کچھ عرصہ قبل بھارتی فلم انڈسٹری سے وابستہ ایک گوئیے نے مسجد سے دی جانے والی اذان پر یہ جتایا کہ ایک تو اُس کی نیند بہ سبب اذان صبح ہی صبح اُچاٹ ہوجاتی ہے اور دوسرے یہ کہ جب اذان کی شروعات کی گئی تھی اُس وقت لاوڈ سپیکر نہیں تھے ،اس لئے اذان لاوڈ سپیکر کے ساتھ مشروط نہیں ہے ۔اُس کا یہ بھی اعتراض تھا کہ یہ نہ صرف زیادتی ہے بلکہ یہ غنڈہ گردی بھی ہے ۔اس ضمن میں پہلا سوال تو یہی پیدا ہوتا ہے کہ وہ پیدائش کے دن سے اذان سنتا آیا ہے، اگر اُس کی لاشعوری عمر کو حذف بھی کیا جائے تو کیا اُس کو اپنی شعوری زندگی کے پچاس سال میں نیند اُچاٹ ہونے کی طرف توجہ نہیں گئی جو وہ آج ایک دم سے پھٹ پڑا ۔دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاوڈ سپیکر بعد کی ایجاد ہے اور وقت کی ضرورت ہے ۔چودہ سو سال قبل جب بجلی ،بیٹری ،ریڈیو ،وائر لیس وغیرہ اس طرح کی کوئی سُوِدھا نہیں تھی تو ظاہر ہے کہ اذان ایسے ہی بغیر کسی سادھن کے دی جاتی تھی ۔موجودہ زمانے میں وقت کی ضرورت کے ساتھ اور انسانی سہولت کے مطابق مختلف اوقات میں معرضِ وجود میں آئے ایجادات سے استفادہ ایک انسان کے لئے لابودی بن گیا ہے ۔گوئیے کے محلے داروں اور قریب رہنے ولے غیر مسلم مکینوں اور دکانداروں سے جب اس بارے استفسار ہوا تو انہوں نے بڑی خوش دلی کے ساتھ اذان کو ’’ویل کم ‘‘کیا ۔اُن کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے روز مرہ کاموں کے شیڈول اذان پر ہی بنا رکھے ہیں کیونکہ جب صبح اذان سن کرجاگتے ہیں توکوئی مندر کو جاتا ہے ،کوئی ورزش کرنے لگتا ہے ،کوئی سیر کے لئے نکلتا ۔گھر کی عورتیں نہا دھوکر پوجا پاٹھ کرلیتی ہیں جو کام دھندے پرجانے والے مردوںاور سکول جانے والے بچوں کو وقت پر مل جاتا ہے اور وہ ٹھیک ٹھیک وقت پر بس،رکشا ،سکول کی گاڑی وغیرہ پکڑ لیتے ہیں اور ایک اذان کے نہ ہونے سے سارا شیڈول معدوم (Defunct)تو نہیں ہوگا مگر اُس میں بادا ضرور پڑے گی بلکہ کافی حد تک روزمرہ کے معمول میں بڑی گڑ بڑ ہو جائے گی۔
یہاں اس بات کی طرف بھی دھیان دینا ضروری ہے کہ آخر سونو نِگم ؔکو ایک دم کیسے سانپ نے ڈس لیا جو اُس نے اپنی ہر دلعزیزی ،خوش گفتاری ،خوش اخلاقی اور بھائی چارے کو لات مار کر ایسی اوٹ پٹانگ حرکت کی کہ وہ سارے بھارت دیش میں تنقید کا ہدف بن گیا ۔میرا خیال ہے کہ اُس کو استعمال کیا گیا تھا ۔اصل میں بات یہ ہے کہ ایوان ِ ناگپور نے یہ فیصلہ لیا ہوگا کہ اذان پر پابندی لگا دینی ہے کیونکہ ایوان آہستہ آہستہ بلکہ ایک ایک کرکے اسلامی شناخت کومسلمانوں سے بلکہ خاص کر بھارت دیش سے مٹا ڈالنے کے درپے ہیں ،اس لئے فیلر کے طور پر اور اُس کاری ایکشن دیکھنے کے لئے سونو نِگم کے کاندھے پر رکھ کر بندوق چلانے کی کوشش کی گئی،جو چلی تو سہی مگر گولی خود اُن کے وجود کو ہی لگی کیونکہ متعصب رجعت پسندوں اور گئو رکھشکوں کو چھوڑ کر باقی تمام ہندوستان کے سیکولر عوام نے اس کی مخالفت اور اذان کی موافقت میں آواز اُٹھائی ،حتیٰ کہ جین دھرم کے ساتھ تعلق رکھنے والے ایک سجن نے سوشل میڈیا پر یہاں تک کہہ دیا کہ اُن کی ماتا جی اذان کے الفاظ کے معنی تو نہیں جانتی مگر وہ کہتی ہیں کہ اذان سننے کے بعد دل میں ایک سکون سا پیدا ہوجاتا ہے ۔ماتاجی اذان ہمیشہ دھیان سے سنتی ہیں۔
