بے شک کسی قوم یا معاشرے کی طرزِ زندگی، رویے،دوسروں کے ساتھ برتائو اور اچھے بُرے کرتوت ہی اُس کا وہ آئینہ ہوتا ہے ،جس میںبخوبی اپنے حال اورمستقبل کی تصویروں کا عکس دیکھ سکتا ہے۔اگربُری صورت ہو تو اپنے اچھے اعمال اُسے صاف کرنا چاہئے تاکہ اُس کا عکس خوش نُماہو جائے،اور اگر صورت اچھی ہے تو بُرا کرکے اس کی خوبصورتی تباہ نہ کیا جائے۔ظاہر ہے کہ کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی و ترویج میں نو جوانوں کا بڑا کردار ہوتا ہےاور کسی قوم یا معاشرے کے مستقبل کے روشن یا تاریک ہونے کا دارو مدار بہت حد تک اس کے نوجوانوں کے اُس رویے اور طرزِ حیات پر ہوتا ہے،جو اُنہیں اپنے قوم یا معاشرےکے بڑے بزرگوں ،دانشوروںاور رہنمائوںنے دیا ہوتا ہے ۔جبکہ تاریخ میںبھی یہ باتیں نمایاں ہیں کہ زیادہ تر قوموں کی بقاء کی خاطراُن کے نوجوانوں کی جدوجہد اور قربانیوں کا ہی اہم کردار رہا ہے۔البتہ جب کسی قوم یا معاشرےکے بڑ ے بزرگ ،دانشور اور رہنماء اپنے نوجوانوں کی تربیت کرنے ، اُن کی بہتر تعلیم کا اہتمام کرنے ، اپنے دینی و معاشرتی نظریات اور مفادات کی حفاظت کرنے والے مقاصد و اہداف اُن تک منتقل کرنے میں تغافل برتا ، تو اُس قوم یا معاشرے کا مستقبل ہمیشہ ڈوبتا رہا۔ مایوسی یا حالات کی تنگ دستی جب کسی معاشرے کا دامن پکڑ لیتی ہے تو ایسے دور میں کسی معجزے یا کرشمہ ٔقدرت کا انتظار کرنے کے بجائے ہر کسی کی توجہ اور توقع نوجوانوں پر مرکوز ہوجانا ضروری ہے۔نوجوان کتنے ہی آگے کیوں نہ بڑھ جائیں ،ان کی سمت کا تعین کرنے میں اُن کے بڑوں کا ہی کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی قوم اور معاشرےکی نوجوان نسل کا جائزہ لیں، اپنے تعلیمی نظام اور اس کے مقاصد و اہداف کا تجزیہ کریں اور اپنے دانش وروں، مذہبی رہنماؤں اور سیاست گروں کے افکار و خیالات اور کارناموں پر ناقدانہ نظر ڈالیں تو ہمارےہر آئینے میں،ہر تصویر کا عکس دُھندلا نظر آرہا ہےاور انتہائی دُکھ اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ تا ہے کہ ہمارے معاشرے کےمستقبل کے ان معماروں کی کوئی قدر ہی نہیں دکھائی دیتی ہے۔ اُن کی بہتر اور معیاری تعلیم و تربیت کا کوئی اچھا انتظام کرنے کی کبھی کوئی حق پرستانہ ،دیانتدارانہ اور منصفانہ کوشش ہی نہیں کی گئی ہے۔ ملکی اور معاشرتی اہداف سے انہیں روشناس کرانا اور اُن کے اندر دینداری ،وفاشعاری کا شعورپیدا کرنا کبھی پیشِ نظر ہی نہیں رہا ہے، لہٰذا اسی غفلت و کوتاہی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ہمارے نوجوان ادنیٰ مقاصد و مفادات کے غلام و حریص بن کر جی رہے ہیں۔ انہیں معاشرےکے مستقبل اور اس کی عزت و سربلندی سے کوئی سروکار ہی نہیںاور نہ اپنے ورثےو اپنی تہذیبی خصوصیات سے کوئی لگاؤ رہا ہے۔ وہ اپنے معاشرتی نظریات سے ناآشنا اور اس کے اہداف و مقاصد سے بالکل نابلد ہیں۔ اُن کے اندر اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود اور استحکام و خوشحالی کے لیے قربانی دینے کا کوئی جذبہ پایا ہی نہیں جاتا۔ ان کے سامنے تو بس اپنی زندگی، اپنا کیرئیر اور اپنی فیملی کے لیے اچھے لائف اسٹائل کا حصول ہی بنیادی ٹارگٹ ہے، وہ تو بس مادی آسائشات و لذات کو زیادہ سے زیادہ سمیٹ لینا اور زندگی کی رونقوں اور راحتوں کو زیادہ سے زیادہ پالینا چاہتے ہیں، معاشرے کے مسائل اور مصائب و آلام سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔اس سلسلے میں کہاں کمی اور کوتاہی ہوئی یا ہو رہی ہے،اس پر سنجیدہ غورفکر کرنے کی ضرورت ہے۔کیا اس میں ہماری حکومت کی ناقص پالیسیوں کا دخل ہے یا پھر والدین کی غیر ذمہ داری کا قصور ؟ دورِ حاضر میں نوجوانوں میں خوبیاں بھی ہیں لیکن ترازو کے دونوں پلڑے برابر نظر نہیں آتے۔ ریاستی ڈھانچے کو بھی نئی نسل کی کچھ خاص پروا نہیں اور والدین بھی بے نیازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ان کی اُلجھنوں کے بارے میں نہیں سوچا جارہااور اگر کچھ ہو بھی رہا ہے تو محض سرسری طور پر، اوپری سطح پر۔اب بھی وقت ہے کہ نوجوانوں کی اہمیت اور قدر پہچانیں، انہیں معیاری تعلیم، اخلاقی تربیت اور ملک و معاشرےکی ترقی و بہبود و استحکام کے اہداف کا پاسبان بنانے کی کوشش و جستجو کریں،تبھی ہمارے آئینوں کی دُھندلاہت دور ہوسکتی ہے اورعروج و ترقی کا سفر شروع ہوسکتا ہے۔ ہمارے مستقبل یعنی ہماری نوجوان نسل کو راہ نمائی بھی درکار ہے اور حوصلہ افزائی بھی۔ ذہنی طور پر انہیں توانا رکھنے کے لئے ناگزیر ہے کہ اُن کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کیا جائے اور کچھ کرنے کے معقول مواقع فراہم کئے جائیں۔