مسعود محبوب خان
دنیا ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جہاں ہر چہرہ، ہر منظر اور ہر شے کسی نہ کسی رنگ و روپ میں نظر آتی ہے۔ کبھی یہ رنگ حقیقت کے قریب ہوتے ہیں اور کبھی محض دھوکہ۔ انسان کی آنکھ سب سے پہلے ظاہر کو دیکھتی ہے، مگر حقیقت وہ ہے جو پردے کے پیچھے چھپی ہوتی ہے۔ یہی وہ نقطۂ آغاز ہے جہاں سے زندگی کے وہ اسباق شروع ہوتے ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے صرف دیکھنا کافی نہیں، دل کی آنکھ کھولنی پڑتی ہے۔ صدیوں سے یہ بات دہرائی جاتی رہی ہے کہ ’’ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی‘‘، مگر یہ محض ایک کہاوت نہیں، بلکہ انسانی تجربے کا نچوڑ ہے۔ یہ وہ سچ ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی میں اصل اہمیت ظاہر کی نہیں، باطن کی ہے۔ ذیل کی تحریر اسی تلخ و شیرین حقیقت کا آئینہ ہے جو انسان کی سادہ نادانی سے شروع ہو کر دنیا کی پیچیدہ چالوں تک جا پہنچتی ہے۔
بچپن کے دنوں کی سادگی اور معصومیت ایسی ہوتی ہے کہ دل کی آنکھوں سے دیکھی جانے والی ہر چمکتی چیز ہمیں سونا دکھائی دیتی ہے۔ تب ہمیں نہ تجربے کا شعور ہوتا ہے، نہ دنیا کی حقیقتوں کا فہم۔ امی جان کی وہ سادہ مگر گہری بات ’’ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی‘‘ بچپن میں محض ایک نصیحت کی صورت ذہن سے ٹکرا کر گزر جاتی تھی۔ اس وقت آگ کے شعلے ہمیں دلکش لگتے تھے، ان کی لپک اور روشنی ہمیں اپنی طرف کھینچتی تھی۔ نادانی میں ہم آگ کو چھونے کا فیصلہ کر بیٹھتے اور پھر جب انگلیاں جلتی تھیں تب جا کر سمجھ آتی کہ یہ چمک صرف دھوکہ تھی، اس کے پیچھے درد پوشیدہ تھا۔
مگر افسوس کہ یہ سبق، جو بچپن میں سیکھا، زندگی کے سفر میں آگے جا کر ہم اکثر بھول جاتے ہیں۔ جسمانی زخم تو بھر جاتے ہیں، مگر اخلاقی اور روحانی نادانی کا زخم شاید کبھی نہ بھر پائے۔ آج بھی جب ہم بالغ ہو چکے ہیں، جب دنیا کے میل جول کا شعور حاصل ہو چکا ہے، تب بھی اکثر آنکھیں صرف ظاہر کی چمک دمک پر ٹھہرتی ہیں۔ کسی شخص کے عمدہ لباس، قیمتی گھڑی، مہنگی گاڑی یا شان و شوکت سے مزین چہرے کو دیکھ کر ہم فوراً اسے معزز اور قابلِ عزّت گردان لیتے ہیں۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ انسان کی اصل قیمت اس کے اخلاق، کردار اور باطنی روشنی سے جانی جاتی ہے، نہ کہ اس کے لباس یا دولت سے۔ لباس کی چمک صرف دیکھنے والوں کو دھوکہ دیتی ہے، مگر دلوں کو روشن نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا میں پیسے اور نمود و نمائش کی قدر تو بڑھ گئی ہے، مگر انسانیت، خلوص اور سچائی جیسے جوہر ماند پڑ گئے ہیں۔ ہم نے اپنے اخلاقی اقدار کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ آج اگر کوئی سادہ لباس پہنے، مگر نیک دل اور پاکیزہ کردار کا حامل ہو، تو اسے نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور اگر کوئی فریب دہ چمکتی پوشاک میں لپٹا ہو تو لوگ اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔
یاد رکھنا چاہیے کہ جو شعلہ روشنی دیتا ہے، وہی ہاتھ بھی جلا دیتا ہے۔ زندگی کی حقیقت بھی ایسی ہی ہے، ہر چمکتی چیز فائدہ مند نہیں ہوتی۔ اصل سونا وہ ہوتا ہے جو دلوں کو نرم کرے، جو انسان کی باتوں اور رویوں میں جھلکے، جو کردار کی خوشبو بن کر مہکے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دوبارہ اپنی اخلاقی بصیرت کو جگائیں، دل کی آنکھوں سے دیکھیں، ظاہری چمک کے پردے کے پیچھے چھپے سچ کو پہچانیں۔ کیونکہ زندگی کے اصل موتی چمکتے نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔
