بلا شبہ انسان کو قدرت نے حق و ناحق ،سچ وجھوٹ،حلال و حرام،جائز ناجائز اور بھلائی و بُرائی سے آگاہ کردیا ہےاور اُسے اپنی ذمہ داریوں کونبھانے کی حِس بھی عطا کردی ہے۔ انسان کےکان، آنکھ، دل اور زبان سب وہ ذرائع ہیں، جن سے ہم دنیا میں اپنے اعمال انجام دیتے ہیں اوریہی اعمال آخرت میں ہمارے حساب کا ذریعہ بنیں گے۔ زبان ایک ایسا ہتھیار ہے جسے احتیاط کے ساتھ استعمال نہ کیا جائے تو یہ انسان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا سکتی ہے۔موجودہ زمانے میں جہاں سوشل میڈیا کا راج ہے، ہماری ذمہ داری اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ لکھے ہوئے الفاظ زیادہ دیر تک موجود رہتے ہیں اور ان کے اثرات بھی زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔ ہر ایک کو اس بات کا احسا س ہونا چاہیے کہ جو کچھ ہم لکھ رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں، کیا ہم اس کے لئےجواب دہ نہیںہیں؟ ہر سوشل میڈیا پوسٹ، ہر ٹویٹ اور ہر تبصرے سے قبل اس بات کا خیال رکھنا لازمی ہے۔
اکثر لوگ جذبات میں آ کر ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں یا لکھ دیتے ہیں جو ان کے دل کی اصل نیت کو ظاہر نہیں کرتیں، لیکن قدرت ہر دل کے راز جانتا ہےاور زبان یا کیبورڈ سے نکلنے والے الفاظ اُس کے سامنے پوشیدہ نہیں رہ سکتے۔ اس لیے ہمیں اپنے الفاظ کی قیمت کو سمجھنا چاہیے اور ہر بار کچھ کہنے یا لکھنے سے پہلے غور وفکر کرنا چاہیے کہ کیا یہ الفاظ اللہ کے سامنے قابلِ وضاحت ہوں گے؟سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں ہر شخص کو اپنی رائے دینے کی آزادی حاصل ہے،لیکن یہ آزادی ایک نعمت سے زیادہ ایک آزمائش بھی ہے ۔ ہر کوئی کسی نہ کسی مسئلے پر اپنی رائے یا اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہے اور اکثر اوقات یہ رائے بغیر کسی تحقیق کے ہی ہوتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا ایک ایسی جگہ بن چکا ہے جہاں لوگ دوسروں پر بے جا تنقید کرتے ہیں، الزام لگاتے ہیںاور اختلافات کو ہوا دیتے ہیںاور یہ نہیں سوچتے کہ یہ اختلافات دنیا کے سامنے ہمیں کیا بنا رہے ہیں؟ حالانکہ ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے کہ اختلافات کو حکمت کے ساتھ حل کیا جائے، نہ کہ نفرت اور غصے کے ساتھ۔ لیکن سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر لوگ اس حکمت کو بھول چکے ہیں۔ وہ نفرت اور غصے کو اپنے الفاظ کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور دوسروں کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔حالانکہ انسانیت کا تقاضا ہےکہ ایک انسان کی زبان یا ہاتھ سے دوسرےانسان محفوظ رہ سکیں۔ آج کی دنیا میں جہاں الفاظ کی جنگ لڑی جا رہی ہے،تو ہمیں خود کو ایک مختلف راہ پر چلانا ہو گا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ہر وہ بات جو ہم کہتے ہیں یا لکھتے ہیں، اس کا اثر صرف آج پر نہیں بلکہ کل اور آنے والے وقتوں پر بھی ہو سکتا ہے۔ہم اکثر یہ بات بھول جاتے ہیںکہ ایک دن ہمیں اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ اُس دن ہر وہ شخص جس نے کسی پر تنقید کی، جھوٹ بولا یا فتنہ پھیلایا، اپنے اعمال کا حساب دے گا۔ کیا ہم اس دن کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زبان یا قلم سے نکلنے والے الفاظ کوئی معمولی چیز ہیں؟ ہمیں اپنی زندگی کا جائزہ لینا ہو گا اور اپنے اعمال کو ٹھیک کرنا ہو گا۔یہ سوچ کےکہ ’’مجھے کسی بات کا جواب نہیں دینا‘‘ ایک خطرناک فریب ہے۔ ہر شخص کو اپنی بات کا جواب دینا ہو گا اور یہ جواب آسان نہیں ہو گا۔ اس لیے ہمیں اپنی زبان اور قلم کو بے احتیاطی سے استعمال کرنے سے بچنا ہو گا۔ہمیں یاد ہونا چاہئے کہ خاموشی بھی ایک نعمت ہے اور ہر معاملے میں بولنا ضروری نہیں ہے۔ آخرکار ہم سب کو اس حقیقت کا سامنا کرنا ہو گا کہ ہماری زندگی مختصر ہے اور یہ دنیا ایک فانی جگہ ہے۔ جو کچھ ہم یہاں کریں گے، وہی ہمارے ساتھ آخرت میں جائے گا۔ ہمیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا اور ہمارے الفاظ بھی ان اعمال کا حصہ ہیں۔ ہمیں اپنی زبان اور قلم کو اس طریقے سے استعمال کرنا چاہئے، جو ہمارے دین کے مطابق ہو۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کسی پر تنقید کرنا آسان ہے، لیکن خود کو درست رکھنا مشکل ہے۔ ہمیں دوسروں پر اُنگلی اٹھانے سے پہلے اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے۔ اگر ہم خود بہتر ہوں گےتو ہم دوسروں کو بہتر بنا سکیں گے۔ لیکن اگر ہم خود اندر سے کھوکھلے ہیں تو ہماری تنقید بے معنی ہو گی۔ ہمارے الفاظ اور اعمال دونوں اللہ کی رضا کے مطابق ہونے چاہئیں۔ ہمیں اپنی زبان اور قلم کی طاقت کا ادراک ہونا چاہئے اور ہمیں انہیں صرف خیر کے لیے استعمال کرنا چاہئے۔