دورِ حاضر میں روز افزوں انسانی زندگی کے لئے بڑھتے ہوئے مسائل اور مشکلات سے اب یہ بات نمایاں ہوتی جارہی ہے کہ حضرتِ انسان نے ہی اپنی بے ترتیب طرزِ حیات سے اس زمین کو اس قدر ناگوار اور اذیت ناک بنالیا ہے کہ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی یہ زمین انسانی زندگی کے لئے اطمینان و سکون ،خوشحالی اورصحت و تندرستی کے لئے کارآمد ثابت نہیں ہورہی ہے۔ بے شک اس وقت مختلف ممالک کو جو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے ،وہ خطرہ ماحولیاتی ہے۔ہماری اس وادیٔ کشمیر میں بھی اس ضمن میں شدت کےساتھ مسائل میں بڑھتا ہوا اسموگ، حد سے زیادہ آلودہ ہوا، کوڑا کچرے کو ٹھکانے لگانے کے نظام کی بڑھتی ہوئی ناکامی ، سیلاب اور اربن فلڈنگ کے بڑھ رہےلاحق خطرات، گلیشیئرز کا پگھلنا، موسموں کے انداز میں تبدیلی، شدید گرمی اور منجمند کرنے والی سردی کی لہریں،پانی کی بڑھتی ہوئی قِلّت،کاشت کاری کے روایتی طریقے، زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تنزّلی سے ہر سال معیشت کا بڑے پیمانے پر نقصان ہورہا ہے اور اس میں بہ تدریج اضافہ ہو تا جارہا ہے، جس سے دیگر مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔اگرچہ حکومتی سطح پر قومی موسمیاتی پالیسی ترتیب دی جاتی ہیں ،لیکن صد افسوس کہ ان پر صحیح معنوں میںاور بہتر طریقوں پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے۔ حکومت نے درخت لگانے کی بھی مہم شروع کی تھی جو تا حال کامیاب ثابت نہیں ہوسکی ہے،جس کے نتیجے میںجنت بے نظیر کہلانے والی اس وادیٔ کشمیر کی صاف و شفاف فضائیں اور صحت بخش ہوائیںزہریلی ہو چکی ہیں۔ ندیاں، چشمے اور دریابدبودار ہو چکے ہیں، زہریلی گیسز اور دھوئیں نے آسمان کے محفوظ خطوں کو پھاڑنا شروع کردیا ہے۔خوف ناک بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ فصلوں کی پیداوار، اناج کی غذائیت اور مویشیوں کی پیداواری صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کاشت کے اوقات اور نشوونما کے مراحل کے حساب سے مختلف فصلوں پر مختلف ہوتے ہیں،اور جب گرمیوں میں درجہ حرارت تھوڑے عرصے کے لیے شدت اختیار کرتاہے تواس سے بھی یہاں کی فصلیں متاثر ہوجاتی ہے۔گردوغبار اور دُھواں چھوڑتی گاڑیاں بھی ماحول میں ایسی گیسز بڑھانے کا سبب ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں۔ جگہ جگہ ٹریفک جام، ٹو اسٹروک رکشوں، پرانی گاڑیوں کا دُھواں بھی فضائی آلودگی کا باعث بن رہی ہیں۔صنعتوں سے مضرِ صحت کیمیائی مادوں کا اخراج، شہروں اور دیہات میں آبادی کے نزدیک کھلے گندے نالے، نہروں اور دریاؤں میں بغیر ٹریٹمنٹ کےڈالا جانے والا آلودہ پانی ہیپاٹائٹس، پیچش، ٹائیفائیڈ اورکینسر جیسے امراض کا باعث بن رہا ہے،زراعت میں استعمال ہونے والے زہریلے اسپرے ، نقلی ادویات اور کھادیںایک اور مصیبت ہیں۔اسی طرح جنگلات میں آگ لگ جانے سے بھی فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے جس کا براہِ راست اثر جنگلی حیات پر بھی پڑ رہا ہے، جنگلی جانوروں کی تعداد کم ہو رہی ہے اور کافی حد تک ان کی نسلیں ختم ہو رہی ہیں،نیز آکسیجن کی کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی کا باعث بن رہا ہے،جبکہ جنگلات کی کمی سیلاب کا باعث بنتی ہے۔چنانچہ زمین کی اس صورت حال سے اوزون کی تہہ فضائی آلودگی کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے، جو زمین پر انسانی زندگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہورہی ہے۔گویا جب انسانوں کی غلط طرز معاشرت اور غیر فطری عوامل کے استعمال سے فضا کے فطری انداز کو مختلف طریقوں سے تبدیل کیاگیا تو یہ فضاء اس کیفیت تک جا پہنچی کہ جس سے اب فائدہ سے بڑھ کر نقصانات ہونا شروع ہوئے ہیں۔تعجب خیز امر یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود آج بھی ہمارے یہاںکے لوگوں کی سوچ بدل نہیں رہی ہے،وہ لکیر کے فقیر بن کر وہی کچھ کررہے ہیں جو وہ عرصۂ دراز سے کرتے چلے آرہے ہیں،صنعتی، حیواناتی اور انسانی فضلہ جات کو سُکڑتی آبی گزر گاہوں ، ندیوں اور نہروں میں پمپ کرتے رہتے ہیں۔کوڑا کرکٹ،کیچڑ و غلاظت دریائوں میںڈال دیتے ہیں، جو پانی کی آلودگی کا اہم سبب بنتا جارہا ہےجبکہ زرعی اور کیمیاوی ادویات اور کیمیکلز بھی پانی کو آلودہ کرتے ہیں اور اس ساری صورت حال پر کنٹرول پانے کے لئے حکومتی اعلانات اوراقدامات ہاتھی کے دانت کھانے کے اور اور دکھانے کے اورہی ثابت ہورہے ہیں ۔الغرض جب تک ان تمام تر آلودگیوں پر مکمل طور پر روک نہیں لگائی جاتی اور اس کے متعلق جامع احکام اور تعلیمات نہیں دئیے جاتے،تب تک ہماری یہ زمین ہماری زندگی کے لئے چین وسکون ،ترقی ،خوشحالی اور تندرستی کا ضامن نہیں بن سکتی ہے۔