بہرحال مندروں سے بھی صبح تڑکے لاوڈ سپیکر وں کے ذریعے بھجن ،کیرتن اور آرتی کی آوازیں زور و شور سے نشر ہوتی رہتی ہیں ،اُس پر نِگم صاحب کو کوئی اعتراض نہیں مگر اذان کی سرمدی آواز جناب کو غنڈہ گردی لگتی ہے ۔میاں یہ گِٹار کی جھنکار ہے نہ طبلے کی تھاپ،مِر دھنگ دھمک ہے نہ گھنگرو کی چھنک ۔غنڈہ گردی کے وسیع معنی ہیں جن کا سمجھنا آپ جیسے گوئیے کے لئے بے حد ضروری ہے ۔یو پی میں مظفر نگر کے ایک پورے گائوں کو آگ کی نذر کردیا گیا ،مردوں کو قتل کرکے مستورات کی بے حرمتی کی گئی اور اُسی تلکا دھاری مفسد نے جس نے یہ کانڈ کروایا تھا ،نے بعد میں نویڈا میں اخلاق احمد کی بے گناہی میں ہتھیا کروادی،اُسی کو غنڈہ گردی کہتے ہیں۔
جھار کھنڈ میں ایک ہفتے میں دومسلمانوں کا قتل کردیا گیا اور اُن کی جھونپڑیاںبھی جلا دی گئیں کیونکہ اُن کے گھر میں ایک گائے طبعی موت مرگئی تھی ،وہ غنڈہ گردی ہوتی ہے ۔ہریانہ میں یکے بعد دیگرے کئی مسلمان نوجوانوں کو پیٹ پیٹ کر قتل کردیا جاتا ہے اور قاتل سرکاری پولیس کی چھتر چھایا میں بڑے دھڑلے سے معصوم اور مفلس مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارتے رہتے ہیں۔اس بے رحمی کو غندہ گردی کہتے ہیں۔دن کے اُجالے میں چلتی ٹرین میں ایک رروزہ دار مسلمان لڑکی کی عصمت ریزی کی جاتی ہے ۔تف ہے ،لعنت ہے ایسے خبیثانہ اور وحشیانہ حرکت پر اور جب ملوث خوک زادے کو گرفتار کرکے لے جایا جاتا ہے، اُسے ہتھکڑی تو کیا کوئی ہاتھ سے نہیں چھوتا اور وہ ہنستے مسکراتے سَر اُٹھاکر ایسے چلتا ہے جیسے اُس نے بابری مسجد کا دوسرا گنبد بھی شہید کردیا ہو ۔اُس ازلی اسلام دشمن کو سرکار نے کیا سزا دی ؟ہجومی بد بختی اور سرکاری غندہ گردی اسی کو کہتے ہیں۔
ہندوستان میں بیشتر مسلمان دودھ کا کاروبار کرتے ہیں ۔وہ گائے خریدیں یا گائے کو علاج کے لئے مویشی ہسپتال لے جائیں ،دونوں صورتوں میں اُن پر حملہ ہوتا ہے اور پیٹ پیٹ کر قتل کردیا جاتا ہے ۔آخر کیوں۔۔؟کس قصور میں؟؟؟اس خبیثانہ حرکت کو غندہ گردی کہتے ہیں ۔میواڈ میں دو کمسن یتیم بچیوں کو اُن کے ماما اور مامی کی موجودگی میں اُنہی کے گھر میں گھس کر اجتماعی عصمت دری کی جاتی ہے ،وہ غنڈہ گردی ہی نہیں بلکہ انسانیت کے مقام سے گر کر ایک تُچھ گندی گھناؤنی حرکت ہے ۔ارے میاں! کیا تمہاری عقلوں پر پتھر پڑے ہوئے ہیں جو ایک دم سے اپنی اپنی سستی شہرت اور آقائوں کی خوشی کے لئے بیان بازی پر آجاتے ہو؟؟؟سمجھنے کی کوشش کرو اور اپنے ملک کے حالات کا مشاہدہ کرو،بے گناہ ،بے قصور ،معصوم اور مفلس مسلمانوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے ،کیسا سلوک کیا جارہا ہے ؟اس غنڈہ گردی کے خلاف بولنے کی ضرورت ہے ، آواز اُٹھانے کی حاجت ہے ۔چلو مان لیتے ہیں آپ کی اپنی آئیڈولوجی کے انوسار ہم وشنو پد سے پیدا ہونے والے اُچھوت ہی سہی مگر پیدائش وشنو سے ہی ہوئی ہے نا ۔۔۔؟اس اعتبار سے ہمیں بھی زندہ رہنے کا ادھیکار ہے مگر آپ لوگ ہماری عزت و آبرو ،زمین و جائیداد ،کھیت کھلیان ،عبادت گاہیں ،مزارات ،دکان ،مکان ،کھان پین کے ساتھ ساتھ ہمیں مارنے ،پیٹتے ،پیٹ پیٹ کر مارنے ،جیلوں میںٹھونسنے ،جھوٹے مقدمات میں پھنسانے ،جعلی انکاؤنٹر کرکے ہماری زندگیوں سے کھلواڑ کررہے ہو ۔حقیقی غنڈہ گردی یہی ہے ۔سن پنتالیس سے لے کر اب تک کی تاریخ دہرائوں یا خود ہی شرمندہ ہوکر اپنے پاپوں کا پراسچت کرو گے ؎
وہ ہمارے گھر جلائے گائوں بستی اور شہر
ہم مسلسل خون سے اپنے وضو کرتے رہے
……………………….
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995