تلخ و شریں
ملک توفیق حسین
عصرِ حاضر کے انسان کو دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ جیتا نہیں، محض زندہ ہے۔ اس کی سانسیں چلتی ہیں، بدن متحرک ہے، چہرے پر مسکراہٹ ہے، مگر دل میں ایک گہرا خلا ہے۔ یہ خلا کیوں ہے؟ اس لیے کہ ہم نے زندگی کو جینے کا ہنر کھو دیا ہے۔ ہم اپنی اصل ذات سے اتنے دور ہو چکے ہیں کہ جو زندگی ہمیں عطا ہوئی تھی، اب محض اس کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔ ہم نے زندگی کو مقصد بنانے کے بجائے ایک مشقِ مسلسل، ایک دوڑ اور ایک دکھاوے کا کھیل بنا دیا ہے
جدید معاشرہ ایک ایسے اسٹیج کی صورت اختیار کر چکا ہے جہاں ہر فرد ایک کردار ادا کر رہا ہے اور اصل چہرہ پیچھے کہیں چھپ گیا ہے۔ انسان دل میں درد لئے ہنستا ہے، آنکھوں میں نمی چھپا کر مسکراتا ہے اور لبوں پر خوشی کی جھوٹی کہانی سناتا ہے۔ معاشرتی تقاضے، معاشی دباؤ، سماجی توقعات اور سوشل میڈیا کے جھوٹے معیار نے انسان کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی اصلیت کو ترک کر دے اور مصنوعی چہرہ اختیار کرے۔رشتوں کی نوعیت بھی تبدیل ہو چکی ہے، پہلے رشتے خلوص سے بنتے تھے، اب ضرورت سے جڑتے ہیں۔ دوستیاں مفادات کے گرد گھومتی ہیں اور محبت بھی ایک دکھاوے کی تجارت بن چکی ہے۔ ہم دل کی زبان بھول چکے ہیں اور زبان سے نکلے الفاظ خالی اور بے روح محسوس ہوتے ہیں۔ ہم اپنے اندر کے انسان کو دفن کر چکے ہیں اور صرف ایک شخصیت کے طور پر زندہ ہیں جو دنیا کے معیار پر پورا اترنے کی کوشش میں خود کو کھو بیٹھا ہے۔
میں ایک مدرسے میں پڑھتا تھا ،جہاں ہمیں ایسا لگتا تھاہم چار دیواری میں بند ہے اور باہر کے تمام لوگ خوش ہیں، جب کالج یونیورسٹیز میں پہنچے تو معلوم چلا اس خوشحال چہرے کے پیچھے ہزاروں غم چھپے ہوتے ہیں اور یہ ایک جعلی مسکراہٹ تھی جسے ہم کامیاب سمجھتے تھے ۔آج کا انسان صبح سے شام تک دوڑتا ہے، نہ تھکتا ہے نہ رکتا ہے، بس چلتا جاتا ہے۔ اس دوڑ کا کوئی اختتام نہیں، کوئی منزل نہیں۔ روزگار کے نام پر ہم نے زندگی کو گروی رکھ دیا ہے۔ ہم اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بیٹھنے کا وقت نہیں نکال سکتے، نہ ہی خود سے ملاقات کا موقع ملتا ہے۔ گویا ہم وقت کے غلام بن چکے ہیں اور ہر لمحہ، ہر دن ایک نئی ادائیگی کا تقاضا کرتا ہے۔یہ دنیا ہمیں اپنے اصل رنگ میں رہنے نہیں دیتی۔ ہر طرف چمک ہے، مگر یہ چمک سچائی کی نہیں دکھاوے کی ہے۔ انسان اس رنگ میں اس طرح رنگ گیا ہے جیسے چڑیل اپنا رنگ دیتی ہے۔دھوکہ دہی، فریب اور خود فریبی کا رنگ۔ ہم دوسروں کو خوش کرنے میں اتنے مگن ہو چکے ہیں کہ خود کو راضی کرنا بھول گئے ہیں۔ جو کچھ ہم سچ سمجھتے ہیں، وہ اکثر فیشن ہوتا ہے اور جو حقیقت ہے، وہ یا تو نظرانداز ہو چکی ہے یا ناپسندیدہ میرے ساتھ ساتھ آپ نے بھی دیکھا ہوگا، بڑے بڑےسیاست دان، تاجر ،پروفیسر،ڈاکٹر،بینک منیجر اور انجینئر غرض جن کا پیشہ مالی لحاظ سے بہتر ہے ،اکثر بے چینی کی زندگی میں خوش دِکھنے کی مشق میں مصروف ہیں اور باقی سب ان کی جعلی مسکراہٹ کو اپنا رول ماڈل بناچکے ہیں، ان سب مسائل کا حل ایک ہی ہے واپسی اپنی فطرت کی طرف، اپنے ضمیر کی طرف، اپنی روح کی طرف۔ زندگی کو صرف کمانے اور خرچ کرنے کی مشق نہ بنائیں۔ اس میں احساس، ربط، قربت، سکون اور مقصد کی آمیزش ضروری ہے۔ ہمیں معاشرے کے معیار کے مطابق خود کو ڈھالنے کے بجائے اپنے اصل کو پہچاننا اور قبول کرنا ہوگا ،ہم سبھی کو معلوم ہونا چاہئے کہ زندگی ایک قیمتی عطیہ ہے، اسے محض نبھانے کا عمل نہ بنائیں۔ فارسی میں کہتے ہے ’’خوردن براہ زیستن است،زیستن برای خوردن نیست‘‘یعنی کھانا پینا زندگی گزارنے کے لئے ہے، لیکن زندہ رہنا صرف کھا پینے کے لئے نہیں ہے۔ جینے کا مطلب صرف زندہ رہنا نہیں بلکہ باوقار، بامقصد اور باطن سے ہم آہنگ زندگی گزارنا ہے۔ جب تک ہم اپنے اصل چہرے کو پہچان کر اس کے ساتھ جینا نہیں سیکھیں گے، تب تک ہم محض ایک مشینی زندگی گزار رہے ہوں گےجہاں ہم نہ خود کو جانتے ہیں، نہ ایک دوسرے کو۔
(طالب علم ،کشمیر یونیورسٹی فارسی ڈپارٹمنٹ)
[email protected]