خالد رضا احسنی
یہ بات اظہر من شمس ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی ہر موڑ پر ہدایت و رہنمائی فرمائی خواہ کسی امر کو کرنے کی تلقین فرمائی ہو یا اس سے باز رہنے کا حکم صادر فرمایا ہو پس جن امور سے باز رہنے کا حکم فرمایا انہیں میں سے ایک فضول خرچی ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟
جس جگہ شرا عادة خرچ کرنا منع ہو وہاں خرچ کرنا جیسے فسق و فجور اور گناہوں والی جگہوں پر خرچ کرنا اسراف کہلاتا ہے اللہ عزوجل نے متعدد جگہ اسراف سے بچنے کا حکم فرمایا اور اس کو سخت ناپسند فرمایا، ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے،’’ اے آدم کی اولاد اپنی زینت لو جب مسجد میں جاؤ اور کھاؤ پیو حد سے نہ بڑھو ،بے شک حد سے بڑھنے والے اللہ کو پسند نہیں۔‘‘اس سےہمیں یہی درس ملا ہے کہ اسراف و فضول خرچی سے حتی المقدور پرہیز کیا جائے۔ ہاں یہ مطلب نہیں کہ بخیل و تنگ دل بن جائیں ،جتنی ضرورت ہو، اتنا ہی خرچ کیا جائے۔ اسلام نے جہاں اسراف اور بے جا خرچ کرنے کی ممانعت فرمائی ہے وہیں بخل اور تنگ دلی کی بھی مذمت فرمائی،اگر ہم اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو جائیں تو ہم ہر معاملے میں دیگر لوگوں کے مقابل اطمینان و سکون کے ساتھ زندگی گزر بسر کر سکتے ہیں۔
آج ہمارے معاشرے میں روز افزوں اسراف بڑھتا جا رہا ہے ۔اسراف و فضول خرچی سے بچنے والا کبھی تنگ دستی و فقر و فاقہ میں مبتلا نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ وہ نہایت سوچ سمجھ کر خرچ کرتا ہے، وہ نہ تو نام و نمود میں اپنی رقم ضائع کرتا ہے اور نہ ہی عیش و عشرت میں اپنی دولت برباد کرتا ہے، اگر ہم بھی اعتدال پسندی اور میانہ روی اختیار کر لیں تو ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں اور خرابیوں سے از خود نجات پا جائے گا۔عہد رفتہ میں مسلمان و دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ معاشی حالات سے اس لئےبھی دوچار ہیں کہ جتنی دن بھر کی آمدنی نہیں ہوتی، اس سے زیادہ تو ان کے اخراجات ہوتے ہیں ہر چیز میں اسراف ہو رہا ہے۔ چاہیں وہ وہ اشیائے خرد و نوش ہوں یا پہننے اوڑھنے کے معاملات ۔آج کا بڑا المیہ یہ ہے کہ شادی و پارٹی وغیرہ میں فضول خرچی زوروں پر ہے بارہا دیکھنے میں آتا ہے کہ شادی و پارٹی میں جن ٹیبل وغیرہ پہ کھاتے ہیں، اسی ٹیبل کے نیچے اگر آپ نظر کریں تو جتنا کھانا کھایا نہیں اس سے زیادہ ٹیبل کے نیچے پڑا ہوا ہوتا ہے۔ ایسے حالات سے ہر شخص واقف ہے ۔
آج ہم جن پریشانیوں و بے چینیوں میں مبتلا ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں اعتدال و میانہ روی کا فقدان ہے۔ اسراف و فضول خرچی کے ہم عادی ہوچکے ہیں۔ایک ہوتا ہے اسراف دوسرا تبزیر ان دونوں میں کچھ فرق ہے۔
اسراف کہتے ہیں کسی چیز کو ضائع کئے بغیر حد سے تجاوز کرنا، مثلاً ہم ایسا گراں قیمت لباس جس کی قیمت ہماری ضرورت کے لباس سے دس گنا زیادہ ہو یااپنے کھانے کو اتنے زیادہ پیسے سے تیار کریں کہ اتنے پیسے میں کئی لوگوں کو کھانا کھلایا جا سکتا ہو، یہ اسراف کہلاتا ہے۔
لیکن تبذير کہتے ہیں کہ کسی چیز کو اس طرح استعمال یا خرچ کیا جائے، جیسے کہ ایک آدمی کے ناشتے کے لئے دس لوگوں کے لیے ناشتہ تیار کرلینا باقی ناشتہ کوڑے دان کی زینت بنے جیسا کہ ہمارے بعض صاحب دولت کرتے ہیں۔بسا اوقات اسراف اور تبزیر معنیٰ واحد پر مشتمل ہوتے ہیں۔
