ڈاکٹر آصف چنڑ
گزشتہ تین عشروں کے دوران دنیا بھر میں پچاس سال سے کم عمر افراد میں کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے جبکہ اس عرصے میں سب سے زیادہ تشخیص چھاتی کے کینسر کی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ اس مرض سے آ گہی کے لئے ایک دن نہیں بلکہ پورا مہینہ وقف کیا گیا ہے اورعالمی سطح پر ہر سال اکتوبر چھاتی کے کینسر کے بارے میں آگاہی کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس وقت چھاتی کے کینسر کی شرح بہت زیادہ ہے جس کے مطابق ہر 9 میں سے ایک عورت کو چھاتی کے کینسر کا خطرہ رہتا ہے۔چھاتی کا کینسر یا سرطان چھاتی کے خلیوں میں بنتا ہے۔ چھاتی کا کینسر اس وقت ہوتا ہے جب چھاتی میں خلیات ایک بے قابو طریقے بڑھتے ہیں اور جس سے گا نٹھ یا گلٹی بن جاتی ہے، جسے ٹیومر کہتے ہیں۔ چھاتی کا سرطان مردوں اور خواتین دونوں میں ہوسکتا ہے لیکن یہ خواتین میں زیادہ عام ہے۔بڑھتی ہوئی عمر اور وزن میں اضافہ چھاتی کے سرطان کی بڑی وجوہات میں شامل ہےجبکہ ورزش چھاتی کے کینسر کے خطرے کو کم کرنے کا مفید طریقہ ہے۔یہاں یہ ابہام بھی دور ہونا چاہیے کہ چھاتی میں ہرگلٹی یا گانٹھ کینسر ہوتی ہے لیکن احتیاط لازم ہے۔
چھاتی کے کینسر کا خطرہ عمر اور وزن میں اضافے کے ساتھ بڑھتا ہے۔چھاتی کے کینسر کی نشوونما کے لیے بڑھتی ہوئی عمر سب سے بڑا خطرہ ہے، چھاتی کے کینسر کے 66 فیصد مریضوں کی تشخیص 55 سال کی عمر کے بعد ہوتی ہے۔چھاتی کے کینسر کی علامات میں چھاتی میں گانٹھ یا گلٹی محسوس کرنا، چھاتی کے سائز میں تبدیلی اور سینوں کی جلد میں تبدیلی دیکھنا شامل ہو سکتا ہے۔ ابتدائی پتہ لگانے میں میموگرام سے مدد لی جا سکتی ہے۔چھاتی کے کینسر کی اصل وجوہات کے بارے میں کوئی وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا ۔البتہ بعض عوامل جن میں عمر، جینیاتی عوامل، خاندانی ہسٹری، ذاتی صحت اور خوراک سب چھاتی کے کینسر میں معاون ہیں۔ چھاتی کے کینسر کے لیے قابل ذکردرج عوامل اس طرح ہیں ۔
موٹاپا: جسم کے وزن میں اضافہ یا موٹاپا اس کی بڑی وجہ ہے۔ اس لیے صحت مند غذا اور باقاعدگی سے ورزش کرنا ضروری ہے۔
چھاتی کی سرجری : چھاتی کی سرجری اورسلیکون بریسٹ ایمپلانٹس دودھ نہ پلانے کا انتخاب۔بچوں کو دودھ نہ پلانے سے چھاتی کے کینسر خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
چھاتی کی کثافت : اگر سینے گھنے ہیں تو چھاتی کے کینسر کا زیادہ خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ میموگرام کے دوران ٹیومر کو دیکھنا بھی مشکل بنا سکتا ہے۔
عمر کا ڈھلنا یا بڑھاپا : چھاتی کے کینسر کی زیادہ تر تشخیص 55 سال کی عمر کے بعد ہوتی ہے۔تولیدی عوامل میں 12 سال کی عمر سے پہلے بلوغت کو پہنچنا، 55 سال کی عمر کے بعد مینو پاز میں داخل ہونا، کوئی اولاد نہ ہونا، یا 30 کے بعد پہلا بچہ ہونا شامل ہیں۔تابکاری یا شعائیں، جیسے کہ فلوروسکوپی ایکسرے یا سینے میں تابکاری سے علاج کیا جا نا اورخاندانی ہسٹری بھی اس میں شامل ہے۔چھاتی کے کینسر کی یا چھاتی کے کینسر کی بعض اقسام سے متعلق جینیاتی تغیرات ہونا، خاندانی ہسٹری جس میں چھاتی کے کینسر کے ساتھ پہلی ڈگری کا رشتہ دار (ماں، بہن، بیٹی، باپ، بھائی، بیٹا) ہونا شامل ہے زیادہ خطرنا ک ہو سکتا ہے۔ اگر خاندان کے دونوں طرف ایک سے زیادہ رشتہ دار چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہیں تو چھاتی کے کینسرہونے کے زیادہ امکانات ر ہتے ہیں ۔
