معراج الدین مسکین
ذرائع ابلاغ میں اب اس بات کا تذکرہ عموماً ہوتارہتا ہے کہ وادیٔ کشمیر کے نوجوان نسل کی بگڑتی صورت حال تشویش ناک ہے ، وہ دن بہ دن مختلف بُرائیوں و خرابیوں کی نذر ہوکر آوارگی ،اخلاقی بے راہ روی ، منشیات کی عادی اور جرائم کی طرف راغب ہورہی ہے۔بلاشبہ نوجوان نسل کسی بھی معاشرے اور قوم کے لئے رگِ جان کی حیثیت رکھتی ہے اور اُن کی کوتاہی اور غلطی قوم و معاشرہ کی عزت و وقار کو پستی کی جانب دھکیل دیتی ہے۔نوجوان نسل ہی کل کی تاریخ مرتب کرتی ہے اور نوجوان نسل کے فکرو عمل سے قوم و معاشرہ کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے، البتہ جس قدر اُن کی اہمیت اور ذمہ داریاں ہیں، اُسی قدر اُن کے مسائل بھی ہیں،جن کو حل کرنا معاشرے اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے میںایک طرف مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے، جس کی وجہ عدم مساوات، وسائل کی ناقص منصوبہ بندی اور معاشرتی ناہمواری کی تقسیم نے اُن کے اندر ایک ہیجان کی سی کیفیت پیدا کردی ہے، تو دوسری طرف معاشرہ کی ترقی کی راہ میں حائل بے روزگاری بھی نوجوانوں کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ معاشرے میں تعلیم یافتہ بے روزگار زیادہ تر ڈگری یافتہ ہیں ، ان کی شرح تناسب مسلسل بڑھتی جارہی ہے ۔جبکہ افراتفری کی فضا میں کئی لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔البتہ نوجوانوں کومعاشرے کے حالات،تقاضوں کو سمجھنا اور تمام پہلوئوں پر نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔حق تو یہی ہے کہ جب تک ایک نوجوان وقت کی اہمیت اور حالات و واقعات کی نزاکت و تقاضوں کو جاننے،سمجھنے اور جانچنے کی کوشش نہیں کرتا ہے،وہ کسی بھی بڑی تباہی سے بچ نہیں پاتا اور یہاں بھی افسوس ناک پہلو یہی ہے کہ وادیٔ کشمیر کے معاشرے کی نوجوان نسل ،اپنی اس وادی کے حالات و واقعات سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود انجانے اور فریبی راستوں پر بھٹک رہی ہے ،وہ اپنے لئے کسی فعال یا مثبت مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کے بجائے ناحق اپنے آپ کو تجربات کی بھینٹ چڑھاتی ہےاوربغیر کسی سختی اٹھانے کے حلیم اور بغیر کسی تجربے کے حکیم بننا چاہتی ہے۔جس کے نتیجہ میںاُن کے ہاتھ میں کچھ نہیں آتا ہے او ذلیل و خوار ہوکر اُن کی سمجھ داری اور دور اندیشی بھسم ہوکر رہ جاتی ہے ۔جس کے نتیجے میں معاشرے کا بیشتر حصہ اخلاقی تنزل اور انحطاط کے گردِ آب میں بُری طرح پھنس چکا ہے۔اب بھی اگر اس کا موثر و مثبت علاج و تدارک نہ کیا جائے تو جوافسوسناک و شرمناک نتائج آج تک برآمد ہوچکے ہیں ،اُن سے بھی زیادہ بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔چنانچہ پچھلے تین چار عشروں کی غیر یقینی صورت حال کے دوران وادیٔ کشمیر کی نئی نسل نے جن بُرائیوں اور خرابیوں کو گلے لگایا، اُن کے بھیانک نتائج آج ہمارے سامنے بالکل نمایاں ہیں ۔