’’جو چمکتا ہے وہ سونا نہیں ہوتا‘‘ یہ محض ایک کہاوت نہیں بلکہ انسانی زندگی کی گہرائیوں میں اترنے والی ایک سچائی ہے جو صدیوں کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہے۔ دنیا کی ہر روشن اور دلکش چیز حقیقت میں وہ نہیں ہوتی جو وہ نظر آتی ہے۔ اس کی بیرونی چمک دمک اکثر اس کے اصل جوہر اور حقیقت کو چھپا لیتی ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ ظاہری چیزوں کی جانب جلدی مائل ہو جاتا ہے۔ سنہری لباس، قیمتی زیورات، چمکتے چہرے، دلکش باتیں، یہ سب بظاہر دل کو بھا لیتی ہیں، مگر ضروری نہیں کہ ان کے پیچھے سچائی، خلوص اور محبت پوشیدہ ہو۔ جیسے بادلوں کے پیچھے چھپا ہوا سورج ہمیشہ نظر نہیں آتا، ویسے ہی انسان کا اصل کردار اور اصلیت بھی بسا اوقات ظاہری پردوں میں اوجھل ہو جاتی ہے۔
آج کی دنیا میں خوبصورتی اور وقار کا معیار بدل چکا ہے۔ اب کسی کی عزّت و عظمت اس کے اخلاق یا کردار سے نہیں بلکہ اس کے لباس، چہرے کی تراش خراش، جسمانی بناوٹ اور مال و دولت سے ناپی جاتی ہے۔ خوبصورتی کے پیمانے چہرے کے خدوخال، مہنگی خوشبو، جدید فیشن اور قیمتی گاڑیوں تک محدود ہو چکے ہیں۔ لوگ اپنے باطن کو سنوارنے کے بجائے ظاہر کو سجانے میں زیادہ مشغول رہتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جو دل خوبصورت نہیں، جو نیت صاف نہیں، اس کے لباس کی چمک اور چہرے کی دمک محض دھوکہ ہے۔ اندر سے خالی انسان، چاہے وہ سونے میں بھی لپٹا ہو، کھوکھلا ہی رہتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں یہ کہاوت ایک گہری نصیحت میں بدل جاتی ہے۔ یہ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ زندگی کے فیصلے صرف دیکھ کر نہیں کرنے چاہئیں۔ چاہے وہ دوست بنانا ہو یا کسی کی باتوں پر یقین کرنا، کسی پیشکش کو قبول کرنا ہو یا کسی راستے کا انتخاب ہمیں اس کے باطن کو پرکھنا چاہئے، اس کی حقیقت کو جانچنا چاہئے۔
انسان کا اصل حسن اس کے کردار میں ہے۔سچائی، خلوص، ہمدردی، وفاداری، اور عاجزی میں۔ یہ خوبیاں ایسی روشنی ہیں جو وقت کے ساتھ مدھم نہیں ہوتیں بلکہ مزید نکھرتی ہیں۔ زندگی میں ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ہر وہ چیز جو آج دلکش نظر آتی ہے، کل کو افسوس یا نقصان کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم ظاہری چمک کے دھوکے میں آ کر اپنی راہیں نہ کھو دیں۔ اصل دانشمندی یہی ہے کہ انسان ظاہری اور باطنی پہلوؤں میں فرق کرے اور ہمیشہ اس سچائی کو یاد ر کھے،’’ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی!‘‘۔ انسانی فطرت کا یہ کمال اور المیہ دونوں ہے کہ وہ بظاہر مسکراہٹوں اور خوش اخلاقی میں چھپے ہوئے سچ اور جھوٹ کو ایک نظر میں پہچان نہیں پاتا۔ صدیوں سے انسان ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے فن میں ماہر ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ خوش گفتاری، شیریں بیانی، دلکش انداز، نرم لہجے یہ سب ایسی چمکدار پرتیں ہیں جو حقیقت کے چہرے پر پڑی نقاب کی مانند ہیں۔ مگر ان نقابوں کے پیچھے کیا چھپا ہے، یہ جانچنا ہر دل کے بس کی بات نہیں۔
