قاسم آج دس محرم الحرام اپنی خصوصیات و فضائل کے ساتھ اُمت مسلمہ پر جلوہ افگن ہے۔ اسلامی سال کا یہ پہلا مہینہ تاریخی لحاظ سے کئی حوالوں سے یادگار اہمیت کا حامل ہے ۔ دیگر فضائل و خصوصیات کے علاوہ اس ماہ کی ابتداء، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے یومِ شہادت سے ہوتی ہے اور پھر دس محرم الحرام، نواسۂ رسول ﷺ اور سردارِ نوجونانِ جنت حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا یومِ شہادت ہے۔اسلامی تاریخ کے اس الم ناک سانحے کا اثر جہاں ایک عام مسلمان پر ہوا، وہیں مسلم و غیر مسلم شعراء و ادباء نے روایتی و غیر روایتی انداز میں مرثیے، نوحے، سلام اور نظم و نثر میں شہدائے کربلا ؓاور ان کی قربانیوں کو سلام عقیدت و نذرانہ محبت کے طورپیش کئے ۔ اردو میں مولانا جوہرؔ کا یہ شعر زبان زد عام ہے ؎
قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اس شعرمیں ہرکربلا سے ہر شہادت گاہ مراد لے کر قربانی و شہادت کو احیائے اسلام کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ مولانا محمد علی جوہرؔ مسلمانوں کے عظیم رہنما اور تحریکِ آزادی ٔ ہندکے سرگرم لیڈر تھے۔ صحافت او ر اردو ادب سے لگاؤ اور انقلابی سوچ کے سبب انہوں نے بےشمار غزلیں و نظمیں مجاہدانہ رنگ میں لکھیں۔ مذکورہ بالا شعر ُان کی ایک غزل کامقطع ہے۔تاہم اس غزل کا مطلع بھی اردو کے مشہور اشعار میں ایک ہے ؎
ورِ حیات آئےگا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد
اس شعر کو اگر شہادتِ حسین رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسوۂ حسینی ؓ کی ہمہ گیری، آفاقیت،اور بقا کی وجہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہوکر سامنے آ جاتی ہے۔ مولانا جوہر کی اس غزل کے اسی بحرمیں مولانا سیّد نفیس الحسینی شاہ صاحب (نفیس رقم) کی نظم ’’ہر کربلا کے بعد‘‘ہے۔ مولانا کی شخصیت کے کئی پہلو تھے، فنِ خطاطی میں ان کو کمالِ دسترس تھی، ساتھ ہی ساتھ وہ خوش کلام و خوش گلو شاعر اور مرجعِ خلائق شیخِ طریقت بھی تھے۔ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے محبت و عقیدت ان کے لئے راہِ سلوک و طریقت اختیار کرنے کا مقدمہ اور پیش خیمہ بنی۔(برگ گل ص33)۔اسی جذبۂ عشق و محبت نے ان کے قلم سے ’’کربلا کے بعد‘‘ جیسی ولولہ انگیز نظمیں ہزاروں بندگانِ خدا کی ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ بنیں۔ نظم ملاحظ ہو ؎
لایا ہے خون، رنگِ دگر کربلا کے بعد
اونچا ہوا حسینؓ کا سر کربلا کے بعد
پاسِ حرم، لحاظِ نبوت، بقائے دیں
کیا کچھ تھا اس کے پیشِ نظر کربلا کے بعد
اے رہ نوردِ شوق، شہادت ترے نثار
طے ہوگیا ہے تیرا سفر کربلا کے بعد
آباد ہو گیا حرم ربِّ ورسولؐ کا
ویراں ہوا بتول ؓکا گھر کربلا کے بعد
ٹوٹا یزیدیت کی شبِِ تار کا فسوں
آئی حسینیت ؓکی سحر کربلا کے بعد
اک وہ بھی تھے کہ جان سے ہنس کر گزر گئے
اک ہم بھی ہیں کہ چشم ہے تر کربلا کے بعد
جوہرؔ کا شعر صفحۂ ہستی پہ ثبت ہے
پڑھتے ہیں جس کو اہلِ نظر کربلا کے بعد
’’قتل ِحسین ؓاصل میں مَرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘
قتلِ حسین اصل میں مَرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد