ریاست میں براجمان حکومتیں اگر چہ وقت وقت پر شعبہ ٔ صحت میں نت نئی اسکیمیں اور پروگرام متعارف کراکے یہ عندیہ دیتی رہی ہیں کہ جموںوکشمیر میں سرکاری سطح پر صحت کی نگہداشت اور علاج و معالجہ کی بھر پور سہولیات میسر ہیں، لیکن زمینی سطح کی حالت کو دیکھتے ہوئے انتہائی مایوس کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دور دراز خطوں اور پہاڑی علاقوں میں چھوٹے ہسپتالوں اور طبی مراکز پرضروری سہولیات کا فقدان عام باتیں ہیں لیکن حیرت کا مقام ہے کہ سرینگر کے صدر ہسپتال اور اس سے منسلک مختلف ہسپتالوں میں ضروری ادویات کی قلت کے بہ سبب مریضوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حالانکہ یہ ایک واشگاف حقیقت ہے کہ ان ہسپتالوں میں صرف صوبہ کشمیر کے مختلف علاقوں سے آنےو الے مریضوں کا ہی دبائو نہیں ہوتا بلکہ مغل روڑ کے توسط سے خطہ پیر پنچال کے بیشتر علاقوں کے مریض بھی ضروری علاج معالجہ کےلئے سرینگر کے ہی ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کشمیر سے منسلک وادی چناب کے متعدد علاقوں کے مریض بھی قرابت کے بہ سبب جموں کے مقابلہ میں سرینگر کا رُخ کرنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ یہ ساری صورتحال انتظامیہ کی آنکھوں کے سامنے عیاں ہیں لیکن اس کے باوجود ان ہسپتالوں میں موجود مشکلات پر کوئی توجہ دینے کی کوشش نہ کرنا عوامی اعتماد کو نقصان پہنچانے سے کچھ کم نہیں۔ فی الوقت ان ہسپتالوں میں ضروری ادویات کی قلت کا یہ عالم ہے کہ مریضوں کو ان کےلئے بازاروں کا رُخ کرنا پڑتا ہے، جہاں انہیں یہ چیزیں مہنگے داموں خریدنا پڑتی ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ان میں غریب اور نادار لوگوں کی اچھی خاصی تعداد شامل ہوتی ہیں، جنہیں اس وجہ سے بے بیان مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ہسپتالی انتظامیہ اس کےلئے میڈیکل سپلائز کارپوریشن، جو ہسپتالوں کو ضروری ادویات فراہم کرنے کی روا دار ہے، کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ حالانکہ ان ہسپتالوں نے کئی کئی ماہ قبل کارپوریشن کے سامنے ضروری ادویات کے آڈر رکھے ہیں لیکن انکی فراہمی میں مسلسل تاخیر ہو رہی ہے۔ ہڈیوں اور جوڑوں کے ہسپتال، جس پر آئے روز کے ٹریفک حادثات کی وجہ سے زبردست دبائو رہتا ہے، نے مارچ کے مہینے میں متعدد ضروری ادویات کے آڈر کارپوریشن کے سامنے رکھے ہیں لیکن پانچ ماہ کا طول عرصہ گزرنے کےباوجودیہ ضروری ادویات اب تک فراہم نہیں کی گئی ہیں، چنانچہ مریضوں کو مجبوراً یہ ادویات کھلے میں بازاروں سے خریدنا پڑتی ہیں، جہاں ان کی کھال ادھیڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی۔ جبکہ صدر ہسپتال کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ مجبوراً کارپویشن سے این او سی حاصل کرکے کھلے بازار سے ادویات خریدنے پر مجبور ہو رہے ہیں، حالانکہ کئی ہسپتالوں نے کارپوریشن کو ضروری فنڈس بھی مہیا کررکھے ہیں مگر اس کے باوجود ادویات کی فراہمی میں مسلسل لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے، اس کا انتظامیہ کوسنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہئے، کیونکہ اس وقت ہر سرکاری شعبے میں پرائیوٹ سیکٹر کی مداخلت کی وجہ سے ان شعبوں کی افادیت کو متاثر کرنے کی کوشش ہو رہی ہیں تاکہ رفتہ رفتہ صورتحال اس سطح پر پہنچے کہ جہاں حکومت پر ائیوٹ سیکٹر کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہو جا ئے۔ ظاہر بات ہے کہ ایسی صورتحال میں غریب اور نادار لوگوں کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑینگے یہ شاید کوئی کہنے کی بات نہیں۔ایسے معاملات اگر چہ اکثرو بیشتر سیاسی مداخلت کاری کی وجہ سے ہوتے رہتے ہیں لیکن فی الوقت ریاست میں گورنر راج کے نفاذ کے بہ سبب کسی قسم کی ساسی مداخلت کا کوئی امکان نہیں ہے، لہٰذا یہ صورتحال موجود نہیں ہونی چاہےتھی۔انتظامیہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بات کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لے کر میڈیکل کارپوریشن کی طرف سے سرکاری ہسپتالوں کو ادویات کا سٹاک فراہم کیوں نہیں کیا جاتا اور اس میں کون سے وجوہات مانع ہیں۔ ان وجوہات اور محرکات کے اسباب تلاش کرکے ان کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے، جو اگر نہیں کیا جاتاتو عوام کےتئیں ذمہ داریوں سے غفلت شعاری کا ا س سے بڑا کیاثبوت ہوسکتا ہے۔ انتظامیہ پر یہ حقیقت شاید اجاگر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ پرائیوٹ طبی اداروں کی جانب سے علاج و معالجہ کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا جو عمل جاری ہے عام انسان، جن میں اکثریت کم آمدنی والے طبقے کی ہوتی ہے، اسکے متحمل نہیں ہوسکتے۔