جہاں دُنیاوی اُلجھنوں اور مسائل کے شکنجوں نے کشمیریوں کو ایک شدید عذاب سے دوچار کرکے رکھا ، وہیںخود پرستی،جابہ جا اندیشوں،غیر اخلاقی جذبوںاور بے کرداری نے لوگوں کو ہمہ وقتی ذہنی کشیدگی میں مبتلا کرکے رکھا،جس کے نتیجے میں نہ صرف طرح طرح کے مہلک امراض سامنے آرہے ہیں بلکہ دل دہلادینے والی رودادیں سُننے اور رونکھٹےکھڑے کردینے والے مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔چنانچہ چوری ،رشوت خوری ،ناجائز منافع خوری،چھینا جھپٹی ،سینہ زوری اور غارت گری کی آماجگاہی میں بیشتر لوگ جامۂ انسانیت نوچنے میں مشغول رہے،جس سےہر سُو خدا طلبی کے بجائے دُنیا طلبی کا دور دورہ ہوگیا۔بالشت بھر پیٹ نےزندگی کی ساری وسعت گھیر لی ،مغربی علوم و تہذیب کا اثرایسا غالب ہوا کہ آخرت کا خیال تک بھُلادیا۔دنیاوی زندگی کی اہمیت اور کشش بڑھ گئی،بدعتوںاور رسم و رواج کا سلسلہ عام ہوگیا۔صاحبِ مال احساسِ برتری میں مبتلا ہوئے اور غریب و لاچار احساسِ کمتری کا شکار ہوگیا ،غرض پوری وادی کے لوگ خواہش پرستی کی ادنیٰ سطح پر گِر کر درندوں اور چوپایوں کی زندگی جی کر زمانۂ جاہلیت کی یاد تازہ کرنے میں مصروف ہوگئے۔ نتیجتاًہر وہ بُرائی اور خرابی گھر گھرمیں پنپ کر پروان چھڑی،جن سے اب ہمیں چھٹکارا حاصل نہیں ہو پارہا ہے۔خصوصاًوادیٔ کشمیر میں منشیات کے دھندے اور اُن کا استعمال بڑے پیمانے پھل پھول چکا ہے۔اگرچہ اس کے استعمال کے باعث عبرت ناک وارداتیں بھی منظر ِ عام پر آچکی ہیںاور ہزاروں نوجوان مختلف جسمانی و ذہنی بیماریوں میں مبتلا بھی ہوچکے ہیں، پھر بھی یہ دھندہ شدو مد سے جاری ہے۔جس کے نتیجہ میں نہ صرف جرائم کا تناسب بڑھ رہا ہےبلکہ دیگر سماجی بُرائیوںکو بھی فروغ مل رہا ہے۔ اس گھنائونے کاروبار پرقابو پانا اب یہاں کی انتظامیہ کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے ۔وقفہ وقفہ کے بعد یہ انکشاف بھی ہوتارہتا ہے کہ متعلقہ محکمہ اور انسدادِ منشیات میں موجودبعض کالی بھیڑیں بھی اس کاروبار میں اپنے ہاتھ رنگتی رہتی ہیں،اور اس کاروبار کو پھلنے پھولنے میں معاون رہتی ہیں۔اس بات کا بھی اظہار ہوتا رہتا ہے کہ اس کاروبار کے مختلف معاملات میںپولیس اور ذمہ دار محکمہ کے بعض اعلیٰ اور ادنیٰ اہلکاروں کی چشم پوشی سے بھی یہ ہلاکت خیز زہر ہر جگہ پر بہ آسانی پہنچ رہا ہے ۔حالانکہ اسے روکنے کی اول ذمہ داری پولیس پر ہی عائد ہوتی ہے،جبکہ سیاسی ،دینی، سماجی اداروںو معاشرہ کے متحرک افراد کو بھی اس کی سنگینی پر غور کرتے ہوئے نوجوان نسل کو تباہی سے بچانے کے لیے عملی کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپنی اس وادیٔ کشمیر یہ سب کچھ ایک مخصوص منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے کیونکہ لوگ لالچ میں گرفتار ہیں اور نام نہاد ترقی کے لئے سب کچھ گوارا کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔آج اگر چہ ہر کوئی شخص یہ بات ضرور محسوس کرتا ہے کہ معاشرے میں خرابیاں اور بُرائیاں پھیل جانے سے ہمارا ہی کافی نقصان ہوا ہے اور بدستور ہورہا ہےلیکن پھر بھی خرابیوں و بُرائیوں کو روکنے کے لئے کمر بستہ نہیں ہورہے ہیںبلکہ ہر بات کو وقتی طور پر تماشا بنا کر چُپ سادھ لیتے رہتے ہیں۔