سید مصطفیٰ احمد
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ آج کل بیشتر انسان مایوسی کے نوالے بن چکے ہیں۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے علاوہ شادی شدہ افراد بھی اس ہچکولے کھاتی ہوئی ناؤ میں سوار ہے۔ بیشتر عظیم ہستیوں اور نامور شخصیات نے زندگی کی باریکیوں پر غور و فکر کرتے ہوئے مایوسی کی اس بیماری پر بھی کافی روشنی بکھیر دی ہے۔ ان کے مطابق مایوس ہونا فطری بات ہے کیوں انسان چیزوں سے محبت کرتا ہے اور بعض اوقات یہی محبت انسان کو دل سے اور باہری آنکھوں سے بھی اندھا کرکے سکون اور لافانیت کے عظیم منصبوں سے دور کرتی ہے۔ ہماری حالت بھی برابر ایسی ہے۔ ہم نے چیزوں کو اپنی جگہ سے ہٹا کر ایسی جگہوں پر بٹھا رکھا ہے، جہاں وہ کسی بھی لحاظ سے معقول نہیں دکھائی دیتے ہیں۔ ترجیحات کو نظرانداز کرکے ہم نے خالق کی جگہ مخلوق کو دی ہیں اور مخلوق کی خالق کو(نعوذ باللہ) اس کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی انسان ہمارے پاس کوئی امانت چھوڑ کر جائے اور ہم سے قسم کھاکر یہ وعدہ لے کہ ہم اس کی امانت کا پورا پورا خیال رکھیں گے۔ ہم وعدے کے مطابق اس کی امانت کا بھرپور خیال رکھیں گے لیکن ایک دن وہ اپنی امانت واپس لینے کے لئے آئے گا تو ہماری کیا مجال کہ ہم امانت دینے سے انکار کرے۔ ایسا ہی معاملہ ہمارا ہے۔ ہم نے پیٹ بھرنے ، عالی شان مکانات ، بینک بیلنس ، سرکاری نوکری وغیرہ کو ہی کل زندگی سمجھا ہے۔ اس کے لئے ہم سب کو پھانسی پر کیوں نہ لٹکنا پڑے، لٹکنا ضروری ہے لیکن رسومات ِدنیا اور لوگوں کی خوشنودی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حقوق پامال ہونے کے علاوہ انسانیت کے اصول کیوں نہ پامال ہوجائیں، ہونے دو، لیکن جھوٹی عزت پر حرف نہیں آنا چاہیے۔ ایسی حالت میں چھوٹوں سے لے کر بڑوں تک مایوسی کے دلدل میں چلے جانا قدرتی بات ہے۔ زندگی ایک یاترا ہے، جتنا بوجھ کم ہوگا، اُتنا ہی سفر آسان اور مفید ہوگا۔بوجھ سے دبے ہوئے کندھوں کے سہارے کتنی دور تک کی یاترا کی جاسکتی ہے، یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔
اصل میں،جیسے کہ اوپر اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب دیکھا دیکھی کا نام زندگی پڑجائے، تب عمر سے بڑے لوگ اس کار ناجائز میں سبقت لے جاتے ہیں۔ دوسروں سے بڑھ کر دکھائی دینے میں سرگرم عمل ہوجاتے ہیں اور اگر ان کی آرزوئیں خود سے پوری نہیں ہوتی ہیں تو پھر وہ اپنے اولاد کو بلی کا بکرا بنا کر اپنے جائز اور ناجائز مقاصد پورا کرنے کی روح کو چھلنی کرنے والی لاحاصل دوڑ میں لگا دیتے ہیں۔ میں خود بھی اس جبر کا شکار ہوگیا ہوں، تو میں اس بات کو لوگوں کے سامنے رکھنے کا حق رکھتا ہوں کہ چھوٹے بچے بھی بڑوں کی حرکتوں کی وجہ سے مایوسیوں کے دلدل میں سر سے پاؤں تک ڈوبے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ میں نے مضمون کے آغاز میں ہی اس بات کی طرف سب کی توجہ مبذول کروائی تھی کہ بچوں کے اذہان میں بھی ایسے گندے کیڑے ڈالے جارہے ہیں جس سے بچوں کی حقیقی نشوونما ہونا محال ہے۔ ایک ایسی utopian دنیا کا خاکہ ان کے سامنے کھینچا جارہا ہے جس میں رنگ بھرنے کے لئے یہ زندگی ناکافی ہے۔ وہ معصوم ہوکر بھی اس بات سے واقف ہونے لگے ہیں کہ زندگی جینے کے لئے سماج میں رائج مخصوص عقل سے بعید اور بےجا اصولوں کی پیروی کرنا نہایت ضروری ہیں تاکہ ایک قابل تعریف زندگی گزاری جاسکے۔ کچھ دنوں پہلے میں ایک تقریر سن رہا تھا ،جس میں مقرر اس بات پر زور دے رہا تھا کہ کیسے گِنے چُنے لوگوں کی پُرآسائش زندگی نے بیشتر لوگوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کیسے کچھ لوگوں کی فضول خرچی پر مبنی زندگی دوسروں کے لیے اجیرن روح بن گئی ہے۔ اس چیز کی سب سے زیادہ شکار ہماری خواتین ہوئی ہیں۔ وہ جلد ہی چیزوں کو role models اور inspiration کی بلندیوں کی معراج پر پہنچا کر خود کو inferiority complex اور اپنے آپ کو have-nots کی دنیا میں شمار کرکے خود کی عظیم ذات کو حقیر سے حقیر تر بنا دیتی ہیں۔ اپنی گھر کی سادگی کو کوستے ہوئے دوسروں کی صحیح یا غلط شان کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتی ہیں اور رحمت کے بجائے ذلت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی so-called celebrities اور influencers سے متاثر ہوکر اپنی حالت پر واویلا کرتے ہیں۔ The all-perfect syndrome کی وجہ سے ان کو اپنے گھر اور گاؤں یا شہر کی ہَوا راس نہیں آتی ہیں اور وہ perfectionist mindset کے جذبات کی رو میں بہہ کر اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتے ہیں۔ ابھرتی جوانی میں ہر خواب کا آنکھوں کے سامنے پورا ہونا ایک نوجوان لڑکی اور لڑکے کے لئے سب چیزوں سے اعلیٰ ترین چیز ہے۔ ان سب آسائشوں کو حاصل کرنے کے لیے ایسی ایسی ترکیبیں بناتے ہیں کہ مایوسی کے علاوہ ان کے ہاتھ اور کچھ بھی نہیں آتاہے اور پھر وہ آہستہ آہستہ ہر رحمت سے محروم ہوجاتے ہیں۔
اب جب کہ ہر طرف مایوسی کے ڈھیرے ہیں تو ایسے میں مرہم کی خاطر کس طبیب سے مشورہ اور رائے لی جائے۔ سب سے بڑا طبیب خدا اور اپنا نفس ہے۔ کسی کے بہکاوے میں آنے سے صد درجہ بہتر ہے کہ خود اپنے نفس سے مخاطب ہوکر پوچھا جائے کہ مایوسی میرے دامن کے ساتھ کیوں دور ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ ایسے کیا وجوہات ہیں جو میرے قلب میں مایوسی کے ٹھاٹھے مارتی ہوئی لہروں کو جنم دیتے ہیں۔ جب اپنی نفس کی گند سے پہچان ہوسکے گی، تب جاکر مایوسی اور بےقراری کے غلیظ کیڑے دامن سے دور ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ خالق کائنات کی دی ہوئی بصیرت اور بصارت کا بھرپور فائدہ اٹھا کر ہم راہوں کا تعین آرام سے کرسکتے ہیں۔ اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر ہم اس سے رحمت کی بھیک مانگ کر اپنے من کے اندھیروں کو دور کرنے کے سامان پیدا کرسکتے ہیں۔
اس فانی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ یہ ایک امانت ہے جو اللہ نے ہمیں کچھ وقت کے لئےہمارے پاس رکھی ہے۔ اس کی منشاء کے مطابق اگر ہم امین ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں تو اس میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ اس کی مرضی جب تک ہماری مرضی نہیں بن جاتی ہے تب تک مایوسی اور بےچینیوں سے اپنے دامن کو بچا لینا بہت ہی زیادہ مشکل ہے۔ ہم سب کو چاہئے کہ دیکھا دیکھی سے پرہیز کرتے ہوئے اس فانی زندگی میں کچھ ایسے کارنامے انجام دیں جو ایک انسان کے لئے باعث اطمینان ہوں۔ کچھ دن خوشی کے اور کچھ غم سے بھرے ہوئے اسی کو تو زندگی کہتے ہیں۔ اس کی چاشنی کم سے کم اخراجات اور کم سے کم چاہنے میں ہے۔ کتنا بوجھ ڈھوتے ہوئے ہم اس دنیا سے چلے جائیں گے اور پھر اپنی بےبسی کا رونا روتے وہاں پر بھی دوسرے لوگوں کے اعمال کو دیکھ کر پھر سے مایوس ہوجائیں گے۔ اس مایا جال سے نکلنا ہوگا۔ ہر لمحہ ہمیں موت کے قریب لے جارہا ہے۔ سود و زیاں کی فکر کئے بغیر ہم بدمست ہاتھی کی طرف ایک ہی بات کا رٹ لگائے بیٹھے ہیں کہ میرے پاس سارا کچھ کیوں نہیں ہے۔ میں ہی مالک کل کیوں نہیں ہوں۔ Perfectionist کے اعلیٰ پائیدان پر کیوں نہیں براجمان ہوں۔ میری خوبصورتی میں کیسےذاغ کے کالے دھبے پڑ سکتے ہیں۔ ایسے بچکانہ سوچ سے کوئی بھی منزل مقصود پر پہنچ نہیں سکتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح بصیرت اور بصارت سے نوازیںاور ہمیں دنیا اور آخرت کے صحیح تصور سے روشناس کریں۔
(رابطہ: حاجی باغ، بڈگام۔7006031540)
[email protected]