یہاں ایک مسئلہ کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ بالا احادیث اور رسول پاکﷺ کے طرزعمل (یعنی عہدہ طلب کرنے والوں یا اس کی خواہش رکھنے والوں کو عہدہ نہ دینا ) سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کا کوئی عہدہ خود طلب کرنا جائز ہی نہیں لیکن جمہوری نظام میں توبہت سے سرکاری مناصب (مختلف شعبوں کی ملازمت وغیرہ ) بغیر درخواست کے مل ہی نہیں سکتے تو کیا ان سب سے دست بردار ہوجانا چاہیے ؟ ظاہر ہے کہ دست برداری کا موقف اختیار کرنا پوری قوم وملت کو سختی میں ڈالنے سے تعبیر کیا جائے گا تو ہمیں اس سلسلہ میں فقہاء کے ان اصولوں کومدنظر رکھنا چاہیے جو ان لوگوں نے سرکاری عہدہ اور منصب کو طلب کرنے کے جواز کے سلسلہ میں اپنایا ہے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی سرکاری عہدہ اور منصب کو طلب کرنا اس صورت میں جائزہے جب انسان یہ محسوس کرے کہ اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کو صحیح طور سے انجام دینے والا کوئی دوسرا شخص موجود نہیں ہے اور خود کے بارے میں اسے اندازہ ہو کہ وہ اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دے سکے گا اور اس کی نیت (جسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے) جاہ و مال کی نہ ہو بلکہ خلق اللہ کی صحیح خدمت اور انصاف کے ساتھ ان کے حقوق کی حفاظت کی ہو ۔نیز اسے کسی گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی نہ ہو۔فقہاء نے اپنے اس موقف پر سورۃ یوسف کی آیت ۵۵ سے استدلال کیا ہے جس میں یوسف علیہ السلام کا بادشاہ مصر سے امور خزانہ پر مامور کرنے کی درخواست کرنے کا ذکر ہے اور یہ رائے قائم کی ہے کہ یوسفؑ کا عہدے کی طلب کرنا انہی بنیادوں پر تھا۔(معارف القرآن از مفتی محمد شفیع صاحبؒ، مکتبہ معارف القرآن، کراچی، ۲۰۰۸ء، جلد۵، صفحہ ۹۰ ، ۹۱)۔
اسی طرح جو لوگ نظام قضا (Judiciary) یامنصب قضا (Post of Adjudicator) سے وابستہ ہوں وہ بھی بدرجہ اولیٰ امانت دار ہیں۔ان پر یہ ذمہ داری عائد ہے کہ قوانین و شواہد کی روشنی میںسیاسی دباؤ اور ذاتی مفادات سے بلند ہوکر عدل و انصاف کو قائم کریں ۔یہ کوئی معمولی کام نہیں بلکہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جس پر ملک میں امن و سکون کے قیام کاانحصار ہے،اس میں خیانت کی وجہ سے انصاف سے محروم افراد قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوسکتے ہیں اورمختلف قسم کے فساد پھیلا کر ملک کا امن و سکون غارت کرسکتے ہیںجیساکہ موجودہ عالمی منظرنامہ عکاسی کررہا ہے۔ظاہر ہے یہ اسلام کے ایک بنیادی مقصد یعنی ’’ دنیا کو زندگی گزارنے کے لئے ایک بہتر جگہ بنانا‘‘ کے خلاف ہے اس لئے اس میں خیانت اللہ اور اس کے رسول کو کیسے پسند ہوسکتی ہے؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر دور میں اس ذمہ داری کو پورا کرنا ایک مشکل امر رہا ہے ۔اسی لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص لوگوں کے درمیان قاضی بنا دیا گیا (گویا) وہ بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا‘‘۔(سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیۃ، بروایت ابوہریرہؓ)۔بغیر چھری کے ذبح کرنے میں جانور کو تکلیف اورمشقت چھری سے ذبح کرنے کے مقابلہ میں یقیناً زیادہ ہوگی۔تو اس حدیث میں رسول اللہﷺ کی مراد یہ ہے کہ جسے قاضی بنایا گیا اسے انتہائی مشقت اور آزمائش میں ڈال دیا گیا۔آپ ؐ نے یہ بھی فرمایا:’’قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں؛ ایک جنتی اور دو جہنمی۔رہا جنتی تو وہ ایسا شخص ہوگا جس نے حق کو جانا اور اسی کے موافق فیصلہ کیا،اور وہ شخص جس نے حق کو جانا اور اپنے فیصلہ میں ظلم کیا وہ جہنمی ہے۔اور وہ شخص جس نے نادانی سے لوگوں کا فیصلہ کیا وہ بھی جہنمی ہے‘‘۔(سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیۃ،بروایت ابوہریرہؓ)۔اس کے بالمقابل حکمت اور حق کے ساتھ فیصلہ کرنے والے قاضی کی آپؐ نے تعریف بھی کی۔ارشاد فرمایا: ’’رشک بس دو آدمیوں پر ہی کیا جانا چاہیے؛ ایک وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا پھر اس نے اسے حق کے راستے میں خرچ کیااور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے حکمت (قرآن ، حدیث و فقہ کا علم) عطا کی اور وہ اس کے موافق فیصلے کرتا ہے اور اس کی لوگوں کو تعلیم دیتا ہے۔‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب الأحکام ، بروایت عبد اللہ بن مسعودؓ)۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے ان کے تعلق سے فرمایا: ’’(دنیا میں ) انصاف کرنے والے لوگ قیامت کے دن رحمان کے دائیں طرف نور کے ممبروں پر ہوں گے حالانکہ اس (رحمان) کے دونوں طرف دائیں ہیں، وہ لوگ جو اپنی بیویوں کے ساتھ اور اپنی اولاد کے ساتھ اور جس معاملے کے وہ نگراں بنتے ہیں اس کے ساتھ انصاف سے کام لیتے ہیں‘‘۔ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، بروایت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ)۔اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ جن سات قسم کے لوگوں کو اللہ پاک قیامت کے دن عرش کے سائے میں جگہ دیں گے ان میں ایک عادل حکمراں بھی ہوگا۔ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، بروایت ابوہریرہؓ)۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آخرت میںصرف وہ لوگ سرخرو ہوں گے جنہوں نے دنیا میں اپنے منصب اور عہدوں کو امانت سمجھ کر اس کی ذمہ داریوں کوعدل و احسان کے ساتھ انجام دیا ہوگا جو کہ آسان کام نہیں ہے اور جس نے اپنی ذمہ داریوں میں خیانت کی ہوگی وہ وہاں رسوا اور ذلیل کیا جائے گا اور جہنم اس کا ٹھکانہ ہوگا ۔اس لئے اول درجہ میں تو ہمیں جاہ طلبی کے مرض سے ہی چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے کہ اکثر اوقات یہ دنیا میں بھی آزمائش اور رسوائی کا سبب ہوجاتا ہے جیسا کہ آج کل عام طور پر دیکھنے کو ملتا ہے اور آخرت کا معاملہ تو فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کی صورت میں اور بھی سنگین ہے۔رسول اللہ ﷺ نے اپنے پیارے صحابی عبدالرحمٰن بن سمرہؓ کو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی: ’’اے عبد الرحمٰن بن سمرہ! کبھی امارت (حکومت کے کسی عہدہ) کی درخواست نہ کرنا،کیوں کہ اگر تمھیں یہ مانگنے کے بعد ملے گا تو تم اسی کے حوالے کردئے جاؤگے (اللہ پاک اپنی مدد تجھ سے اٹھالے گا کہ تو جانے تیرا کام جانے) اور اگر وہ عہدہ تمھیں بغیر مانگے مل گیا تو اس میں (اللہ کی طرف سے ) تمہاری اعانت کی جائے گی‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب الأحکام ، بروایت عبد الرحمٰن بن سمرہؓ)۔اس حدیث میں ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ عہدہ طلب کرنے پر اللہ کی طرف سے مدد بھی اٹھ جاتی ہے اورا نسان آزمائش میں ڈال دیا جاتا ہے اور اگر عہدہ بغیر طلب کئے ملتا ہے تو اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ اس لئے جہاں تک ممکن ہو خود عہدہ طلب کرنے سے ہمیں پرہیز کرنا چاہیے اور جب حکومتی یا ملی سطح سے کسی منصب کی پیشکش کی جائے تو اپنی صلاحیت اور حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ اس کی ذمہ داریوں کو ہم کماحقہ ا دا کرسکیں گے یا نہیں ، اگر نہیںتو ہمیں وہ منصب قبول ہی نہیںکرنا چاہیے تاکہ دنیا و آخرت کی رسوائی سے محفوظ رہ سکیں اور اگر قبول کریں تو عہدے کو امانت سمجھ کر اس کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ بروز حساب کہیں ہم ان لوگوں میں نہ شامل ہوں جن کے بارے میں رسول پاکﷺ نے ان الفاظ میں پیش گوئی کی ہے۔ترجمہ : ’’ سرکاری اہلکاروں کے لئے خرابی ہے، عنقریب کچھ لوگ اس بات کی آرزو کریں گے کہ انہیں ان کے بالوں کے ساتھ اوج ثریا پر لٹکا دیا جاتا، لیکن انہیں کسی چیز( حکومتی عہدے) کا اہلکار مقرر نہ کیا جاتا‘‘۔(صحیح ابن حبان، کتاب السیر، بروایت ابوہریرہؓ)۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس سیہ کار کی لغزشوں کو بھی معاف فرمائے اور اپنی منشاء کے مطابق بقیہ زندگی گزارنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔نیز امت کے اندر امانت داری کے مٹتے ہوئے احساس کو بیدار فرمائے اور اس سلسلہ میں راقم کی اس حقیر سی کوشش کو قبول فرمائے۔آمین! ( ختم شد)
[ رابطہ :ای میل : [email protected] موبائل:09471867108]