طارق منور۔ٹنگمرگ
کسی خاص کو الودع کرتے ہوئے جو کرب دل پر گزرتے ہیں۔ وہ لفظوں سے آشکار نہیں ہوا کرتے ہیں۔ بس چہرے پر غمِ فراق کے آثار رونما ہوجاتےہیں۔ آج ہم سے جو مہمان رخصت ہونے جارہا ہے۔ اُس کے ساتھ لائے ہوئےتحایفوں سے کون کون بے گاہ ہوگا۔ رحمت، برکت، مغفرت اور محبت اور نا جانے کیا کیا۔۔۔ ایک طرف یہ سب منظر دیکھ کر دل پر رقت طاری اور آنکھوں سے آنسوں تھمنے کا نام نہیں لیتے ہیں اور دوسری طرف ہر مسلمان کی جبیں پر عید کی خوشی کے آثار نمایاں ہورہی ہیں۔ یہ سال کی پہلی عید ہے جو کہ شوال کی پہلی تاریخ پر شوق و ذوق سے منائی جاتی ہے۔ گھروں میں مسجدوں میں اور بازاروں میں ایک الگ چہل پہل ہوتی ہے۔ نئے نئے کپڑوں اور قسم قسم کی خوشبوں کا استعمال ہوتا ہے۔ بچے اپنے ایک الگ انداز سے عید کی لذت چکھتیں ہیں۔اس دن مسلمان بے شمار قسم در قسم کے پکوان پکائیں جاتے ہیں۔ یہ سب جائز ہے کیوں کہ یہ مسرت اور فرحط من جانب اللہ ہے۔ لیکن جہاں یہ سب دیکھنے کو ملتا ہے وہی ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ ایسا ہے جو دُکھ درد یا پھر کسی اور وجہ سے اس عید کی خوشی کو اکمل طریقے سے منا نہیں پا رہےہیں۔ اسی لیے رسول اللہؐ کا فرمان مبارک ہے کہ ہر وقت خاص کر غم اور خوشی کے مواقع پر اپنے پڑوسیوں ، رشتہ داروں، یتیموں ، مسکینوں اور عزیز و اقارب کی پروا اور خیال رکھا جائے ، ان کا پُرسانِ حال بنیں تاکہ ان کو یہ محسوس نہ ہوجائے کہ ہم بے سہار اور تنہا ہیں۔ ادھر مجھے ایک واقع یاد آرہا ہے ۔ جسے میری اس تحری رقمطراز کر نے کا مقصد کسی حد تک حاصل ہوجائیں۔ عید کا دن تھا کہ حضور نبی اکرمؐ غالباً نماز کے لئے جارہے تھے تو راستے میں بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا۔ مگر ان تمام بچوں میں سے ایک بچہ تھوڑا اداس اداس نظر آرہا تھا ۔آپؐ نے دریافت کرنے کے بعد اُسے اپنے گھر لائےپھر حضرت عایشہؓ سے کہا کہ اسے اچھی طرح نہلائو اور بالوں میں کنگھی کرو، مطلب کہ اسے ایسے تیار کرو کہ اسے یہ محسوس نا ہوجائے کہ میرا کوئی نہیں ہے۔ پھر رسولِ کریمؐ اس یتم بچے کو اپنے دوشِ مبارک پر اُٹھا کر عید گاہ میں لیتے ہیں۔ اس سے یہ اندازا ہوتا ہے کہ کس قدر کا خیال اور کس درجے کی مُروّت نبی کریمؐ اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ ایسے ہزاروں واقعات سیرت کی کتابوں میں ملتے ہیں جو کہ ہم جاہ بہ جاہ سنتے رہتے ہیں۔لیکن المیہ اس بات کا ہےکہ ہم نے یہ واقعات صرف چسکوں کے رکھیں ہیں۔ اصل میں ہمیں ان سے سماج کی فکر لینی تھی کہ ہم کس طرح سے ایک غمزدہ اور ایک افسردہ دل کو فرحت پہنچا سکیں۔ صرف اپنے لئے جینا اور اپنی اپنی خواہشوں کو سنوارنا اچھی بات نہیں۔ اپنے لئے جینا کس کو نہیں آتا، زندگی جب دوسروں کیلے وقف کردی جاتی ہے تو روح کو عجیب سی تسکین ملتی ہے۔ عبادت سے جنت اور خدمت سے خدا ملتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ہر حال میں ایک دوسرے کا پرسانِ حال بننا چاہئے۔بھائی اپنی بہن کا اور پڑوسی اپنے پڑوسی کا ،دوست اپنے دوست کا اور رشتہ داروں کا بھر پور طریقے سے خیال رکھیں، تاکہ ہر ہر چہرے پر مسکراہٹ آ سکیں۔ اسی سے معاشرے میں امن اور سکون کی رنگت اور نکہت برقرار رہتی ہے۔ خدا کرے کہ یہ عید ہر ایک کی زندگی میں بہار لائیں۔
رابطہ۔8082022014
[email protected]