وادیٔ کشمیر میں طویل عرصے سےچلی آرہی غیر یقینی صورت حال کے دوران وادیٔ کشمیری کی نوجوان نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد جن بُرائیوں اور خرابیوں کا شکار ہو چکی ہے ، اُن کے بھیانک نتائج اب وقفہ وقفہ کے بعد ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔بے شک جہاں دُنیاوی اُلجھنوں اور مسائل کے شکنجوں نے کشمیریوں کو ایک شدید عذاب سے دوچار کرکے رکھاہے ، وہیںخود پرستی،جابہ جا اندیشوں،غیر اخلاقی جذبوںاور بے کرداری نے لوگوں کو ہمہ وقتی ذہنی کشیدگی میں مبتلا کردیا ہے،جس کے نتیجے میں نہ صرف مہلک امراض سامنے آرہے ہیں،المناک رودادیں سُننے میں آتی ہیں بلکہ دل دہلانے والے مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ چوری ،رشوت ،ناجائز منافع خوری،چھینا جھپٹی اورسینہ زوری کی آماجگاہی میں بیشتر لوگ جامۂ انسانیت نوچنے میں بھی مشغول رہے،جس سےہر سُو خدا طلبی کے بجائے دُنیا طلبی کا ہی دور شروع ہوا،بالشت بھر پیٹ نےزندگی کی ساری وسعت گھیر لی ،مغربی علوم و تہذیب کا اثرایسا غالب ہوا کہ آخرت کا خیال تک بھُلاکے محض دنیاوی زندگی کی اہمیت اور کشش بڑھتی گئی اوربدعتوںو رسم و رواج کا سلسلہ عام ہوگیا۔گویاپوری وادی کے لوگ خواہش پرستی کی ادنیٰ سطح پر گِر کر درندوں اور چوپایوں کی زندگی جی کر زمانۂ جاہلیت کی یاد تازہ کرنے میں مصروف ہوگئے۔ جس کے نتیجے میںہر وہ بُرائی اور خرابی گھر گھرمیں پنپ کر پروان چھڑی،جن سے اب ہمیں چھٹکارا حاصل نہیں ہو پارہا ہے۔ منشیات کے دھندے اور اُن کا استعمال جس بڑے پیمانے پھل پھول چکا ہے، اُس کے عبرت ناک نتائج بھی ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں اورکشمیری معاشرے ہزاروں نوجوان مختلف جسمانی و ذہنی بیماریوں میں مبتلا بھی ہوچکے ہیں، پھر بھی یہ دھندہ شدو مد سے جاری ہے،جرائم کا تناسب بڑھ رہا ہے اور دیگر سماجی بُرائیوںکو بھی فروغ مل رہا ہے۔ حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ اب اس گھنائونے کاروبار پرقابو پانا یہاں کی انتظامیہ کے لیے بھی بڑا چیلنج بنا ہوا ہے ،اور یہ ہلاکت خیز زہر محکمہ انسدادِ منشیات کی غفلت ، نا اہلی یا چشم پوشی کے باعث تواتر کے ساتھ ہر جگہ پر بہ آسانی پہنچ رہا ہے ۔حالانکہ اسے روکنے کی اول ذمہ داری پولیس پر ہی عائد ہوتی ہے،جبکہ سیاسی ،دینی، سماجی اداروںو معاشرہ کے متحرک افراد کو بھی اس کی سنگینی پر غور کرتے ہوئے نوجوان نسل کو تباہی سے بچانے کے لیے عملی کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وادیٔ کشمیر یہ سب کچھ ایک مخصوص منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے کیونکہ لوگ لالچ میں گرفتار ہیں اور نام نہاد ترقی کے لئے سب کچھ گوارا کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اگر چہ ہر کوئی شخص یہ بات ضرور محسوس کرتا ہے کہ معاشرے میں خرابیاں اور بُرائیاں پھیل جانے سے ہمارا کافی نقصان ہوچکا ہے اور بدستور ہورہا ہےلیکن پھر بھی خرابیوں و بُرائیوں کو روکنے کے لئے کمر بستہ نہیں ہورہاہے بلکہ ہر بات کو وقتی طور پر تماشا بنا کر چُپ سادھ لئے رہتا ہے۔کیا یہ ہماری بد بختی نہیں ہے کہ ہمارے طرزِ عمل میں خود پسندی سے زیادہ نفس کی سرکشی کا بڑادخل ہے،تعاون کا فقدان ،معاشرے کے معاملات سے لا پرواہی،اپنے اپنے محلے اور اپنی اپنی بستی،جس میں ہم رہتے ہیں، جس ملت سے ہم وابستہ ہیںاور جس پیغام کے ہم علمبردار ہیں،اُن سب سے عدم دلچسپی کا کھلم کھلا مظاہرہ کررہے ہیں۔ کیا یہ ہمارےیقین کی کمزوری اور منافقت کی علامت تو نہیں ہے؟جبکہ لوگوں کی ایک بڑی تعدا دبدستور اپنےمخصوص مطلب کی ہی حدود میں زندگی گزارنے میں مشغول ہے۔جس سے عیاں ہوجاتا ہےکہ ہم اپنے فرائض کی ادائیگی سے موڑ رہے ہیںاور کوئی بھی بوجھ اپنے کاندھے پراُٹھانے کے لئے تیار نہیں۔ایسے ناقص طرز عمل سے کوئی بھی معاشرہ یا کوئی بھی قوم اپنے کسی بھی مقصد میںکامیاب نہیں ہوسکتی ہے،اوراسی طرزِ عمل کے تحت ہم نے ہر اہم مسئلے کو معمولی بات سمجھ کر اپنے گھروں کے ماحول کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہےکہ نڈر اور بے باک ہوکر ایک ایسا ماحول تیار کیا جائے،جس میں ہر فرد اپنا کردار فرض سمجھ کر ادا کرسکے،اپنی ذمہ داری کا بوجھ اپنے کاندھے پر محسوس کرےنہ کہ اُس سے فرار کی راہ تلاش کرنے میں جٹ جائے،تاکہ ہماری دنیا بھی ٹھیک رہے اور ہمارا دین بھی۔