جینیاتی تبدیلی یا تغیرات :چھاتی کے کینسر میں BRCA1 اور BRCA2 جیسے جینوں میں تبدیلیاں شامل ہو سکتی ہیں۔ اگرکسی کو پہلے ہی چھاتی کا کینسر ہوچکا ہے یا چھاتی کے کچھ خاص قسم کے چھاتی کے کینسرز ہو ئے ہیں، ان کو دوبارہ کینسر ہونے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔
تشخیص اور ٹیسٹ:یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ خواتین بیان کی گئی علامات یا تبدیلیاں خود بھی بخوبی نوٹ کر سکتی ہیں، مزید عام کئے جانے والے ٹیسٹ درج ذیل ہیں۔
ڈیجیٹل میموگرافی:چھاتی کا یہ ایکسرے ٹیسٹ چھاتی کی گلٹی یا گانٹھ کے بارے میں اہم معلومات دے سکتا ہے۔
الٹراسونگرافی: یہ ٹیسٹ چھاتی کی گلٹی یا گانٹھ ساخت جیسے سیال سے بھرا ہوا سسٹ ہو (کینسر نہ ہو) یا ٹھوس ماس (جو کینسر ہو یا نہ ہو) کا پتہ لگانے کے لیے صوتی لہروں کا استعمال کرتا ہے۔
بائیوا پسی: بائیوا پسی سرجری یا سوئیوں کے ذریعے کی جاتی ہے جس میں بریسٹ ماس سیلز یا ٹشو کا نمونہ لیا جاتا ہے۔نمونہ لینے کے بعد، اسے جانچ کے لیے لیب میں بھیج دیا جاتا ہے ۔پیتھالوجسٹ بتا سکتا ہے کہ یہ کس قسم کا کینسر ہے اور اسکی کیا اسٹیج، گریڈہے اور یہ کہاں تک آگے پھیل چکا ہے۔
چھاتی کے کینسر کا کئی طریقو ں سے علاج کیا جاتا ہے۔ یہ چھاتی کے کینسر کی قسم پر منحصر ہے اور اس حقیقت پر کہ یہ کس حد تک پھیل چکا ہے۔ اس کے علاوہ مریض کی عمر، وسائل، تشخیص،علاج کی دستیابی و دیگر عوامل اس میں شامل ہوتے ہیں، جس وجہ سے چھاتی کے کینسر میں مبتلا افراد کو اکثر ایک سے زیادہ قسم کے طریقہ علاج کے مراحل سے گزرنا پڑسکتا ہے۔
کیموتھراپی :اس میں کینسر کے خلیوں کو سکڑنے یا مارنے کے لیے خصوصی ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ہارمونل تھراپی :یہ کینسر کے خلیوں کو ان ہارمونز کو حاصل کرنے سے روکتا ہے جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔
حیاتیاتی تھراپی : یہ جسم کے مدافعتی نظام کے ساتھ کام کرتا ہے تاکہ اسے کینسر کے خلیوں سے لڑنے میں مدد ملے یا کینسر کے دوسرے علاج سے ہونے والے مضر اثرات کو کنٹرول کیا جاسکے۔
تابکاری یا شعائیں :تابکاری تھراپ جسے ریڈیو تھراپی بھی کہا جاتا ہے ایک ایسا علاج ہے جو کینسر کے خلیوں کو مارنے اور ٹیومر کو سکڑنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔تابکاری کے علاج کا عمل دردناک ہے، یہ وقت کے ساتھ جلد کی کچھ تکلیف کا سبب بن سکتا ہے۔ ابتدائی مرحلے کے چھاتی کے کینسر کا علاج کرتے وقت، تابکاری تھراپی اکثر سرجری کے بعد دی جاتی ہے۔ سرجری کینسر کو دور کرنے کے لیے کی جاتی ہے اور تابکاری کسی بھی کینسر کے خلیوں کو تباہ کرنے کے لیے کی جاتی ہے جو سرجری کے بعد باقی رہ سکتے ہیں۔ اس سے کینسر کے واپس آنے یا دوبارہ ہونے کے خطرے کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
سیسٹیمیٹک علاج :یہ پورے جسم میں کینسر کے خلیوں کو تباہ یا کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس میں کیموتھراپی اور ہارمون تھراپی علاج شامل ہیں ہیں۔ اس علاج کا بھی مریض کی عمر، وسائل، کینسر کی قسم و تشخیص علاج کی دستیابی و دیگر عوامل پر منحصر ہے۔