ہماری یہ بڑی بد بختی ہے کہ ہم میں عام طور پر عنایت ،نفس پرستی اور بھلائی کا فوری بدلہ حاصل کرنے کا پھیلا ہواجذبہ ہے،طرزِ عمل میں خود پسندی سے زیادہ نفس کی سرکشی کا عمل دخل ہے،تعاون کا فقدان ،معاشرے کے معاملات سے لا پرواہی،اپنے اپنے محلے اور اپنی اپنی بستی،جس میں ہم رہتے ہیں، اپنی ملت جس سے ہم وابستہ ہیںاور جس پیغام کے ہم علمبردار ہیں،اُن سب سے عدم دلچسپی کیاہم میںیقین کی کمزوری اور منافقت کی علامت تو نہیں ہے؟جبکہ لوگوں کی ایک بڑی تعدا دبدستور اپنے خاص مطلب کی ہی حدود میں زندگی گزارتی ہے۔جس سے ظاہر ہوتا ہےکہ ہم اپنے فرائض سے موڑ رہے ہیںاور کوئی بھی بوجھ اپنے کاندھے پراُٹھانے کے بجائے راہِ فرار اختیار کرلیتے ہیں۔ایسے ناقص طرز عمل سے کوئی بھی معاشرہ یا کوئی بھی قوم کیسے اپنے کسی مقصد میںکامیاب ہوسکتی ہے۔اسی طرزِ عمل کے تحت ہم نے ہر اہم مسئلے کو معمولی بات سمجھ کر اپنے گھروں کے ماحول کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے ۔ہر دماغ میں یہ بات بیٹھی ہے کہ ہمارے اپنے اس معاشرے میں بگاڑ کا ذمہ دار کون ہے مگر ہم ہیں کہ اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہیں،اور اس طرح مزید گناہوں کے مرتکب ہورہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہےکہ نڈر اور بے باک ہوکر ایک ایسا ماحول تیار کریں،جس میں ہر فرد اپنا کردار فرض سمجھ کر ادا کرے،اپنی ذمہ داری کا بوجھ اپنے کاندھے پر محسوس کرےنہ کہ اُس سے فرار کی راہ تلاش کرنے میں جٹ جائے۔تاکہ ہماری دنیا بھی ٹھیک رہے اور دین بھی صحیح رہے۔اس لئےمعاشرے کے ہر فرد خصوصاً سنجیدہ فکر حلقوں کو اس صورت ِ حال پر غور کرنا چاہئے اور جرأت مندی سے ایک دوسرے کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جانی چاہئے کہ ہم جس راستے پر چل پڑے ہیں وہ بُربادی کا راستہ ہے ۔وقت کا تقاضا بھی ہے کہ ہم آئے روز رونما ہونے والی اخلاق سوز حرکتیں اور یہاں کے دَم توڑتے جوانوں کو دیکھ کر بیدار ہوجائیں،میدان عمل میں کودیں،اور کشمیر کو مزید معاشرتی تباہی سے بچانے کے لئے آگے آئیں،ورنہ آنے والی نسل ہمیں ہمیشہ کوستی رہے گی۔کیونکہ بہادری کا نام ہے ،نڈر ہوکر بڑی سے بڑی مشکل یا مصیبت کا سامنا کرنے کے لئے تیا رکرنا۔ گمراہ ہوکربھٹکے ہوئے لوگوں کو راہِ راست پر لانا بھی بہادر ی ہے۔اس لئے اگر ہم نڈر ہوکر بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صدق دِلی سے اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لائیں گے تو موجودہ صورتِ حال برقرار نہیں رہ سکتی۔ہماری کوششوں سے ایک اچھا معاشرہ وجود میں آسکتا ہے جس میں دیانت داری ،سچائی اور بھلائی ہوگی۔جب اچھا معاشرہ وجود میں آجائےتو پھر خرابیوں اور بُرائیوں کا خاتمہ یقینی ہوجائے گا۔