ارض جموں و کشمیر ایک لمبے عرصے سے استحصالی عناصر کا بُری طرح سے شکاررہی ہے۔۱۹۴۷ء سے قبل بھی ڈوگرہ حکمرانوں کی جانب سے غریب عوام کے ساتھ استحصالی رویہ قائم تھا اور ۴۷ ء کے بعد بھی متواتر کٹھ پتلی حکومتوں نے جموں کشمیر کے مظلوم و محکوم عوام کو اپنے دام فریب میں مبتلا کر کے مختلف بہانوں سے بہلا پھسلا کر استحصال کرتی رہی ۔مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا ہر ایک فعل جو قوم و ملک کی بھلائی کے لئے اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل میں لایا جائے، وہ عبادت کے زمرے میں آتا ہے اگر خلوص ، مروت ، خدا خوفی ، روشن ضمیری سے یہ کام کیا گیا ہو ۔کوئی بھی کام یا شغل جوزندگی کے کسی بھی شعبہ سے جڑا ہومثلاً سیاسی ،سماجی ،معاشی،تعلیمی،طبی وغیرہ، اگر ہم بطور مسلمان ان سارے شعبہ جات میں اپنی خدمات اسلام کی تعلیمات کے مطابق انجام دیں تویقینا ہماری کامیابی کے دروازے اس دنیا میں تو کھلیں گے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ آخرت کی زندگی میں بھی ہمیں اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخروئی نصیب ہوگی۔
وہی ملک و ملت ترقی کی راہ پر گامزن ہوا کرتی ہے جو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک حاصل کرکے صیح معنوں میں اُنہیں ادا کرنے کی فکر کرے۔چونکہ جموں کشمیر کے عوام ایک عرصہ سے سیاسی، سماجی اورمعاشی سطح پر بدترین استحصال کا شکار چلے آ رہے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کی ہر ایک چیزمتاثر ہوئی ہے۔شعبہ تعلیم و طب انسانی زندگی کا جز و لاینفک ہے۔ یہ دو ایسے شعبہ جات ہیں کہ اگر یہ صحیح ڈگر پر چلیں تو انسانی زندگی صحیح خطوط پر چل سکتی ہے لیکن اگر ان دونوں شعبوں میں دھاندلی اور کرپشن کا عنصر شامل ہو تو انسانی زندگی بدترین بد حالی کا شکار ہو جاتی ہے۔
ہماری ریاست جموں و کشمیر میں شعبہ تعلیم ایک مفلوج اور ناکارہ شعبہ بن کر رہ گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شعبہ تعلیم کو لے کر بھی سیاست کھیلی جاتی ہے اور ہمارے ’’ زیرک اورویر ‘‘سیاست دانوں نے ہر بار اپنے حقیر مقاصد کی خاطراس شعبہ کو استعمال کیا ہے ۔اس کا براہِ راست اثر شعبہ تعلیم سے جڑی مختلف سرگرمیوں سے ہوتا ہے، اس سے طلبہ کے سوچنے اور کچھ نیا کرنے کی صلاحیتیں مفلوج ہوکر رہ جاتی ہیں اور بحیثیت مجموعی ایک خراب صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔
ریاست کا دوسرا اہم شعبہ صحت کا شعبہ ہے۔اس شعبہ کا سب سے اہم حصہ ڈاکٹر صاحبان ہیں جن کے پیشہ کو ایک نازک اور مقدس پیشہ قرار دیا جاتا ہے۔