سرجری:بریسٹ کنزرویشن سرجری میں چھاتی کے کینسر والے حصے اور کینسر کے گرد عام ٹشو کا ایک حصہ ہٹانا شامل ہے جبکہ چھاتی کی عام شکل کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ خواتین پر منفی نسوانی یا نفسیاتی اثرات مرتب نہ ہوں۔ اس طریقہ کار کو اکثر لمپیکٹومی کہا جاتا ہے اس کے علاوہ اسے جزوی ماسٹیکٹومی بھی کہا جاتا ہے۔
ماسٹیکٹومی (پوری چھاتی کو ہٹانا) : یہ ایک اور آپشن ہے، آج کی جانے والی ماسٹیکٹومی کا طریقہ کارپرانی، ماسٹیکٹومیز جیسی نہیں ہیں۔ ریڈیکل ماسٹیکٹومی ایک وسیع طریقہ کار تھا جس میں چھاتی کے ٹشو، جلد اور سینے کی دیوار کے پٹھوں کو ہٹانا شامل تھا۔ آج، ماسٹیکٹومی طریقہ کار عام طور پر پٹھوں کو نہیں ہٹاتا۔ اس کے بعد چھاتی کی تعمیر نو قدرتی چھاتی کی طرح کی جاتی ہے جس میں انسان کے اپنے ٹشوز یا مصنوعی امپلانٹ یا دونوں استعمال ہو سکتے ہیں۔
ورزش صحت مند طرز زندگی کا ایک بڑا حصہ ہے۔ یہ چھاتی کے کینسر کے خطرے کو کم کرنے کا ایک مفید طریقہ بھی ہوسکتا ہے۔ایروبک ورزش دل اور پھیپھڑوں کے کام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ چربی جلانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ کچھ ایروبک مشقیں جن کوکر سکتے ہیں ان میں شامل ہیں:تیراکی، ہا ئیکنگ ،پیدل سفر،ایروبک ورزش کے کچھ اور فوائد بھی شامل ہیں جیسےکولیسٹرول اور بلڈ پریشر میں کمی، قوت برداشت میں اضافہ ،دل کی شرح رفتار میں توازن،وزن میں کمی، جسمانی و ذہنی دبا و میں کمی،بہتر نیند۔یہاں یہ ابہام بھی دور ہونا چاہیے کہ چھاتی میں ہرگلٹی یا گانٹھ کینسر نہیں ہوتی لیکن احتیاط لازم ہے۔چھوٹی سے چھوٹی گلٹی چاہے وہ مٹر کے دانے کے برابر ہی کیوں نہ ہو کو ہر گز نظر انداز نہ کریں اور بروقت مستند معالج سے رابطہ ضرورکریں ۔ ہمارے معاشرےمیں بھی بریسٹ یا چھاتی کینسرکا پھیلائو لمحہ فکریہ ہے۔ بدقسمتی سے نظام صحت عدم توجہی اور زبوں حالی کا شکار رہا ہے۔صحت و علاج معالجہ کی سہولیات نہ صرف ناکافی ہیں بلکہ عوام کی پہنچ سے بھی دور ہیں۔موجودہ مہنگائی اور ادویات کی بڑھتی ہوئی ہوش ربا قیمتوں نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے جو کہ انتہائی افسوس ناک بات ہے۔حکومت کو چاہیے کہ ادویات کی قیمتیں میں کمی،صحت کی دیگر سہولیات کی دستیابی کے ساتھ ساتھ ہر بڑے سرکاری ہسپتال میں میمو گرافی کی فراہمی یقینی بنائے تا کہ بریسٹ کینسر جیسے موذی مرض کی بروقت تشخیص و علاج ممکن ہو سکے۔اس کے علاوہ سرکاری سر پرستی میں معاشرے میں ہر سطح پر اس مہلک و جان لیوا مرض کے خلاف تشہیری مہم باقاعدگی سے شروع کی جائے۔تعلیمی ادارے اس مقصد کے لیے موئثر فورم ثابت ہو سکتے ہیں جو کہ معاشرے میں بریسٹ کینسرسے متعلق شعور وآگاہی اُجاگر کرنے سمیت خواتین کو بروقت تشخیص و علاج کی طرف راغب کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ خواتین میں شعو
ر وآگاہی کی کمی کے باعث چھاتی کے کینسر کے مریض مستند معالج یا مرکز صحت اس وقت رجوع کرتے ہیں جب کینسر کافی پھیل چکا ہوتا ہے اور اس وقت دنیا بھر میں کسی بھی قسم کا جدید علاج معاون ثابت نہیں ہو سکتا ۔