زندگی کی راہوں میں ایسے بے شمار لوگ ملتے ہیں جو بظاہر ہماری خیرخواہی کا دعویٰ کرتے ہیں، محبت اور خلوص کی باتیں کرتے ہیں، مگر ان کے دل کے نہاں خانوں میں کچھ اور ہی ارادے پل رہے ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو ہمیں اپنے نرم رویے اور خوشگوار برتاؤ سے متاثر کرتے ہیں، ضروری نہیں کہ ان کے دل بھی اتنے ہی روشن اور شفاف ہوں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ان کی مسکراہٹوں کے پیچھے فریب چھپا ہوتا ہے، ان کے لہجے کی نرمی کے پیچھے خود غرضی، اور ان کے وعدوں کے پیچھے محض وقتی فائدے کی خواہش۔ یہی وجہ ہے کہ عقل و شعور رکھنے والے افراد ہمیشہ ظاہری چمک دمک یا ظاہری خوبصورتی کے دھوکے میں نہیں آتے۔ وہ جانتے ہیں کہ کسی انسان کی اصل قیمت اور حیثیت اس کے لباس یا چہرے کی بناوٹ سے نہیں بلکہ اس کے دل کے آئینے سے معلوم ہوتی ہے۔ جس طرح صاف پانی کا بہاؤ اندرونی صفائی کی علامت ہوتا ہے، ویسے ہی کسی انسان کا کردار، سچائی، امانت داری اور خلوص اس کی اصل خوبصورتی کا معیار ہوتے ہیں۔
آج کے دور میں جہاں ہر دوسرا چہرہ خوشنما ماسک پہنے نظر آتا ہے، وہاں اصل دانشمندی یہ ہے کہ انسان ان چہروں کے پیچھے چھپے سچ کو تلاش کرے۔ ہمیں اپنے فیصلے لوگوں کے ظاہری انداز، مہنگے لباس یا خوشگوار باتوں کی بنیاد پر نہیں کرنے چاہئیں۔ بلکہ ہمیں ان کے اعمال، ان کے رویے کے تسلسل اور مشکل وقت میں ان کے رویے کو دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ واقعی کیسے انسان ہیں۔ زندگی کی اصل خوبی یہی ہے کہ ہم آنکھوں سے کم اور دل سے زیادہ دیکھیں۔ آنکھ تو صرف رنگ اور روشنی کو دیکھتی ہے، مگر دل کردار اور نیت کو پہچانتا ہے۔ لہٰذا ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے، ’’ہر مسکراہٹ خلوص کی علامت نہیں ہوتی، ہر نرم بات محبت کی گواہی نہیں دیتی اور ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔‘‘
انسان کو چاہیے کہ وہ ظاہر کے پردوں کے پیچھے جھانک کر اصل حقیقت کو دیکھے اور اپنی زندگی کے تعلقات اور فیصلے اسی بنیاد پر قائم کرے۔ یہی وہ اصول ہے جو انسان کو دھوکہ دہی اور فریب کی دنیا میں محفوظ رکھتا ہے اور اسے سچائی اور خلوص کے راستے پر گامزن کرتا ہے۔ آخرِکار زندگی کا ہر قدم ہمیں یہی سکھانے آتا ہے کہ ظاہر کے پیچھے چھپی حقیقت کو سمجھنا آسان نہیں مگر لازم ہے۔ دلوں کی دنیا کو دیکھنے کے لیے آنکھوں کی نہیں، احساس اور بصیرت کی ضرورت ہے۔ ہم جتنا جلد یہ بات سمجھ لیں کہ ہر چمکنے والی چیز میں خیر نہیں ہوتی، اتنا ہی بہتر ہے۔
یہ دنیا ایک میلہ ہے، جہاں رنگ برنگی روشنیوں میں اصل اور نقل کی تمیز کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مگر اصل کامیابی انہی کو نصیب ہوتی ہے جو دھوکہ دینے والے پردوں کو چاک کر کے سچائی کو پہچان لیتے ہیں۔ اس مضمون کی روشنی میں یہی پیغام دلوں میں بٹھانا ضروری ہے کہ انسان کا وقار اس کے لباس، دولت یا شہرت سے نہیں بلکہ اس کے کردار، سچائی اور خلوص سے جُڑا ہوتا ہے۔ یاد رکھیں! اصل خوبصورتی وہ ہے جو دل کو سنوارے، اصل دولت وہ ہے جو باطن کو روشن کرے اور اصل سونا وہ ہے جو کردار کی روشنی میں جھلکے۔ لہٰذا زندگی کے سفر میں ہر چمکنے والی چیز کے پیچھے بھاگنے کے بجائے، ٹھہر کر سوچئے، پرکھئے اور پھر آگے بڑھئے۔ کیونکہ سچائی، خلوص اور محبت وہ خزانے ہیں جو نہ وقت کی گرد سے ماند پڑتے ہیں، نہ دھوکہ دہی کے بازاروں میں بِکتے ہیں۔
رابطہ۔09422724040
[email protected]
���������������