اس پیشہ کی اہمیت و افادیت اس وقت اور بڑھ جاتی جب کسی ملک و ریاست میں ہر روز سینکڑوں بیمارا ور زخمی پہنچ جائیں، ہزاروں لوگ نامساعدحالات و واقعات کی وجہ سے ذہنی بیماریوں کا شکار ہو جائیں ، غربت اور مفلوک الحالی اپنے پنجے گاڑ تی جائے ،جہاں پر انسانوں کا بے دریغ قتل عام کیا جا رہا ہو ،جہاں معصوم بچوں کی آنکھوں سے پیلٹ اور سینوں سے گولیاں نکالی جا رہی ہوں ،غرض جہاں ہرطرف سے انسانیت مجبور و مقہور ہو، وہاں پر شعبہ ٔ طب وجراحت کی عظمت ہزار گناہ اور زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔ اس شعبہ کی عظمت و وقعت کو مد نظر رکھتے ہوے جو لوگ یا ڈاکڑ صاحبان انسانیت کی ان ساری اندوہناک پریشانیوں کو سمجھ کر اپنے پیشے کا صحیح اور ایماندارانہ استعمال کرتے ہیں ،تو میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ قوم کبھی غموں و پریشانیوں سے مار نہیں کھائی گی ۔اگر ہم اسلام کی نظر سے دیکھیں تو اسلام میں ہر ایک وہ کام عبادت ہے جس کو اسلامی اصولوں کے مطابق انسانیت کی بقاء کے لئے استعمال کیا جائے ،چاہے وہ اُستاد ی جیسا پیغمبرانہ کام ہو یا ڈاکٹری جیسا عظیم المرتبت کام ہو، وہ چاہے گلی کوچوں کی صفائی ستھرائی ہو یا مجبوروں اور ناداروں کو ضروریات زندگی بہم پہنچانے کی سعی و کاوش ہو، یاچاہے وہ حکومت کی کرسی پر براجمان ہو کر لوگوں کے مصائب و مشکلات کو دور کرنے کی جدوجہد ہو،یہ سب ایسے کام ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہیں۔اب جو کوئی من چلا اپنی امانت شدہ صلاحیتوں کو اللہ کی مرضی اور انسانیت کی بہی خواہی میں بروئے کار لائے،ا س کےلئے اجر و ثواب کا کیا ٹھکانہ، لیکن جوان پیشوں کو اپنے حقیرذاتی مفادات کے لئے استعمال میں لائے، اپنے فرض کو فراموش کر کے ان کا ناجائز استعمال کر بیٹھے، تو دنیا میں وہ کسی باز پرس سے بچ بھی جائے لیکن آخرت اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے وہ بچ نہیں سکتا۔
شعبہ طب میں ڈاکٹر صاحبان اور نیم طبی عملے کا ایک اہم رول ہوتا ہے ۔میں نے بچپن میں اور آج بھی اپنے بڑوں کی زبانی یہ سوال سنا ہے کہ آپ بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہیں؟ اکثریت اُن بچوں کی ہوتی ہے جن کا جواب یہ ہوتا ہے کہ میں ڈاکڑ بنناچاہتا ہوں تا کہ میں غریبوں کا مفت علاج کر سکوں۔میرا ماننا ہے کہ موجودہ ڈاکٹر سے بھی اُن کے بچپن میں جب یہ سوال پوچھا گیا ہو گا تو ان کا جواب بھی یہی رہا ہو گا کہ میں غریبوں کا مفت علاج کرنا چاہتا ہوں، میں انسانیت کی خدمت کرنے کا خواہش مند ہوں وغیرہ وغیرہ لیکن میری دانست اور مشاہدات کے مطابق آج تک میں نے ایسے ڈاکٹر صاحبان دیکھے ہیں جو اپنے پیشہ کو عبادت اور خدمت خلق کا پیشہ سمجھ کر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔میں ڈاکٹر صاحبان کی عزتوں کو اُچھالنا نہیں چاہتا ہوں مگر میں چند مسائل کی طرف ان کی اور حکومت وقت کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔
