میرے کہنے کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہے کہ زمانے میں ہر اعتبار سے آگے بڑھنا اور ترقی کرنا گناہ ہے اور ترقی یافتہ ہوکر ترقی یافتہ زمانے کے ساتھ دوش بدوش کھڑا ہونا تبرا ہے ۔ نہیں، بلکہ آپ ضرور بہ ضرور موجودہ ترقی یافتہ زمانے کے فیوض و برکات سے مستفید ہوتے رہئے ،مگر اپنی تہذیبی اور تمدنی وراثت کو ہاتھ سے جانے دینا یا اُس کی طرف توجہ نہ دینا التفات نہ کرنا دانش مندی نہیں ہے ۔اپنی زبان کو فراموش نہ کریں یا کم از کم اسے کم ترنہ سمجھیں ۔ ماں اپنی آغوش میں لے کر جس زبان میں لوری دے کر ہمیں میٹھے میٹھے سپنوں کی دنیا میں لے کر آتی تھی اور جس نے گھٹنوں کے بل کھڑا کرکے چلنا سکھایا بلکہ دادی نانی اماں نے جس زبان میںچھوٹی چھوٹی کہانیاں سناکر ہمیں زندگی کی اولین سوجھ بوجھ دی ،کیا وہ زبان ناقص ،ناکارہ یا کم تر ہوسکتی ہے ؟یا اُس کے بولنے ،برتنے سے ہم غیر متمدن بن سکتے ہیں؟مادری زبان ایک انسان کے لئے ماں کی آغوش اور ذاتی پہچان ہے ۔ایک عجیب بات اس حوالے سے عرض کرنا چاہوں گا جس طرف اکثر لوگوں کا بہت کم دھیان جاتا ہے ،وہ یہ کہ اگر آپ نے پوسٹ گریجویشن ،پی ایچ ڈی ،کوئی پیشہ ورانہ تربیت یا کوئی بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہو،بے شک آپ کشمیری زبان میں بات نہ کرتے ہوں ،آپ کا اوڑھنا بچھونا اُردو ، انگریزی یا کوئی اور زبان ہو مگر جب آپ سوچتے ہیں تو آپ صرف اور صرف کشمیری یعنی اپنی مادری زبان میں ہی سوچتے ہیں کیونکہ آپ کی اپنی مادری زبان آپ کی رَگوں میں خون کے ساتھ ساتھ دوڑ رہی ہے ،البتہ صورت حال اب دگرگوں ہونے لگی ہے ۔وہ اس طرح کہ جب پیدا ہوتے ہی یا مان لیجئے کہ دو ، ڈھائی سال کی عمر میں آپ نے بچے کو سکول میں بٹھایا ، وہاں کوئی بھی بچہ یا ٹیچر مادری زبان بولتا تو ہے نہیں ۔ گویا آپ کے بچے کی بنیادی زبان وہی ملی جلی اُردو ہندی کشمیری ہوگئی ،تو بڑا ہونے پر وہ کشمیری میں نہیں بلکہ اُسی زبان میں سوچے گا جو اُسے شروع سے ہی ملی ہوگی ۔ایسی صورت حال میں ہمیں پچیس سال کے اندر ایسی ایک پوری کی پوری نسل (Generation)کشمیری ہوکر بھی اپنی مادری زبان سے غیر واقف ہوگی اور پھر آگے———–آگے کے لئے آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
میرا یہ بھی ماننا ہے کہ ہماری سماجی ترقی اور معیار زندگی کی تبدیلی کی وجہ سے بھی ہماری مادری زبان بے حد متاثر ہوچکی ہے ۔میں ایک چھوٹی سی مثال دے کر اپنی بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا ۔شہروں ،قصبوں بلکہ گائوں کے پنتیس چالیس سال کی عمر کی لوگوں کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ آج سے پچیس تیس سال قبل تک شہرودیہات میں لوگ کھانا اور چائے وغیرہ کے لئے چولہا جلاکر تیار کرتے تھے ۔دور دور گائوں،کنڈی علاقوں ، جنگلوں سے متصل بستیوں میں چولہا یقیناًآج بھی جلایا جاتا ہوگا ۔چولہا سُکھا ئے گئے گائے بھینس کے گوبر ،برادہ،پھونس ،جھاڑی ،ٹہنی اور لکڑی سے جلتا تھا ۔ایک اوسط درجے کے گھر کے کچن یا باورچی خانے میںاُسی جگہ سے وابستہ ہماری نظروں میں کم و بیش مندرجہ ذیل چیزیں آجایا کرتی تھیں۔
دان،گگ،ٹُل،وُور،چُمٹہ،کروژھ،دُوکہ رُن،اوکہ ژور،گرہ ونجہ،نوٹ، چونچہ،ڈُل، کرینجُل،دیگُل،لیٔج ،ہُور لیج ،مَل فش،پیالہ نعور،چایہ ِچونچہِ،ٹور،بُش قابہ، نا ٔ ر ، سِن ٹور،کاشوہ،بانہ پھوت،وغیرہ وغیرہ۔