اسراف فضول و خرچی کی بڑی وعید آئی ہے لیکن ہم اس طرف بالکل توجہ نہیں دیتے۔ پورا کا پورا معاشرہ غلو و تقصیر کا شکار ہے، چاہے وہ خوشی کا موقع ہو یا غم و اندوہ کا معاملہ ہو۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا،وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوکھاؤ اور پیو حد سے نہ بڑھو۔ عقلمندی و دانش مندی اسی میں ہے کہ ہم اپنے وسائل کے مطابق زندگی گزاریں جو بھی کام ہو اعتدال و میانہ روی کے ساتھ ہو انسان رزق کی تلاش میں ہمیشہ تگ و دو میں لگا رہتا ہے، کماتا ہے خرچ کرتا ہے، کبھی کبھار تو اخراجات میں غلو کرتا ہے اور کبھی تقصیر سے کام لیتا ہے، ایک لمبے عرصے تک وہ اسی روش پر کاربند رہتا ہے۔ وقت آخر اسے معلوم ہوتا ہے کہ راحت و سکون تو میانہ روی میں ہی تھا، فضول خرچی ایک ایسا عمل ہے جو اللہ کو ناپسند ہے ۔ اسراف صرف کھانے پینے کے ساتھ مختص نہیں بلکہ بے شمار چیزوں میں اسراف جیسی بیماری پائی جاتی ہے۔
پانی میں اسراف عوام تو عوام ہمارے خواص بھی اس فعل میں مبتلا ہیں وضو کرتے وقت وہ اس کا پاس و لحاظ نہیں کرتے کہ پانی کا کتنا اسراف ہورہا ہے ۔ اس طرح ہوٹلوں و ریسٹورنٹ میں جانا گھر پر اچھے پکوان بننے کی باوجود وہ صرف تفریح کی غرض سے جاتے ہیں، جبکہ لیا ہوا کھانا صحیح سے کھاتے بھی نہیں صرف اچھی خاصی رقم دے کر آ جاتے ہیں۔ یہ سب کا سب فضول خرچی میں آتا ہے ۔ اگر ہم خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کریں تو ہمارا مال مشکل وقت میں ہمارے کام آئے گا ۔
یہ کہاوت تو آپ نے بارہا سنی ہوگی غریبی میں آٹا گیلا لیکن ان دنوں آٹا گیلا نہیں بلکہ مہنگا ہو گیا ہے۔ دن بدن روزہ مرہ کی چیزیں پہلے سے کافی مہنگی ہوئیں ہیں، اس وقت لوگ معاشی زندگی سے بے چین و پریشان ہیں، وہیں دیگر استعمال ہونے والی چیزیں بھی مہنگی سے مہنگی تر ہوتی جارہی ہیں،ایسی حالت میں غریبوں کا پیٹ بھر پانا مشکل ہوتا جا رہا ہے مہنگائی کی وجہ سے ایسے حالات میں عام آدمی کے لیے گھر کا خرچ چلانا ایک مشکل عمل ہوتا جا رہا ہے، جس کے سبب ہر آدمی پریشان سے پریشان تر ہے دودھ کھانے پینے کی تمام اشیاء سبزی تیل کے بعد پٹرول ڈیزل کے ساتھ کھانا پکانے والی گیس کی قیمتوں میں بھی بھاری اضافہ ہوا ہے۔ جس کے سبب عوام بے چین و بے سکون ہے
اس وقت دنیا اس بات سے واقف ہے کہ مہنگائی کا جو طوفان برپا ہوا یہ کسی پر مخفی نہیں، ساتھ ہی ساتھ عوام الناس معاشی حالات سے بھی دوچار ہیں۔ ہندوستان کا تقریبا ًہر ایک فرد اس بات کو لے کر متاثر ہے۔ ہماری آبادی کا ایک عظیم طبقہ غربہ مساکین کا ایسے حالات کو لیکر دن بدن مضمحل و مضطرب ہے۔
اسلام اسراف و فضول خرچے سے منع فرماتا ہے اور عقل و خرد والا شخص وہی ہے جو اس فعل سے اپنے آپ کو باز رکھتا ہے اور میانہ روی اختیار کرتا ہے ۔
میرے عزیزو ہمیں اور آپ کو اس بری عادت سے باز رہنا ہوگا، اس میں بھی حکمت ہے کہ اسلام گویا آگے کے حالات کی خبر کر رہا ہے۔ اس وقت اشیاء کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے اگر ہم پہلے ہی سے اپنے ہاتھ کو روکے رکھتے تو اتنی دشواری نہ ہوتی، ہاتھ روکنے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ آپ بخیل بن جائیں۔ حدیث پاک کے مطابق ہر کام میں میانہ روی اختیار کیجیے۔ ہر ایک معاملے میں صحیح روش اعتدال اختیار کیجیے۔ انتہا پسندی اور شدت و غلو کسی بھی طرح سے نہ دنیا کے اعتبار سے اور نہ ہی دینی اعتبار سے درست ہے اور نہ ہی آخرت کے لیے مفید ہے بلکہ دونوں جگہ ناکامی و نامرادی ہی کا ذریعہ ہے۔اگر ہمیں اسراف سے بچنا ہے تو ہمیں اپنے مال کو مفید و ضرورت کے وقت خرچ کرنا ہوگا ۔