرگس نے والد کی طرح کریم چچا کی خدمت کی۔کریم چچا بچپن میں نرگس کو دو روپیہ دیا کرتا تو کبھی کوئی کھانے کی چیز یا مٹھائی اس کے لئے لاتا۔اس انس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لگاتار ستائیس دن تک نرگس اسپتال میں کریم چچا کے سرہانے اس کی خدمت گار بن کر رہی۔اسپتال میں جب نرگس خود بیمار پڑ گئی اور نیند کی کمی سے آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑے تو زبردستی اس کو گھر لایا گیا۔کچھ دن بیمار رہنے کے بعد نرگس پھر پھول کی طرح چمک رہی تھی اور کسی اور کی مدد اور تیماداری کے لئے تیار۔
نرگس کی شادی ہوئی تو پورے محلے سے رخصت لے کر وہ سسرال گئی۔ وہ خوش تھی مگر شاید اس راز سے بے خبر کہ خوشی مہمان کی طرح چند روز رہتی ہے۔کہتے ہیں اچھے لوگ دنیا سے جلد جاتے ہیں۔شادی کے لگ بھگ دو ماہ بعد اس خبر نے نہ صرف اس کی ماں کو پاگل بنا دیا بلکہ پورے علاقے میں صف ماتم بچھا دی کہ نرگس اور اس کے شوہر کے ساتھ حادثہ پیش آیا ہےجس سے دونوں نے سڑک پر ہی دم توڑ دیا۔لوگ جوق در جوق اس کی ماں کے پیچھے پیچھے وہاں پہنچے جہاں موٹر سائیکل کو ٹرک نے ٹکر ماری تھی۔نرگس سڑک کنارے مردہ پڑی تھی۔ لگتا تھا وہ بڑے تحمل اور سکون سے سوئی ہے۔اس کا نورانی اور مسکراتا چہرہ دیکھ کر لگتا تھا کہ اس نے مسکرا کر موت کا استقبال کیا ہوگا۔کیسے کیسے حسین اور ہنستے مسکراتے چہروں کو موت نے خاموش کردیا لیکن ان کی مسکراہٹ اور قہقوں کی یادیں ہزاروں دلوں میں تازہ ہیں۔مجھے کبھی کبھار لگتا ہے کہ نرگس ابھی آئے گی اور کریم چچا کو آواز دے گی کہ کتنے گندے کپڑے پہن رکھے ہیں ان کو جلد نکالو میں دھو دیتی ہوں ۔نہیں بیٹا رہنے دو ابھی کل ہی دھوئے ہیں تم تھک گئی ہوگی،آرام کرو۔نکالتے ہو کہ ابھی یہ میلے کپڑے پھاڑ دوں۔
���
موبائل نمبر؛8493981240