اس کچن سے وابستہ جو جگہ اُس کے ساتھ بیٹھنے کے لئے ہوتی تھی، جہاں اکثر گھر کے لوگ کھانا کھاتے یا چائے پیتے تھے ،کچھ اور بھی چیزیں ہماری نظروں میں رہتی تھیں،مثلاً
چولہے کے پیچھے گرم پانی کی ٹینکی جو کمہار کی پکائی ہوئی مٹی کی اور آسودہ حال گھرانوں میں تانبے کی ہوتی تھی اور عام طور پر گھروں میں وہی گرم پانی کا سادھن ہوتی ،تھی جسے مئٹ کہتے تھے ۔۔۔ اس کے علاوہ پَتِج،واگوَ،ژین گج،راد،دوہی مور،زِیُون،حَطَب ، زنگُل،کایُر،سرانہ کُٹھ،وغیرہ۔یہ میں نے گھر اور گھر کے آس پاس کی چیزوں بلکہ ساری سوسائٹی کو چھوڑ کر صرف گھر کی ایک چھوٹی سی جگہ یعنی کچن کی بات کی۔یہ ساری چیزیں یا ان میں سے بیشتر اس وقت سکولوں ،کالجوں اور دوسری دانش گاہوں میں زیر تعلیم بچوں نے جب دیکھی ہی نہیں ہیںاور زبان پر سے اُتر گئیں ہیں اور آنے والی نسلوں کو وہ معلوم ہی نہ ہوں گی تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اشیاء معدوم ہوکر زبان سے ہی خارج ہوجائیں گی ۔ایک صدی کے اندر اندر جب وہ الفاظ دُہرانے والے،بولنے والے اور سمجھنے والے ہی نہ ہوں گے تو ظاہر سی بات ہے کہ زبان گئی——-سو گئی—–کیونکہ زبان تب ہی زندہ ہے جب اُس کے بولنے اور برتنے والے ہوں۔
کشمیری زبان کے ساتھ ایک اور زیادتی یہ بھی ہوئی کہ کافی عرصہ تک اس کا رسم الخط بھی مقرر نہ ہوسکا ۔ابتداء میں ایک ایسا خط رائج تھا جس میں کتابیں چھپتی تھیں بلکہ مختلف شعراء کے کلام بھی چھوٹے چھوٹے مجموعوں کی صورت میں بازار میں آتے تھے ،بعد میں جب ہم تیسری یا چوتھی جماعت میں پڑھتے تھے تو ایک نیا خط متعارف ہوا مگر وہ جلدی نابود بھی ہوگیا ۔پھر کافی دیر کے بعد موجودہ خط مروج ہوکر مقبول عام ہوا ہے ۔
حالیہ وقتوں میں اگر چہ کشمیری زبان میں بہت کام ہورہا ہے ،بہت کچھ لکھا اور پڑھا جارہا ہے مگر حالات پھر بھی اچھے نہیں ہیں کیونکہ ہماری آنے والی نسلیں جو اس وقت سکولوں میں زیر تعلیم ہیں وہ اگر کشمیری زبان پڑھتے ہیں مگر ایک کڑوا گھونٹ سمجھ کر ہی اِسے قبول کرلیتے ہیں ۔مجموعی طور پر اُن میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔اس لئے ماہرین زبان و تعلیم ،دانشور وں اور قلم کاروں کو ترجیحی بنیادوں پر اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔صورت حال اس قدر گھمبیر ہے کہ اب ہم اپنے گھروں میں بھی اپنی مادری زبان نہیں بولتے کیونکہ چھوٹے چھوٹے بلکہ بڑے بھی سکول کالج جانے والے بیشتر بچے جب کشمیری زبان سمجھتے ہی نہیں اور نہ بول سکتے ہیں ،تو اُس صورت میں بزرگوں یا خاص کر والدین کو بھی وہی بانگڑو بولی بولنا پڑتی ہے جو موجودہ وقتوں میں سکولوں اور گھروں میں مروج ہے ۔کیا آپ کو اپنے گھر یا اکثر حالات میں اپنے آپ پر ہنسی نہیں آتی ہوگی بلکہ آپ ضرور محظوظ ہوتے ہوں گے جب گھر میں اس طرح کی باتیں ہوتی ہوں گی۔
باپ : یہ ایک چھوٹی سی کام ہے ،اس کو جلدی جلدی مکلاو پھر بھپو کھائیں گے ۔
ماں: مُنا ٹوری میں بھپو ڈالوں یاپلیٹ میں ،کیا ٹھولی کھائو گے۔
بھائی : امی ،میں ٹھولی نہیں کھائوں گا، مجھے میٹو دے دو۔
بہن : اس نے میری تریش گرادی ۔مما ذرا پانی دینا ۔
اب ہم اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں ؎
شجر کی ٹہنیاں بے برگ کیوں ہیں
چمن کا باغباں ہوتے ہوئے بھی
(سردار پنچھی)
ختم شد
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995