اس موضوع پر قلم اُٹھانے کے لئے راقم کو حال ہی میں پیش آئے ایک واقعہ نے اُکسایا۔ چند روز قبل راقم صحت کی ناسازی کی وجہ سے سرینگر میں ایک مشہور و معرف ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر چلا گیا اور نمبر وغیرہ حاصل کرنے کے بعدایک لمبی قطار میں اپنی باری کے انتظار میں کھڑا ہو گیا۔اس لمبی قطار میں مرد خواتین، بزرگ نوجوان سبھی کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ راقم اس سارے منظر کا جائزہ لینے لگا۔ چونکہ ہم سارے مریض تھے اور کسی نہ کسی تکلیف کی وجہ سے ہی اس لمبی چوڑی قطار میں کھڑا ہونے کے لئے مجبور تھے۔ قطار کی صورت یہ تھی کہ کچھ مریض سیڑھیوںاورکچھ راست فرش پر بیٹھے ہوئے تھے۔ایسا لگ رہا تھا کہ یہ لوگ کسی ایسی جادوئی ہستی کے انتظار میں ہیں کہ اُس پر ایک نظر پڑتے ہی ان کے سارے امراض ٹھیک ہو جائیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا بلکہ تین سو روپے فیس ادا کرکے یہ لوگ ایک ڈاکٹر صاحب کا انتظار کر رہے تھے ۔ کلینک کے اندر ہی مریضوں کی ’’سہولت ‘‘ کے لئے ایک دوائی دوکان بھی سجائی گئی تھی جس میں ایک شخص مریضوں کے ساتھ ایسے پیش آ رہا تھا کہ جیسے کسی تھانے کا داروغہ ہو ۔آخر ایک لمبے انتظار کے بعد میری باری آ ہی گئی اور یوں مجھے ڈاکٹر صاحب سے ملنے کا شرف حاصل ہوا کیونکہ ایک لمبی بھیڑکے علاوہ ڈاکٹر صاحب کو اثر ورسوخ والے مریضوں کا بھی خاص خیال رکھا جاتا تھا۔اندر جاتے ہی میں نے ڈاکٹر صاحب کو اپنی صحت کی ناسازی کے متعلق معلومات دینا شروع کیں، ڈاکٹر صاحب نے فوراً اپنے قلم اور کاغذ کو جنبش دی اور فٹ سے نسخہ پر تین ٹیسٹ کروانے کا حکم لکھ دیا۔موصوف ڈاکٹر نے نسخہ کے کنارے پر ایک پرائیوٹ کلینک کا نام بھی لکھ کر وہی ٹیسٹ کروانے کا کہا۔میری وہاں موجودگی کے دوران میں نے یہ بھی دیکھا کہ خال خال ہی کوئی مریض ہو جسے ٹیسٹ کروانے کا حکم نہ دیا جا رہا ہو ۔بہر کیف ٹیسٹ کرنے کے بعد میں نے ڈاکٹر صاحب کو رپورٹس دکھائیں اور جواباً انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ بالکل ٹھیک ہیں ۔اسی دوران میں ڈاکٹر صاحب کے کلینک سے باہر آیا اور میں نے دیکھا کہ ایک بیمار کھڑا ہے اور کلینک میں بیٹھے ایڈنڈنٹ کی منت سماجت کر رہا ہے کہ اُسے ٹیسٹ دکھانے کے لئے ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں جانے دیا جائے لیکن ایڈنڈنٹ مریض کو محض اس لئے اندر جانے سے روک رہا تھا کہ بجائے کلینک کے اُس نے گورنمنٹ ہسپتال سے ڈاکٹر صاحب سے رجوع کیا تھا اور ہسپتال سے جڑے کام ہسپتال میں ہی ہوا کرتے ہیں۔ایڈنڈنٹ نے مریض سے مزید کہا کہ ڈاکٹر صاحب ہسپتال ابھی نہیں جا سکتے کیونکہ وہ ایک ماہ کی چھٹی پر ہیں۔یہ سب سن اور دیکھ کر ہی میرے پائوں تلے جیسے مٹی نکل گئی ہوکہ کس طرح مریض کو اُنھوں نے مزید تکلیف میں مبتلا کر کے ایک ماہ بعد ڈاکٹر صاحب سے رجوع کرنے کو کہاجب کہ ڈاکٹر صاحب وہی کلینک کے ایک کمرے میں کرسی پر بہ نفس ِ نفیس براجمان تھے۔
مکرم قارئین !مندر جہ بالا واقعہ ہمارے سماج کی ابتر حالت کو بیان کرتا ہے۔چند ہفتہ قبل کا ہی ایک اور واقعہ ہے ہم سب نے اخبارات میں دیکھا ہوگا کہ SKIMS میں ایک ڈاکٹر صاحب نے مریض کو ایک ٹیسٹ کے لئے پرائیوٹ کلینک پر بھیجا۔میرے ایک دوست نے یہاں تک کہا کہ کچھ فرض ناشناس ڈاکٹر صاحبان ڈیمانڈ پر دوائیاں منگواتے ہیں اور انہی کے ذریعے زیادہ تر جعلی دوائی کمپنیوں کا ناجائز کارو بار کشمیر میں چلتا ہے ۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ کشمیر کو قدرتِ کاملہ نے انسان دوستی اور خداخوفی کے حامل لاتعداد ذہین ، فرض شناس اور دست ِ شفا رکھنے و الے ڈاکٹر عطاکئے ہیں جن کے ملکوتی صفات ، عمدہ پیشہ وارنہ اور نرم خوئی کے اپنے اور غیر ہر ایک معترف ہے ، مگر معدودے چندمادیت پرست ڈاکٹروں نے طب وجراحت کے مقدس تالاب کو گنداکرڈالا ہے ۔ فرض شناس ڈاکٹروں کی عزت افزائی کی ضرورت سے میں کوئی دورائے نہیں جب کہ ایک اور ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت غلط کار عناصر کو شعبہ طب میں اپنی سیاسی سرپرستی دینے اور اپنے چہیتوں کے حقیر مفادات کو بالائے طاق رکھ کر غریب عوام کے طبی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی فکر کرے ۔ اس حوالے سے شعبہ تعلیم کے ساتھ ساتھ طب کے شعبہ پر سنجیدہ دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔جس طرح سے حکومت نے پرائیوٹ ٹیوشن پر پابندی یا وہاں پر پر طلبہ کے لئے ہر ایک سہولت کا ہونا لازم قرار دیا ہے عین اُسی طرح سے پرائیوٹ کلینکس پر بھی مریضوں کے لئے ہر سہولت کا ہونا ضروری قرار دیا جائے،ایک گھنٹے کے لئے مریضوں کو دیکھنے کی تعداد کو مقرر کیا جائے ،سرکاری ہسپتالوں میں بھی مریضوں کو ہر سہولیت بہم پہنچائی جائے۔ساتھ ساتھ ان مٹھی بھر ڈاکٹر صاحبان پر لگام کسی جائے جو اپنی ڈیوٹی کو چھوڑ کر پرائیوٹ کلینکس میں بیٹھے غریب لوگوں کے خون پسینے کی کمائی کو دو دو ہاتھ بٹورتے ہیں۔ ایسے مٹھی بھر ڈاکٹروں کے خلاف بھی سخت سے سخت اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے جو جعلی کمپنیوں کی دوایاں لکھ کر غریب عوام کی زندگیوں کے ساتھ کھیلتے ہیں ۔حکومت کو چاہیے کہ وہ دیگر آوپریشنز کے حوالے سے سنجیدگی دکھاتی ہے بالکل اُسی طرح غریب عوام کو اذیت دینے والوں کے خلاف بھی ایک محاذ کھڑا کر دیا جانا چاہیے اور جو غریب عوام کو علاج کے نام پر موت کے مُنہ میں دھکیل رہے ہیں۔ اُن عناصر کے خلاف سخت سے سخت اقدامات کئے جائیں۔ امید کامل ہے کہ متعلقین میری ان گزارشات کو بغور پڑھیں گے اور غریب عوام کی اس حالت زار پر رحم کھاتے ہوئے اصلاح احوال کے لئے قرارواقعی پالیسی اور ایکشن پلان وضع کریں گے ۔ اُمید واثق رکھتا ہوں کہ حکومت وقت اس حساس مسئلہ کو سنجیدگی سے لے کرسیاست گری کے بجائے اس کو حل کر نے کے لئے ٹھوس اندزا مین حرکت میں آئے گی تا کہ کشمیر کے مریضوں کو استحصالی عناصر کے چنگل میں آنے سے کسی حد تک راحت مل سکے ۔
رابطہ نمبر۔8492862632