انسان کا رُجحان اُس کی زندگی کی کسوٹی ہوتی ہےاوررُجحان ہی انسانیت کی پہچان بھی ہوتی ہے۔جن کا رُجحان بہتر ہوگا ،اُنہیں زندگی میں کوئی پشیمانی نہیں ہوسکتی ہے۔کیونکہ انسان کےرُجحان سے انسان فطرت کو ظاہر ہوتی ہے۔اس اعتبار سےآج اگر ہم اپنے کشمیری معاشرے پر نظر ڈالیںتو بخوبی ہمارا رُجحان ہماری فطرت کو عیاں و بیان کرتا ہے۔ہم سب جانتے ہیںکہ تازہ ہوا ، صاف پانی اور صاف و پاک دیگر غذا ئیںقدرت کی جانب سے عطا کردہ وہ نعمتیں ہیں،جن پر انسان کی صحت مند زندگی کا انحصار ہے۔ان نعمتوں کوجب انسانی رُجحان ہی ہر سطح پر آلودہ اور مضر صحت بنانے پر تُلا رہے تو خود انسان کی ہی زندگی انتہائی تلخ بن جاتی ہے۔ہمارے موجودہ رُجحان کے تحت وادیٔ کشمیرمیں وہ سب کچھ ہورہا ہے کہ جس سے نہ صرف یہاں کے لوگوں کی زندگی اور صحت خست و پست ہورہی ہے بلکہ یہ وادی ٔبے نظیر جہنم زاربنتی جارہی ہے ۔اشیائے خوردونوش کی آلودگی نے تو قیامت برپا کر کے رکھ دی ہے ۔ روزمرہ استعمال کی جانے والی کھانے پینے کی تقریباً ہر چیز میں بھاری پر ملاوٹ نے انسانی صحت کو بڑے پیمانے پر تباہ کرکے رکھ دیا ہے،ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اب وادی ٔ کشمیرملاوٹ کے معاملے میںسر فہرست ہےاور اس پر ستم یہ کہ دن بہ دن آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہےاور اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔
یہ آلودگی محض کھانے پینے کی اشیاء تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ ہر وہ چیز جس سے انسان کا سابقہ پڑتا ہے، آلودگی اور ملاوٹ کے باعث لوگوں کے لئے نقصان دہ بن گئی ہے ۔ ظاہر ہے خالص اور پاکیزہ چیزیںنہ صرف جسمانی ، روحانی اور اخلاقی بالیدگی کے ضامن ہیںاور اللہ کو بھی مطلوب ہے ۔لیکن اب اللہ تعالیٰ کے اس پسندیدگی کو بھی یہاں کے لوگوں نے بھُلا دیا ہے۔گویا یہ سب آلودگیاں جو نہ صرف انسانوں بلکہ ہر جاندار کے لئے نقصان دہ ہیں، خودکرۂ ارض پر رہنے والےانسانوں کی ہی پیدا کردہ ہیں۔ جس کی وجہ سے فضا، دریا، سمندر ، کھانے پینے کی تمام اشیاء آلودہ ہو کر نا قابلِ علاج بیماریوں کا سبب بن چکی ہیں ۔ قدرت نے انسانوں اور تمام جاندار مخلوقات کے لئے ہر شے کو خالص فراہم کیا ہے مگر یہ انسان ہی ہے، جس کی صنعتوں اور دیگر کیمیائی کارخانوں سے نکلنے والی زہریلی و مضر صحت گیسوںسے پوری فضا کو آلودہ ہوگئی ہے اور تازہ آکسیجن گیس میں کاربن ڈائی آکسائڈ گیس کی مقدار بڑھ جانے سے انسانی صحت کو شدید ترین خطرات لاحق ہو چکے ہیں ۔ جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے بارشوں میں بدلائو آگیا ہے،کہیں زمین بنجر بن جاتی ہے اور کہیں سیلاب کی نذر ہوجاتی ہے۔بادلوں کے پھٹ جانے سےکہیں چٹانیں گِر رہی ہیںاور کہیں زمین کھِسک رہی ہے۔
کیمیائی فضلے جو دریاؤں میں بہائے جا رہے ہیں، اس سے آبی حیات کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ہمارے یہاں دیہات میں گھروں کا کوڑا کرکٹ کھیتوں میں ڈال کر قدرتی کھاد کے لئے استعمال ہوتاتھا مگر آج زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لئے مصنوعی کھاد کے استعمال نے تمام فصلوںکو مضرِصحت بنا دیا ہے ۔ شہرکی آبادی کا ایک بڑا مسئلہ گھروں سے روزانہ نکلنے والے ہزاروں ٹن کوڑا کرکٹ ہے ،جس کو ٹھکانے لگانے کا دُرست انتظام نہ ہونے سے تعفن پھیلا رہتا ہے ،جو انسانوں کے لئے مختلف بیماریوں کی وجہ بنتاہے۔ اسی طرح سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد میں چلنے والی گاڑیوں کی وجہ سے بھی آلودگی پیدا ہوتی ہے، جس سے اعصابی بیماری پھیلتی رہتی ہے ۔ گویااب ہمارے دِلوں میں ایمان و عقیدے میں بھی آلودگی پیدا ہوچکی ہے جس کے نتیجے میںاشیائے خوردنی کی ہر چیز میں ملاوٹ کرنا اب عام سی بات ہوگئی ہے اوران افعال سےاپنی اس وادیٔ کشمیر میں خشکی اور تری میں جو فساد برپا ہے، وہ سب ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔جن دریائوں اور ندی نالوں کا پانی فصلوں کی آبیاری کے لئے استعمال ہوتاتھا،وہ پانی تک آج فصلوں میں بھی بیماریاں پھیلنے کا باعث بن رہا ہے۔
الغرض ہمارے اس موجودہ رُجحان سے جہاں ہم خود ہر سطح پر خستہ و پست ہورہے ہیں ،وہیںیہاں کےحیوان ، پرندو چرند،پیڑ پودوںاور نباتات کی حیات کی تباہی کا بھی باعث بن رہے ہیں۔ہماری کرتوتیں ہی ہماری تباہی کا سبب بن رہی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے ہم اپنے رجحان پر نظر ڈالیںاور پیدا شدہ حالات کے پسِ منظر میں کچھ لمحوں تک غور و فکر کریں،اپنے آپ کو ٹٹولیں، اپنے قول و فعل کا محاسبہ کریں کہ ہم کیا سے کیا ہوگئے ہیں اور ہمارا رُجحان کیا ہے؟